ایران کی بھارت سے کچی پکی دوستی اور پاکستان کو محبت کے اشارے


پاکستان اور بھارت کے معاملات اتنے تلخ ہیں کہ اگر کوئی بھی معاملہ دونوں فریقین کی سرزمین پر وقوع پذیر ہو تو اس کا مطالعہ اور اس کے حوالے سے تشویش کا ذہنوں میں تخلیق پا جانا نہایت فطری عمل معلوم ہوتا ہے۔ حسن روحانی کا دورہ بھارت بھی اس تصور سے مستثنیٰ نہیں۔ اور اسی کی اہمیت اس لئے بھی قدرے بھر جاتی ہے کہ ایران اور پاکستان کی ہمسائیگی دونوں ممالک کی سلامتی کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ حسن روحانی کے حالیہ دورہ بھارت میں ایران اور بھارت کے درمیان 9 معاہدوں کو حتمی شکل دی گئی۔ جن میں دوہرے ٹیکس کا خاتمہ زرعی تعاون، ادویات کے معاملات اور پورٹ لیز وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن اس میں سب سے اہم واقعہ چابہارکی ایرانی بندرگاہ کے پہلے حصے کو بھارت کے آپریشنل کنٹرول میں 18 ماہ کے لئے دینے سے ہوا۔

چابہار پاکستانی بندرگاہ سے 90 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی اس اپنی تجارت کے لئے اس ایرانی بندرگاہ کو زیر استعمال لانا چاہتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان کے مابین شکایات کے انبار موجود ہیں اور اسی سبب سے افغانستان بھی ایک دوسرا راستہ قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ بالخصوص بھارت سے تجارت کے معاملات میں وہ صرف پاکستانی راستے پر انحصار نہیں کرنا چاہتا۔ حالانکہ شمال مشرقی افغانستان سے واہگہ بارڈر اور کراچی کے ساحلوں تک رسائی زیادہ آسان ہے کیونکہ نہ تو یہ راستہ دشوار گزار ہے اور نہ ہی طویل۔

پھر سال کے 12 مہینوں یہ راستہ کھلا بھی رہتا ہے۔ مگر شمال مشرقی افغانستان سے چابہار تک کا راستہ طویل، کٹھن اور سردیوں میں برف باری کے سبب سے ہفتوں بند بھی رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں سے بروقت سامان کی ترسیل ممکن نہیں رہتی۔ بالخصوص پھلوں کی تجارت کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ انڈیا، ایران اور افغانستان نے اس اقتصادی راہداری کا معاہدہ کیا تھا اور اب اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر بھارت چابہار کی بندرگاہ تک آ پہنچا ہے۔

بھارت اس سے قبل ہی افغانستان کو اسی راستے سے گندم کی ترسیل شروع کر چکا ہے۔ بھارت نے افغانستان کو 11 لاکھ ٹن گندم بطور امداد دینے کا پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔ اور وہ اس مقصد کے لئے چابہار کی بندرگاہ کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ ایران اور بھارت چابہار کو بذریعہ ریل زاہدان سے ملانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں اور نریندر مودی نے ایرانی صدر سے حالیہ دورہ ایران کے دوران اس پر بہت تفصیلی گفتگو بھی کی ہے۔

بھارت کوشش کر رہا ہے کہ وہ چابہار کی بندرگاہ کے ذریعے وسطی ایشیاء، روس اور حتیٰ کے یورپ تک رسائی حاصل کر لے۔ ایران کے لئے ان معاہدوں کے علاوہ بھی اس وقت بھارت کو نظر انداز کرنا اور بھارت کے لئے ایران کو غیر اہم سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ ایران پر 2012؁ء کی اقتصادی پابندیوں سے قبل ایران بھارت کو تیل مہیا کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا۔ جبکہ اقتصادی پابندیوں کے دوران یہ معاشی تعلقات نسبتاً روبہ زوال ہوتے چلے گئے مگر اب بھارت اور ایران کے مابین تعلقات دوبارہ اس حد تک آ پہنچے ہیں کہ ایران بھارت کو تیل سپلائی کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔

بھارت کی بلکہ کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کا دارومدار توانائی پر ہوتا ہے۔ ایران بھارت کو توانائی بیچ کر اپنی معیشت کو استحکام دے رہا ہے جبکہ بھارت ایران پر انحصار کر کے اپنی معیشت چلا رہا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ایران اور بھارت ایک دوسرے پر مکمل بھروسہ کرنے کی صورتحال میں آ چکے ہیں۔ بھارت گذشتہ کئی برسوں سے خواہش رکھتا ہے کہ جنوبی ایران کے آئل فیلڈز سے تیل اور گیس نکالنے کے معاہدے اس سے کر لئے جائیں۔ مذاکرات کے کئی دور ہوئے مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ ایران اس کو عملی جامہ پہنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ فرزاد آئل فیلڈ جو بھارت سے منسلک بھی ہے اس کے حوالے سے بھی دوبار ہ کھلی بولی کی باتیں ایران میں شروع ہو چکی ہیں۔

ویسے ان آئل فیلڈ سے معاہدوں کی مالیت اربوں ڈالروں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ جو تاحال نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ جب احمدی نثراد کے دور میں ایران اور بھارت کے تعلقات بھرنے لگے تو ایران یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ جوہری معاملات میں بھارت کی حمایت یا کم از کم خاموشی حاصل کر لے گا۔ اس دوران آئی اے ای اے میں ایران کے معاملے پر رائے شماری ہوئی۔ ایران اتنی زیادہ خود اعتمادی کا شکار تھا کہ رائے شماری سے ایک دن قبل متوقع حمایت پر بھارت کا شکریہ تک ادا کر ڈالا۔ مگر اگلے دن بھارت نے مخالفت میں ووٹ ڈال دیا۔ ایران ہکا بکا رہ گیا۔ امریکہ نے ایران کی جگہ عربوں سے بھارت کی توانائی کی ضروریات پوری کروانے کا وعدہ کروا دیا۔

پھر اسی طرح دہلی تہران کو رقم ادا کرنے کے لئے ترکی کے بینک کو استعمال کرتا تھا۔ مگر واشنگٹن نے یہ رقم کی ترسیل کا نظام بند کروا دیا۔ ایران کی دیرینہ خواہش ہے اور وہ بار بار بھارت سے خواہش کر چکا ہے کہ وہ اپنے بینک کی شاخیں بھارت میں کھولنا چاہتا ہے۔ مگر بھارت امریکہ کے دباؤ پر انکار کر رہا ہے۔ ایک اور وجہ بھارت اسرائیل تعلقات بھی ہیں۔ ابھی حسن روحانی حیدر آباد دکن کی تعمیر کرانے والے ایرانی نثراد شاہی خاندان، قطب خاندان کے مقابروں پر حاضری دینے کے ساتھ ساتھ وہاں کی جامعہ مسجد بھی گئے اور انہوں نے مسلمانوں میں اختلافات کی وجہ کو قرار دیا کہ امریکہ کو اب یہ جرات ہوئی کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے۔

ایرانی مذہبی طبقوں میں بھارت، اسرائیل دوستی پر سخت تشویش ہے۔ اس لئے گذشتہ عیدالفطر پر ایران کے روحانی رہنماء آیت اللہ خامنائی نے سات سال بعد اپنے عید کے خطبے میں کشمیر پر بھارتی مظالم کا ذکر کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بار بار جوہری معاہدے کی منسوخی کا بیان داغ رہے ہیں۔ اسی سبب سے ایرانی صدر نے بھارت میں کھڑی ہو کر جوہری معاہدے پر کاربند رہنے کا عزم دوہرایا لیکن ٹرمپ اگر ایسا کچھ کر گزرے اور ان کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی جو ایران سے معاہدوں پر عمل درآمد جاری رکھنا چاہے تو بھارتی کمپنیاں لمحوں میں ایران سے معاہدوں پر عملدرآمد ترک کر دے گی۔ اور ایران یہ جانتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).