نواز شریف: ’پارٹی صدارت سے نااہلی کا فیصلہ غیرمتوقع نہیں تھا‘


نواز شریف
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ان کا نام باقی رہ گیا ہے، آئین میں کوئی شق نکال کر وہ بھی چھیننا چاہتے ہیں تو چھین لیں

پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے بھی نااہل قرار دیے جانے پر سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ان کے لیے غیرمتوقع نہیں تھا۔

جمعرات کو اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزارتِ عظمیٰ اور پارٹی صدارت چھین لینے کے بعد اب اس چیز پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ نواز شریف کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو انتخابی اصلاحات ایکٹ کے مقدمے میں وزیراعظم نواز شریف کو ان کی سیاسی جماعت کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دیا ہے اور ان کی جانب سے 28 جولائی کے بعد بطور پارٹی صدر کیے جانے والے تمام فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیے ہیں۔

عدالت نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا شخص کسی سیاسی جماعت کی صدارت بھی نہیں کر سکتا۔

اس فیصلے کے بعد پہلی مرتبہ اپنا ردعمل دیتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’کل کا جو فیصلہ ہے، جسے پارلیمان کہتے ہیں اس کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے اور جو 28 جولائی کا فیصلہ تھا جس میں میری وزارت عظمی چھین لی گئی، یہ جو فیصلہ ہے میرے لیے غیر متوقع فیصلہ نہیں ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میرے پاس اب میرا نام محمد نواز شریف باقی رہ گیا ہے، آئین میں کوئی شق نکال کر مجھ سے وہ بھی چھیننا چاہتے ہیں تو چھین لیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انھوں نے حکومت کو مفلوج کر دیا ہے اور اس بارے میں پرسوں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر ممبران نے بڑے واضح انداز میں بات کی۔‘

ادھر نواز شریف کی بطور صدر مسلم لیگ ن نااہلی کے بعد ممکنہ طور پر پارٹی قیادت کے حوالے سے مشاورت کے لیے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا اہم اجلاس جمعرات کو پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہل کیے جانے کے بعد نواز شریف نے بدھ کو لاہور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے بھی تفصیلی ملاقات کی تھی۔

اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی ’پارٹی قیادت وہی سنبھالے گا جسے نواز شریف اہل سمجھیں گے۔‘

نواز شریف

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعرات کی صبح صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عوام کا حقِ حکمرانی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’انجینیئرڈ الیکشن اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہرگز قبول نہیں۔‘

اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایک بیان میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو انصاف کے بنیادی تقاضوں کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک سیاسی جماعت سے اس کا سربراہ چننے کا جمہوری حق چھین لیا گیا ہے جو کہ پاکستان میں جمہوری اقدار کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماضی میں بھی ایسے متنازع فیصلوں سے سیاسی جماعتوں سے ان کی قیادت چھیننے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں۔

خیال رہے کہ جولائی 2017 میں سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے سربراہ کا عہدہ بھی چھوڑنا پڑا تھا۔

اس کے بعد پارلیمان میں انتخابی اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت کوئی بھی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا۔

انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری کے بعد نواز شریف اکتوبر 2017 میں اپنی جماعت کے دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے تاہم اس انتخابی اصلاحات بل کو حزب مخالف کی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں چیلینج کر دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp