سوا دو نمبر کا منہار


وہاں اس وقت بھیڑبہت کم تھی۔ میں اسٹول پر بیٹھ گئی۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر آہستہ سے دبایا اور چھوڑ دیا۔

کونسی والی ؟اس نے دیوار میں سجی چوڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختصراً پوچھا۔

یہ والی، مگر ڈھائی نمبر نکالنا۔ میرا ہاتھ بالکل لٹھا ہے۔ میں نے تاکید کی۔

باجی آپ فکر ہی نہ کریں میں آپ کو سوا دو پہناﺅں گا۔

 ارے بھیا، زندگی بھر ڈھائی نمبر پہنی ہے اب تم سوا دو کہاں سے پہنا دو گے؟ میں ہنسی۔

باجی دیکھتی رئیے۔ وہ گال میں گٹکا یا پان دبائے تھا اور پیک کو روکتے ہوئے خاص انداز سے بول رہا تھا۔

ہائیں یہ اتنی چھوٹی چوڑیا ں؟ میں خوفزدہ ہوگئی۔ میں نہیں پہنوں گی خواہ مخواہ ہاتھ زخمی ہوگا۔ میں نے حجت کی۔

باجی آپ میرے پر چھوڑ دو نا۔ آپ کو چوڑییں پہنانی ہیں یا میرے کو۔ اس نے اگالدان اٹھا کر اس میں گٹکا تھوکا تو صحیح طرح سے بولنے کے قابل ہوا۔ باجی اس میں کڑے لگا دوں۔ اس نے دوخوبصورت کڑے بھی اس میں جوڑتے ہوئے کہا۔

اس سے قیمت اور بڑھ جائے گی ؟۔ پہلے ہی تم مہنگی دے رہے ہو۔ امی نے کل مجھے تمہاری دکان دکھائی تھی۔ مگر دوپٹے چنوانے میں دیر ہوگئی۔ اب تم دام اتنے زیادہ بتا رہے ہو۔ میں نے خفگی سے کہا۔

 باجی آپ فکر نہ کرو۔ آپ کو شکیت نئیں ہوگی۔ اس نے نیا پان منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔ جوڑ دوں کڑے بولو؟

مہنگے ہیں۔ میں نے تکرار کی۔

 باجی چوڑیوں میں مول بھاﺅ نئیں کرتے۔ یہ تو نصیب کی چیج ہے۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

اچھا ٹھیک ہے۔ جلدی کرو۔ میں نے اس کا اطمینان دیکھتے ہوئے اپنی جان چھڑانے کے لئے کہا۔

باہر سے آئی ہو باجی۔ اس نے انگلیوں میں کڑے اور دو چوڑیاں گھماتے ہوئے پوچھا۔

ہوں۔ میں نے بے دلی سے کہا۔

 باجی اماں ہماری سترّ برس کی عمر میں اللہ کو پیاری ہوئیں۔ کانچ کی دو چوڑیئں سہی مگر ہاتھ کبھی ننگا نئیں رکھا۔ اللہ کے فضل سے ابا کے ہاتھ سے مٹی پائی۔ کہتی تھیں چوڑیا ں ہنس کے پہناﺅ۔ کبھی کدار اپنے فیروز آباد کو یاد کرتی تھیں تو ایسی سریلی آواز میں گاتی تھیں کہ نہ پوچھو۔ کہتی تھیں کہ ہمائے یاں خاص گانے تھے جومنہارنیں چوڑیاں پہناتے وخت گایا کریں تھیں۔ اماں کئے تھیں کہ ہم فیروز آباد والے ہیں ہمائے یاں سے چوڑییں پورے ہندوستان میں جاتی تھیں۔ ہمائی دادی راجے مہاراجوں کے چوڑییں پہنانے جاتی تھیں۔ منّا منہارن کا نام آج بھی  جو بچے کھچے رجواڑے ہیں پوچھ لیں، کبھی جائیں ہندوستان تو۔ اماں کیتی تھیں کہ کوئی مانے نہ مانے۔ اس مری گری حالت پر بھی فیروز آباد کے ہاتھ میں ہندوستان کے سہاگ کی کنجی ہے۔ آج بھی سہاگ کی نشانی، کانچ کی چوڑیاں فیروز آباد والوں کی دور سے پیچھان میں آئیں باجی۔

تم کہاں پیدا ہوئے تھے۔ ؟میں نے اسے بیچ میں ٹوکا جو چوڑی والا کم اور داستان گو زیادہ معلوم ہورہا تھا۔

 وہ پھر رواں ہوگیا۔ ہم تو کبھی گئے نئیں۔ سب بھائی یہیں کراچی میں پیدا ہوئے ہیں۔ میں اپنی اماں کا سب سے چھوٹا بیٹا ہوں۔ اماں کہتی تھیں چھوٹا بیٹا اور کھوٹا پیسہ ہی برے وختوں میں کام آئے ہے۔ بڑے بھائی ذرا آس مراد کے تھے،اسکول بھیجے گئے۔ فر (پھر) دس جماعت کیا پڑھ گئے، چوڑیاں پہناتے شرمانے لگے۔ ایک بھائی تو یہیں حبیب بینک جو ہے نا، کے۔ ڈی۔ اے مرکیٹ کے وس طرف واں ہے۔ ادھر سے گزرنا پڑے تو کنّی کاٹ کے نکل جاتا ہے۔ ابا اب بھی دکان پر آتے ہیں مگر میں نے کیا۔ ابا اب تم آرام کرو بہت کام کرلیا۔ اللہ کا فضل ہے باجی ابا میرے سے خوش ہیں۔ ویسے باجی یاں کا تو بڑا ہی برا حال ہے۔ لونڈے سارے نکل لئے۔ کچھ سیاست میں پڑ کے خوار ہوئے۔ کچھ ماردیئے گئے، کچھ چھپتے پھرے۔ اور جو سیاست میں نئیں انہیں بھی باہر کی ہونڑ لگی۔

باجی ایمان سے کے ریا ہوں یاں ایک بیچاری نانی تھیں غرارے والی چھٹے چھماہے ہماری دکان کا ایک چکر ضرور لگا لیتیں۔ پوچھو کیوں۔ ان کی نواسی کی دو بیٹیاں تھیں۔ نواسی تھی امریکہ میں۔ تو بیچاری جب آتی تھیں ایک نیا فوٹو لئے کھڑی ہیں کہ دو ڈبے چوڑییں باندھ دے میرا بچہ۔ اب میں سیج (سائز) پوچھوں تو تصویر دکھائیں باجی ایمان سے میرے کو تو ہنسی آجاتی تھی۔ میں نے کہا اماں فوٹو سے تو چوڑیوں کا سائج نئیں مل سکتا بس اللہ کا نام لے کے میں تو لپیٹ دیتا تھا۔ فر دیکھو تو تھوڑے دنوں میں کھڑی ہیں بیٹا ذرا ایک ڈبہ چوڑیوں کا بنا دے جلدی سے۔ میں نے کیا نانی وہ چوڑیاں پسند آئیں بچیوں کو۔ تو پھر روہانسی بولیں، بیٹا کبھی جو لے جانے والا کوئی ملتا ہے تو وخت پر پہنچاتا نئیں۔ اب واں سے پتہ چلا کہ چوڑییں تو چھوٹی تھیں۔ ایمان سے باجی قسم لے لو جو میں نے بڑی بی سے کبھی منافع لیا ہو۔ برکت تھی ان کے آنے سے۔ نیفے میں بریک بریک (باریک باریک) بتی بنے جنے کتنے نوٹ گھسیڑے رہتیں۔ دھیرے دھیرے انگوٹھے سے ٹھیل ٹھیل کے جب وہ نوٹ باہر نکالیں تھیں تو باجی میرے کو ہنسی روکنا مشکل ہوجاتا تھا۔ اور جب پوچھو پچھلی والی چوڑیاں پسند آئیں تو پھر روہانسی۔ ارے میرا لال۔۔ جو لے جانے والے تھے وہ تو ایک دن پہلے چلے گئے امریکہ۔ میں نے تو کام والی کی لڑکی شہزادی کو دے دیا بچوں کا صدقہ۔ اب کیا کرتی۔ بڑھتے بچوں کا ناپ، پھر کانچ کی چوڑییں۔

کسم سے باجی بہت برا وخت آ گیا ہے۔ ہمارے جاننے والوں میں سب آس پاس بنگلے اور فلیٹ ہیں جو کبھی ابا کے وخت کے گراہک تھے نا، بھولے بھٹکے آتے ہیں تو خبر ملتی ہے۔ ادھر خالی ڈھنڈھار بڑی بڑی کوٹھیاں۔ کسم سے باجی الو بولتے ہیں۔ آدمی نہ آدم زاد۔ دو بڈھے بڑھیا ٹٹرو ٹوں۔ اب دیوار سے سر پھوڑیں بھلا۔ پنچھی تو سب اڑ گئے۔ اسی لین میں بڑی بی کو دن دہاڑے ڈاکو لوٹ لے گئے خیر انہیں کیا لوٹتے۔ ٹی وی اسکوٹر اور پتہ نہیں کیا کیا باجی انہوں نے تو پانی کی موٹر تک کھولی اطمینان سے۔ وہ بتا رہی تھیں کہ کمبختی مارے ڈاکوﺅں نے چائے بھی بنائی اور ڈھٹائی دیکھو مِجھ سے کے رئے امّاں چائے پیوگی۔ اب اللہ ماروں سے کوئی پوچھے کہ منہ پر کپڑا بندھا ہے امّاں کے ،چائے تیری نانی پئے گی۔ ایک باری ایسا ہوا کہ غرارے والی نانی سامنے دوپٹہ رنگوا رئی تھیں۔ اور وہ لوگ آگئے۔ اب تڑ تڑ تڑ تڑ غولیاں لگیں چلنے۔۔۔ میں نے دیکھا کہ نانی بے چاری پلٹیں۔ اور شائیں سے گولی وِن کے سر کے اوپرسے یوں گئی۔ اب ” کی روس فے رنگ “(کراس فائرنگ) دونوں طرف سے اور اماں بیچ میں!۔ اتنے میں میرے شلٹر میں آئیں اور میں دم سادھے۔ وہ اشٹول پر بیٹھی ہانپیں۔۔۔ اب فیرنگ بند۔ سامنے لمبا تڑنگا آدمی زمین پر۔۔ اماں کا منہ پیلا زرد۔ میں نے اماں سے کہا، پانی پی لو۔ بولیں تم پی لو بیٹا پہلے۔

میں نے کیا اماں، یہ کراچی ہے۔ ہم تو روز یہ دیکھتے ہیں۔ وِنے ہم سے کچھ نئیں لینا دینا۔ جن کو ٹرگٹ کرنا تھا، وِن کو کیا۔ بزار ویسے کا ویسے۔ سامنے لاش پڑی اور لوگ اپنے رستے چل رئے۔ یہ دیکھ کے باجی سچ کے ریا ہوں بڑی بی کی جان میں جان آئی۔ میں نے کیا اماں نکلا نہ کرو کسی دن چپیٹ میں آجاﺅ گی۔ باجی بڑا برا حال ہے یہاں بوڑھوں کا میں تو کہتا ہوں بزرگ لوگوں کو یا تو ساتھ لے جاﺅ۔ نہیں تو ایدھی میں بھیج دو۔ اکیلے گھر کی چوکیداری کو جو چھوڑ دیتے ہیں میرے کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ ایسا بھی دولت کے پیچھے کیا بھاگنا۔ میرا بھی ایک بھائی باہر چلاگیا نا۔ میں نے کہا میں کہیں نئیں جاﺅں گا۔ پرائے دیس میں ہم کیا کریں گے۔ ہنر تو یہیں رہ جائے گا ناواں خالی اپنے ہاتھ بیچیں گے۔ یاں اپنے پاس ہاتھ بھی ہیں اور خاندانی ہنر بھی۔ دیکھو اللہ کا فضل ہے باجی بڑی برکت ڈالی ہے اللہ نے۔ دور دور شہرت ہے ہماری دکان کی۔ پوچھ لو کسی سے ایک دن۔۔۔ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ اس کی قینچی کی طرح چلتی زبان اور پھرکی کی طرح گھومتا ہوا ہاتھ دونوں ایک لمحے کو رکے۔ ہاں کیا ایک دن کیا؟۔ میں نے تجسس سے پوچھا۔

 کہہ یہ ریا تھا کہ ایک دن میں آپ کو دو لمّر چوڑیاں پہنا کے دکھاﺅں گا باجی۔ میری اماں کہتی تھیں بابو ،ہاتھ نا سخت ہوتا ہے نا نرم اور چوڑیاں بھی نا چھوٹی ہوتی ہیں نا بڑی۔ سارا کھیل ہے دھیان کا، گراہک کا دھیان بٹانا پڑتا ہے۔ یہ پہلا گر اماں نے سکھایا چوڑی پہنانے کا۔۔ اس نے میری کلائی کے نیچے ہاتھ رکھ کر دوسرے ہاتھ سے چوڑیاں برابر کیں۔ ایک دم سیٹ ہے نا باجی۔ کلائیوں میں کسی ہوئی، پرایک خراش نئیں آئے گی میرے چوڑیاں پہنانے میں۔ اس نے فاتحانہ انداز سے مجھے دیکھا۔

اسے کیا خبر کہ اس کی سیدھی سچی باتوں کے زخم ہاتھ کی خراشوں سے کہیں گہرے تھے۔

تم اتنے بڑے تو نہیں ہو ابھی۔ اتنا تجربہ کیسے آ گیا؟ میں نے پیسے دیتے ہوئے پوچھا۔

وخت سب سکھا دیتا ہے باجی۔ اس نے نوٹ گنتے ہوئے شائستگی سے جواب دیا۔

اس پل اس منحنی سے لڑکے کے چہرے پرایک سنجیدہ مسکراہٹ تھی اور میں اپنی کلائیوں کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ خلاف توقع سوا دو نمبر کی باریک کانچ کی چوڑیا ں میری کلائیوں میں جگمگا رہی تھیں۔ !اور پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ چوڑیاں پہنتے ہوئے میرے ہاتھ پر کوئی خراش نہیں آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).