عمران خان صاحب! اتنا بھی مایوس نہ کریں


اب جب کہ پاکستان واقعی ایک تبدیلی اور بہتری کی طرف گامزن ہے تو ایک امید بندھ گئی تھی۔ یقینا ہم ایک ترقی یافتہ ملک نہیں ہیں اور نہ ہی تہذیب یافتہ قوم! لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر آپ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانی قوم کا جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ ارتقائی عمل کے ذریعے ہم درست سمت میں جا رہے ہیں۔ اور یقین جانیے جب بھی کوئی غیرجانبدار تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں تبدیلی اور بہتری میں عمران خان کا نام ضرور آئے گا۔ وہی جمہوریت قوم کے لئے فائدہ مند ہے جس میں ایک دوسرے کا سخت محاسبہ ہو اور کارکردگی کی بنیاد پر مقابلہ ہو۔

ہماری سیاست میں پہلے جو دو پارٹیاں قابض تھیں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی۔ اس میں پیپلز پارٹی نے بالکل ہتھیار پھینک دیے تھے اور کبھی بھی کارکردگی کی بنیاد پر مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم نہیں دیا یعنی کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ سندھ میں کوئی ایسا کام ہوا ہو جس کی بنیاد پر مسلم لیگ ن پر پنجاب میں پریشر آیا ہو۔ عمران خان پاکستانی سیاست میں پہلا اضافہ ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی کارکردگی پہلے سے بہتر ہوئی ہے اور یہ ایک اچھا شگون ہے۔ عوام کو کارکردگی سے غرض ہونی چاہیے۔ کسی کے ساتھ رومانس میں مبتلا ہونا یا کسی کو دیوتا بنا لینا ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے۔

میں دعوے سے کہ سکتا ہوں کہ اگر قدر وائبرنٹ سوشل میڈیا نہ ہوتا اور عمران خان کے ٹائیگرز اس قدر تنقید نہ کرتے تو پنجاب میں زینب کا قاتل نہ پکڑا جاتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے زینب کے قاتل کی گرفتاری کا اعلان کیا تو خیبرپختوانخواہ کے حکمرانوں پر عاصمہ کے قاتل کی گرفتاری کے لئے پریشر 100 گنا بڑھ گیا۔ اور پھر عاصمہ کے قاتل کی گرفتاری کے بعد کے پی کے حکومت نے پنجاب سے سبقت لے جانے کے لئے قاتل کی گرفتاری کی پریس کانفرنس وزیر اعلی کی بجائے صوبے کی پولیس کے سربراہ آئی جی سے کروائی جس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آئندہ ایسا واقعہ ہوا تو وہ بھی اپنی گزشتہ تالیاں بجانے والی حرکت نہیں کریں گے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان نے یقینا ایک بہترین پریشر گروپ کا کردار ادا کیا ہے۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اگر آپ 30 اکتوبر 2011 (جب ایک جلسہ کے بعد عمران خان کا عروج شروع ہوا)سے لے کر آج کی تاریخ تک جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ عمران خان صاحب ایک پریشر گروپ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ کبھی بھی وہ یہ ثابت نہیں کر سکے یا یوں کہہ لیں کہ وہ اور ان کی جماعت یہ ماحول بنانے میں ناکام رہے کہ اگلے وزیر اعظم وہ ہیں۔ اور اگر کبھی یہ ماحول بن گیا تو عین درمیان میں خان صاحب نے یا تو شادی کر لی یا پھر طلاق دے دی۔ ظاہر ہے ایک کالم میں تمام وجوہات بیان نہیں ہو سکتیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب، ان کے چاہنے والے نرگسیت کا شکار ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ درست ہیں، سچے ہیں، ایمان دار ہیں، کرپشن سے پاک ہیں، دنیا کی ہر خوبی ان کے اندر ہے۔ تنقید یا محاسبہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مزید دعوی یہ ہے کہ چونکہ وہ ان سب خوبیوں کے مالک ہیں لہٰذا قوم انہیں منتخب کر لے۔ وہ کوئی حکمت عملی نہیں بنائیں گے۔ گھر بیٹھے اقتدار ان کی جھولی میں ڈال دیا جائے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا، کہیں پر لوگ انہیں منتخب نہیں کرتے تو ثابت ہوا کہ لوگ جاہل ہیں۔ قوم گدھے کھاتی ہے، شعور سے محروم ہے، اس لئے انہیں منتخب نہیں کرتی۔ دنیا میں سب ناکام آدمیوں میں ایک وصف مشترک ہے اور وہ یہ کہ وہ دوسرے میں خامی تلاش کرتے ہیں، ان کے نزدیک ان کی ناکامی کا سبب دوسرے ہیں۔ وہ جب دوسرے کواپنی بات سمجھانے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دوسرا جاہل ہے، جناب ایسا نہیں ہے آپ کی حکمت عملی میں خامی ہے۔ ورنہ لودھراں کے ایک لاکھ تینتیس ہزار کے لگ بھگ لوگ جو پہلے جہانگیر ترین کو منتخب کرتے ہیں وہ چار سال بعد جاہل کیسے ہو گئے کہ انہوں نے ن لیگ کو منتخب کر لیا۔

آخر میں خان صاحب کی شادی کی بات۔ اس پر انہیں مبارک ہو لیکن اپنی نجی زندگی کو خود عوام میں لانے پر انہیں ڈبل مبارک ہو۔ کہا جاتا ہے کہ صرف خان کی شادی کیوں ڈسکس ہوتی ہے؟ تو جناب جواب یہ ہے کہ سیاست میں آنے سے پہلے ہی وہ ایک سٹار تھے اور عوام کے مقبول ستاروں کی نجی زندگی میں عوام ہمیشہ دلچسپی لیتی ہے کیونکہ وہ بھی شہرت کی خاطر خود خبروں کی زینت بنتے ہیں۔ جیسے ریما خان اور ڈاکٹر شہاب کی شادی، جیسے شعیب ملک اور ثانیہ کی شادی، ویسے ہی عمران خان کی شادی۔ لیکن اپنا جائز حق استعمال کرنے کے لئے آپ کی”ٹائمنگ‘‘ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مخالفین کو آپ کا مذاق اڑانے اور آپ پر تنقید کرنے کے لئے کسی عنوان کی ضرورت نہیں۔ آپ انہیں خود عنوان فراہم کرتے ہیں۔

آج جب جنرل الیکشن میں چند ماہ رہ گئے ہیں اور آپ کا حریف پورے ملک میں ایک خاص بیانیہ لے کر مقبول ہونے کا ماحول بنا رہا ہے اور دوسری طرف چھوٹے بھائی صاحب تیزی سے ترقیاتی کام مکمل کروا رہے ہیں۔ ہر روز وہ کسی منصوبے کا افتتاح کر رہے ہیں۔ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مطالبے پورے کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت جب قوم آپ سے توقع کرتی ہے کہ آپ کوئی مضبوط سیاسی حکمت عملی اپنائیں گے۔ آپ شادی کر لیتے ہیں۔ خدا کا واسطہ ہے اس طرح مایوس نہ کریں۔ سیاست میں آپ کا وجود ایک اچھا شگون ہے۔ آپ کی شکستِ فاش پاکستان کے لئے نقصان دہ ہوگی۔ آخر میں ایک بات کہ خان صاحب کسی کے گھر میں چھوٹے بچے کے بورڈ کے پیپر ہوں تو وہ بھی بڑے بچے کی شادی کی تاریخ طے کرتے وقت سوچ بچار کرتا ہے۔ آپ تو اتنی بھی سوچ بچار نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).