آپ زندہ نہ کرتے تو نوازشریف نے بھی اک دن مر جانا تھا


بھٹو صاحب میں عوامی مقبولیت اور اقتدار کی طاقت جمع ہو گئی تھی۔ ایسے میں کچھ نہ کچھ پھر ہو کر رہتا ہے۔ اخے گل کھلتے ہیں بہار آتی ہے۔ بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کا گل کھلا کر دیکھا۔ شریفوں کی اتفاق فاؤنڈری بحق سرکار ضبط ہوئی۔

پھر اک دن غلط یا ٹھیک اطلاع پر کہ ماڈل ٹاؤن شریفوں کے گھروں پر قبضہ ہونے لگا۔ شریف فیملی کے جوان بندوقیں تان کے سپاہی حال لیٹ کر گھر کی حفاظت بھی کرتے رہے۔ پتہ نہیں پھر کیا ہوا (خود ہی پتہ کر لیں ، ہم کونسا تاریخ لکھ رہے )۔اس کاروباری خاندان کو سمجھ آ گئی کہ صرف پیسہ نہیں طاقت بھی چاہئے۔ کہانیاں بہت ہیں المختصر نوازشریف کو جنرل ضیا نے سیاسی رنگروٹ بھرتی کر لیا۔

میاں صاحب نے پھر وردی کی آشیرواد لے کر پی پی کو ایسی ایسی ٹکر ماری کہ اب تک یاد کرتے ہیں۔ زرداری صاحب پر ہی الزام لگاتے ہیں ویسے بھی ان پر ہر الزام فٹ ہو جاتا۔ زرداری صاحب نے کہا جیالو جب تک پیسہ نہیں ہو گا شریفوں کا مقابلہ نہیں ہو سکے گا۔ اٹھاسی میں جیالوں کا محنت سے کمایا پیسہ لے کر بھاگ جانے والوں کی کہانیاں سنیں تو اک محاورہ سمجھ جائیں گے۔ وہی چوروں کو پڑ گئے مور اور موروں کو ہور والا۔

ووٹر لیڈر کا تعلق ہے ہی الگ۔ یہ اکٹھے خواب دیکھنے کا ، اچھے برے وقت اکٹھے گزارنے والا بڑا عجیب تعلق ہے۔یہ بڑا ظالم نشہ بھی ہے ۔ بھٹو یہی تعلق بناتے نبھاتے پھانسی پاتا ہے۔تا ہے۔ الطاف حسین کو یہی تعلق  بے قابو کرتا ہے ۔ نوازشریف کبھی جلاوطن ہوتا ہے کبھی نااہل۔

یہ ووٹر کا تعلق لوگوں کا اعتماد ہی ہوتا ہے۔ جو لیڈر کو انکار کی طاقت دیتا ہے۔ نوازشریف نے پہلا انکار بیوروکریسی کے گاڈ فادر غلام اسحق کو کیا۔ پکڑ کر نکالے گئے۔ وہی انکار انہیں عوامی مقبولیت دے گیا۔ پھر آئے صدر کو عدالت کو ٹکریں ماریں۔ آرمی چیف سے استعفی لیا۔ دوبارہ مشرف کو برطرف کرتے ہوئے خود اندر ہو گئے۔ پھر جلاوطن ہو گئے۔ پھر واپس آ گئے پھر وزیراعظم بن گئے، کیسے؟

اس بار تو فوج سے ٹکرائے تھے۔ اک شرمناک سا معاہدہ کر کے گئے تھے۔ پارٹی کے منتخب ممبران کی تعداد ڈیڑھ درجن رہ گئی تھی۔ ان میں سے بھی کافی سارے بھاگ گئے تھے۔ پھر ایسا کیسے ہو گیا کہ یہ واپس آتے ہیں۔ الیکشن کے لیے کاغذات جمع کرانے کے لیے چند گھنٹے، بہتر سو یا جتنے بھی تھے، کم ہی تھے۔ یہ پنجاب کی حکومت بنا لیتے ہیں۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کی اکثریتی سیٹیں جیت جاتے ہیں، کیسے؟اک جواب تو یہ ہے کہ میاں صاحب نے جلاوطن ہو کر جان بچائی۔ ان کے ساتھیوں نے سر جھکا کر پارٹی بدل کر بچا لی ۔ جب واپسی ہوئی تو سب پھر اکٹھے ہو گئے ۔ کیسا لگا یہ جواب۔

بات کھل کے کرنی ہو گی۔ اپنا ملک ہے اپنے سیاستدان اپنے لوگ اپنی عدالت اور اپنی فوج ہے۔ اصل میں جب سے ملک بنا ہے سول ملٹری کبڈی جاری ہے۔ کبھی سول نیچے اور کبھی فوج اوپر۔ بھائی اپن سول کو اوپر کرنے والی گستاخی نہیں کر سکتا۔

آپ کبھی بازار تو گئے ہوں گے۔ کبھی چھاؤنی والی کسی مارکیٹ جائیں۔ دکاندار سے پوچھیں کہ فوجی خریداری کرتے وقت کیا بات اکثر پوچھتا ہے۔ دکاندار کو سمجھ نہیں آنی ، آپ کو بھگا دے گا۔ یہ سوال باڑہ مارکیٹ کے کسی دکاندار سے پوچھ کر دیکھیں۔ وہ آپ کو دلچسپ جواب دے گا کہ فوجی افسر جب بھی کچھ خریدتا ہے تو پوچھتا ہے اس کی پیکنگ ہے؟

پتہ ہے وہ ایسا کیوں پوچھتا ہے؟ اس لیے کہ اس کا قیام ہر جگہ مختصر ہوتا ہے۔ اس کی پوسٹنگ کسی بھی جگہ دو یا تین سال کے لیے ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ شفٹنگ کرتے ہوئے پیکنگ بغیر میرا خریدا ہوا آئٹم گھٹ ہی اگلے سٹیشن پر پہنچے گا۔

ہمارا فوجی بھائی جو سوچتا ہے ۔ جتنے منصوبے بناتا ہے ان کی شیلف لائف دو سے تین سال ہوتی ہے۔ مارشل لا لگتا ہے تو ہر جانب دودھ شہد کی لہر بہر ہو جاتی ہے۔ دو سال بعد پتہ لگتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے نام کا اک پرندہ ہے اسے پکڑنا ہی ہوگا۔ بلدیاتی الیکشن ہوتے ہیں۔ ادھر پلان کی شیلف لائف ختم ہونے لگتی تو یاد آتا ہے کہ قومی اسمبلی منتخب حکومت ضروری ہے۔ ہم کو دنیا کے ساتھ چلنا ہے۔ کون کون سی پابندی لگنے والی ہے۔ کونسی پابندی اب ناقابل برداشت ہوتی جا رہی۔ ان بلڈی سویلین کو لاؤ۔

اس کے بعد بچے کھچے غصے کے ساتھ نئے قانون بنا کر لیڈر لوگ باہر رکھے جاتے ہیں۔ بی اے کی ڈگری قسم کے قانون بن جاتے ہیں۔ بڑے لیڈر باہر ہو جاتے ہیں چھوٹے لیڈر ستر روپے کی فوٹو کاپی والی ڈگریاں لے کر ووٹر کو آنکھر مار کے اسمبلی پہنچ جاتے۔ آپ قوم کے ساتھ حلال دہ کام کرتے ہو۔ قوم اپنے حلال دے منتخب کرکے متھے مارتی ہے کہ لے پھر۔

وقت بڑا استاد ہے یہ سب سکھا دیتا ہے۔ اتنا استاد ہے کہ برے کو اچھا کر دیتا ہے۔ آخر میں لیڈر بھی واپس آ ہی جاتا ہے۔ پر کتنا قومی وقت ہم برباد کر بیٹھے یہ حساب کتاب کبھی کوئی کرے۔

اگر ہم سب روٹین میں چلنے دیں تو پی پی جیسی جاندار جماعت بھی الیکشن پراسیس میں دم دیتی ہے۔ ووٹر موقع دیتا احتساب کرتا فارغ کر دیتا۔ دل کرے گا تو پھر لے آئے گا۔

لیڈر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگوں میں رہتا ہے۔ بہت دور کی سوچتا ہے۔ اس کے منصوبے نسلوں کے لیے ہوتے ہیں ۔ وہ کرپٹ بھی ہو تو لوگوں کو ہی چکر دینے کے طریقے سوچتا رہتا۔ سڑک ادھر سے بناؤں انڈسٹریل سٹیٹ ادھر بنے۔ پیسہ فلاں لوگ کمائیں گے۔ فائدہ اتنے لوگوں کو ہو گا اتنے ووٹ ملیں گے۔ دس سال میں کام پورا ہو گا۔ اتنے لوگ کم سے لگے رہیں گے اتنے آسرا کریں گے۔ تب تک بچے جوان ہو کر میری گدی سنبھال لیں گے۔

اگر وہ یہ سب نہیں کرے گا تو ووٹر ہی اس کو جیتے جی مار دے گا۔

ہمارے ساتھ عجیب کھلواڑ ہو گیا۔ ہم یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ جہاد فرض ہے۔ یہ کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن وہی جہاد ہم کر پائیں گے جسے دنیا اون کرے گی۔ جیسے افغانستان میں جہاد کیا۔ ساری دنیا نے جہاد مانا۔ اب وہی جہادی ہیں دنیا انہیں فسادی کہتی مگر ہمارا دل ہے کہ مانتا نہیں۔

پہلے پی پی نے امن کا خواب دیکھا۔ اپنے سول دماغ سے تیز رفتار منصوبے سوچے۔ پھر ڈنڈا دیکھ کر سکون سے حکومت کی اداکاری کرنے پر گزارا کیا۔

نواز شریف کی سیاسی طاقت بہرحال آصف زرداری سے زیادہ ہے۔ انہیں روکنے کے لیے ادھار کی سیاسی عقل استعمال کرنے والا کپتان میدان میں اتار دیا گیا۔ پھر ہم نے دیکھی کپتان کی محنت ۔پارلیمنٹ کی دیواروں پر جمہوریت کی شلوار اتار کر سوکھنے کو لٹکا دی گئی۔

آپ نے پڑھا کتنے آرام سے فوج کا ذکر کیا اس تحریر میں۔ قسمے بڑا آسان تھا یہ کہنا۔ اپنے ہی ہیں اب سن لیتے ہیں۔ پر لگتا ہے  اب مائی لارڈ نہیں سنتے۔ تبھی تو اپنے فیصلوں کی اب وضاحتیں بول بول کر کرتے ہیں ۔

ہمارے ملک میں ملزم کو اپیل کے تین حق حاصل ہیں۔ ہائیکورٹ سپریم کورٹ میں دو دو تین تین جج اکٹھے بیٹھ کر مقدمہ سنتے ہیں۔ اپنی پوری سی عقل مطابق یہ سمجھ آئی ہے۔ یہ انتظام اس لیے ہے کہ جج سکون سے پچھلے فیصلے سے لاتعلق ہو کر مقدمہ سنے۔ دو لوگ اس لیے بیٹھتے کہ وہ اک دوسرے سے مختلف سوچتے ہیں۔ عدالت کا حسن اس کے ججوں کے اختلاف کو بھی مانا جاتا ہے۔

مائی لارڈ نے وکیلوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری ڈیڑھ لاکھ کی فوج ہے۔ مائی لارڈ یہ آپ نے کیا کہہ دیا ۔یہ تو بنیاد ہی غلط ہو گئی۔ مائی لارڈ آپ غلط ہو گئے ہیں۔ آپ غلط سمت چل پڑے ہیں ۔ آپ خود کو جو سمجھ رہے وہ تو آپ سے کوئی چاہتا نہیں ۔ دیکھیں آپ نے کیسے نوازشریف کو زندہ کر دیا۔ اس نے تو اک دن مر جانا تھا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi