میاں صاحب کی دوبارہ نا اہلی اور بگٹٹ بھاگتی ہوئی ریاست


جذباتیت میں رہنے کا بہت لطف ہے۔ یہ لطف مزید بڑھ جاتا ہے جب جذباتیت، جذباتی جہالت میں ڈھل جاتی ہے۔ معاشرے چونکہ اکثریتی مزاج پر اپنی بنیاد کرتے ہیں تو ہر طرح کی جذباتی جہالت میں جینے کا قبائلی لطف دو چند ہو جاتا ہے۔ اس کے مظاہرے میں آج کل پھر دیکھ رہا ہوں۔ مگر اس سے پہلے کچھ پس منظر ہو جائے۔

میں نے اپنا سب سے پہلا ووٹ 1993 کے الیکشنز میں پاکستان پیپلز پارٹی کو دیا تھا، اور اس پہلے ووٹ سے قبل میں، 1990 میں سیاسی طور پر منتخب شدہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات پر فارغ ہوتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ بی بی محترمہ شہید کو میاں نواز شریف صاحب کی حکومت نے حاصل کیا اور پھر جنابِ محترم غلام اسحاق خان نے میاں صاحب کی حکومت کو عین انہی الزامات کی زد میں لا کر فارغ کیا جو اس سے قبل انہی صاحب نے بی بی محترمہ پر لگائے تھے۔

بی بی کے جانے پر بھی مٹھائیاں بٹی، اور میاں صاحب کے جانے پر بھی لوگوں نے نعرے مارے۔ دونوں حکومتوں کے غیرجمہوری طور پر برطرف کیے جانے پر اپنی اپنی جماعتوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہوئے عوام نے یہ سوچا ہی نہیں کہ یہ سانپ سیڑھی کا کھیل ہے جس میں غیرجمہوری سانپ ہمیشہ سیاسی جمہوریت اور سیاسی جمہور کو عین اس وقت ڈس لیتا ہے جب یہ کھیل کچھ متوازن ہونے لگتا ہے۔ چونکہ مجھے کسی بھی ادارے کی توہین یا نازک مزاجی کے برہم ہو جانے پر غائب ہو کر پیشیاں بھگتنے کا کوئی شوق نہیں، تو لہذا آپ پاکستانی ریاست اور اس کی قابلیت پر آپ خود ہی تبصرہ فرما لیجیے جس کے نتیجے میں اس وقت کے ہیروں جیسے لوگ نہ تو بی بی اور نہ ہی میاں صاحب کو کرپشن کے الزامات پر مجرم ثابت کر سکے۔

دونوں پلٹ کر واپس آئے۔ بلکہ 2007 میں تو اس وقت کے ”روشن خیال سید صاحب، “ جو کل کے ”فاتحِ بلوچستان“ تھے اور آج کل دوبئی میں ناچتے ہوئے پائے جاتے ہیں، نے منتیں کر کے بی بی محترمہ اور پیپلز پارٹی کے دیگر اکابرین کے ساتھ این آر او کا معاملہ کیا۔ یہ معاملہ لندن میں بی بی اور میاں صاحب کے مابین طے پائے جانے والے میثاقِ جمہوریت کے بعد کی کارروائی تھی اور اس کا گلہ، میاں صاحب نے بی بی محترمہ کے ساتھ ان کی زندگی کے آخر تک قائم رکھا اور بعد میں جناب آصف علی زرداری صاحب کے ساتھ بھی اسی گلے شکوے میں آپسی دوریاں ڈال بیٹھے۔

سیاستدان تقسیم ہوئے تو اس کا فائدہ غیرسیاسی اور چھپے ہوئے شوقین مزاج سیاسی شہنشاہوں نے اٹھایا۔ یہ مداخلتیں کبھی کھلے عام ہوئیں تو کبھی ریاستی قوانین کو بہت چالاکی سے استعمال کرتے ہوئے بےشرمی کے نتائج کے ذریعہ سے مقاصد کے حصول کے لیے کی گئیں۔ پوشیدہ یا کھلے عام، دونوں صورتوں میں نقصان پاکستانی سیاست، سیاستدانوں، شہریوں اور قوم کا ہوا۔ جب ریاست میں رہنے والوں کا نقصان ہوتا ہے، تو صاحبو، اصل میں نقصان، ریاست کا ہی ہو رہا ہوتا ہے۔

مگر وہی کہ جذباتی جہالت کے اپنے مزے ہیں۔ جن کو ترک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

میں قسم اٹھاتا ہوں کہ میں نے اپنی تمام زندگی میں کسی سیاستدان کے ساتھ اتنی بےرحمی کے ساتھ اک بے شرمی والا سلوک ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، جتنا نواز شریف صاحب کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ جب ان کو کل اک عظیم آئینی ادارے نے کہ جس کی بغلوں میں خود اپنے کرنے والے کاموں کی تعداد ”صرف“ اٹھارہ لاکھ ہے نے اپنی جماعت کی صدارت کے لیے بھی ناہل کیا تو تحریک انصاف کے کارکنان کو خوش و مسرور دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی اور مسرت ہوئی۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب کو دوسری بار نا اہل قرار دیا گیا، اور میں اس بات پر خوش ہوں کہ تاریخ گویا اپنے آپ کو دھرانے جا رہی ہے۔ تاریخ کے اس دہراؤ میں اور اگر تاریخ کے اسباق میں کوئی صداقت ہے تو وقت مسلم لیگ نواز کے حق میں ہی پلٹے گا۔ میاں صاحب کی نا اہلیت پر تحریک انصاف عین اس پوزیشن پر کھڑی ملی جس پر 1990 میں مسلم لیگ نواز اور 1992 میں پیپلز پارٹی کھڑی ہوئی تھی۔ دونوں کے ہاتھ سوائے تاریخ کے اسباق کے کچھ نہ آیا۔

1997 میں محترم جناب حمید گل مرحوم کے نرم انقلاب کے سیاسی اور انکل نسیم کے روحانی معاملات کی چھاؤں میں وجود میں آنے والی تحریک انصاف تاریخ کے غلط سمت کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ کچھ زیادہ آنے کی توقع نہیں۔ وقت نے چونکہ آگے بڑھ جانا ہے اور اگر سیاسی تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنا ہے تو وہ یہی ہے کہ اداراتی جاتی میکنزم کے ذریعہ سے سیاسی قوتوں کو کبھی نہ دبایا جا سکا ہے، نہ ہی دبایا جا سکے گا، بھلے بے شرمی اور طاقت کے غرور کی حد کوئی بھی ہو۔ میں نواز شریف صاحب نہیں، اک سیاسی جماعت جو اقتدار میں ووٹ کی طاقت سے آئی ہے، کی مسلسل توہین پر پشیمان ہوں۔ پریشان مگر اس لیے ہوں کہ سیاست کے ادارے پر مسلسل وار اور سیاستدانوں کی متواتر توہین کی وجہ سے شہری اپنی ریاست کے ساتھ سیاسی تعلق کمزور تر کیے چلے جاتے ہیں اور جہاں توہین کا احساس شدت سے موجود ہو، وہاں احساس ملکیت پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔

میرا پچھلا ووٹ تحریک انصاف کو اس لیے تھا کہ میں اس جماعت کو اپنی ججمنٹ کی غلطی سے پاکستانی مڈل کلاس طبقے کی روشن خیال نمائندہ سمجھ بیٹھا تھا۔ یہ اس کے بالکل الٹ نکلی۔ میرا اگلا ووٹ نواز شریف صاحب کا ہے۔ اس لیے نہیں کہ مجھے ان سے محبت ہے۔ اس لیے کہ مجھے لکھے ہوئے آئین کے دن کی روشنی میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ریاست، اندھیرے میں آنکھوں پر پٹی باندھے بگٹٹ بھاگتی ہوئی ریاست سے زیادہ بہتر محسوس ہوتی ہے۔

آپ جس کو چاہے، ووٹ دیجیے۔ ووٹ مگر ضرور دیجیے۔ یہ آپ کا آئینی و سیاسی فرض بھی ہے۔ مگر آپ کا تعلق اگر تحریک انصاف سے ہے تو اتنا ہی کہتا چلوں کہ آپ اگر میاں نواز شریف صاحب کے ساتھ ہونے والے سلوک پر خوش ہیں، تو کل مسلم لیگ نواز، جو کہ فی الحال آپ سے بڑی سیاسی حقیقت ہے، آپ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے سے شاید خود کو قاصر محسوس کرے گی۔ اور مجھے اس کا دکھ اس لیے ہو گا کہ میں پاکستان کو پچلے چالیس سال سے دائروں میں ہی بھاگتے اور ہانپتے ہوئے دیکھتا چلا آ رہا ہوں۔

پس تحریر: موجودہ سیاسی منظر پر، مسلم لیگ نواز کے حوالے سے میرا اک سازشی نظریہ بھی ہے جو ہم سب پر اک مضمون میں پہلے آ چکا ہے۔ میں اس سازشی نظریہ پر ابھی بھی قائم ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).