بچے کی پیدائش پر ڈپریشن ہو سکتا ہے


یہ بتائیں کیا آپ کے خاندان میں کبھی آپ کے سامنے کوئی پیدائش ہوئی ہے؟ عموما کا جواب ہاں میں ہوگا۔ گھر میں پیدائش بہت خوشگوار موقع ہوتا ہے ہر بندہ پرجوش ہوتا ہے مگر کبھی آپ نے یہ نوٹ کیا کہ کچھ پیدائش کے موقعوں پہ ماں یا باپ کا رویہ عجیب ہوتا ہے بہت اداس چڑا چڑا یا پریشان؟ کیا آپ کو پتا ہے کہ یہ بھی ایک ذہنی مسئلہ ہے جو کہ براہ راست پیدائش کے عمل سے جڑا ہے۔

اسے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہتے ہیں۔ DSM 5 میں اسے ڈپریسیو ڈس اورڈر ود پیری پارٹم اون سیٹ depressive disorder with peripartum onset کے نام سے شامل کیا گیا ہے۔
اس کی علامات میں نیند اور بھوک کا بے ترتیب ہونا، اداسی، جھنجھلاہٹ، مایوسی، جنسی روابط میں کمی، اینگزائٹی وغیرہ جو کہ عمومی ڈپریشن کی علامات ہیں کے ساتھ بچے سے متعلق پریشان رہنا، اس کی ٹھیک سے دیکھ بھال کرنے سے قاصر محسوس کرنا، اپنی شناخت کھونے کا احساس ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
اس کی شدید نوعیت میں ماں خود ہی اپنے بچے کو مار بھی سکتی ہے جس کے لئے انفینٹیسائیڈ infanticide کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔

اس کی اصل وجہ کا حتمی طور پہ پتا نہیں چل سکا ہے مگر کچھ وجوہات کو سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے جس میں مختلف ہارمون مثلا ایسٹروجین، پروجیسٹرون، تھائرائیڈ ہارمونز، ٹیسٹوسٹیرون اور کورٹیسول وغیرہ کے غیر متوازن ہوجانے سے ہوتا ہے۔ مگر اس میں کچھ تمدنی عوامل( cultural factor ) بھی اہم ہیں۔ والدین بننے کا عمل بذات خود ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے وہاں خاندان میں اضافہ معاشرے میں عزت قائم رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے جبکہ والدین معاشی طور پہ اس قابل نہیں ہوتے کہ بچے کی تمام ذمہداریاں بہ خوبی ادا کرسکیں جس میں مناسب صحت، موسم کے حساب سے غذا اور لباس کا فراہم کرنا، معیاری تعلیم دلوانا اور بچے کو وہ سب مہیا کرنا جو اسے (والدین کی سوچ کے مطابق) اپنے ہم عمروں میں سبکی سے بچا سکے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو حمل کے شروع ہونے کے ساتھ ہی ماں اور باپ دونوں کو پریشان کرتے ہیں مگر ماں کی پریشانی اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اولاد گوری ہے کالی ہے موٹی ہے پتلی ہے اس کے جسم پہ بال زیادہ ہیں یاسر پہ بال کم ہیں یہ سب غلطی ماں کی کہی جاتی ہے لڑکی ہے تب تو غلطی نہیں گناہ کیا ہے عورت نے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کے بارے میں عورت حاملہ ہوتے ہی سوچنا اور پریشان ہونا شروع کر دیتی ہے۔ مغربی ممالک میں ان مسائل کا باقاعدہ ریکارڈ بنایا جاتا ہے کہ آبادی کا کتنے فیصد حصہ ان مسائل کا شکار ہے اور ان کا حل کیاہوسکتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں جہاں جسمانی صحت کی معیاری سہولیات ہی صرف 1% کو میسر ہیں وہاں ذہنی صحت کی طرف توجہ دینے کا نہ شعور ہے نہ جیب میں سکت۔

امریکہ میں کیے گئے سروے کے مطابق وہاں ماں بننے والی 0.5% سے 61% تک ہونے والی ڈلیوریز میں خواتین ڈپریشن کی ان علامات کا شکار ہوتی ہیں جو کہ چند دن سے لے کر چند ہفتوں تک ہوسکتا ہے۔ دو ہفتے مسلسل ایسی کیفیت میں رہنے کے بعد باقاعدہ پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے طور پہ اس کا علاج شروع کیا جاتا ہے۔

پوسٹ پارٹم ڈپریشن چاہے ماں کو ہو یا باپ کو دونوں کا براہ راست اثر ہونے والے بچے کی شخصیت پہ پڑتا ہے جس کے نتیجے میں بچہ بچپن کی ڈپریشن یا غیر متوازن شخصیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ جو کہ ہماری عمومی زبان میں ضدی بدتمیز اور جھگڑالو کہلاتا ہے۔ پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی صورت میں مغربی ممالک سمیت ہر جگہ اپنی پریشانی کی بنیادی وجہ اور غصہ اتارنے کا آسان حدف یہی نومولود ہوتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دنیا میں صرف چند ممالک کے علاوہ زیادہ تر جگہوں پہ ذہنی مسائل کی طرف سب سے کم توجہ دی جاتی ہے جس میں کئی ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں چین جاپان اور امریکہ ایسے ممالک میں سر فہرست ہیں جہاں دن بدن ذہنی مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو واضح نشانی ہے اس بات کی کہ وہاں کی ترقی مادی بنیادوں پہ ہے اور شعور کی ترقی پہ نہ ہونے کے برابر توجہ ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسے ممالک میں ڈپریشن جیسا مرض بالکل قابل علاج نہیں سمجھا جاتا اور اگر ہم پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی بات کریں تو شاید صرف گنتی کے افراد ایسے ہوں گے جو اس کے متعلق جانتے ہوں۔

اس کا علاج ادویات سے زیادہ معاشرتی رویوں میں پوشیدہ ہے ادویات ضروری ہیں مگر صرف گولیاں کھلاتے رہنا جبکہ آپ کا رویہ نئے بننے والے والدین کے ساتھ بالکل بھی تعاون والا نہ ہو بالکل غیر موءثر ہے۔

پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے علاج کے لئے ماہرین نفسیات عموما ایٹی ڈپریسنٹ تجویز کوتے ہیں مگر اس کے ساتھ مسئلے کے شکار فرد بلکہ دونوں والدین کی سپورٹ بہت ضروری ہے۔ ایک بات ہمیں ہمیشہ اول اصول کے طور پہ اپنانی چاہیے کہ بچے صرف والدین کی ذمہ داری نہیں ہوتے یہ خاندان کی بلکہ معاشرے کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ آپ اگر والدین کی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم اولاد کی ہر غلطی پہ انہیں ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ اور اگر اپ کو ان کے تجربے میں کمی محسوس ہورہی ہے تو مناسب طریقے سے تربیت میں مدد کریں۔ الزام تراشی کا عمل ایک چکر کی طرح معاشرے سے باپ، باپ سے ماں اور ماں سے اولاد کی طرف منتقل ہوتا ہے اور کبھی نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima