عمران خان! اب بھی نہیں سمجھے تو بہت خرابی ہو گی


 

اس وقت پاکستان میں پارلیمان کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی دونوں شدید بحران کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے جمہوریت خطرات میں گھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جمہوریت کو خطرات صرف فوجی مداخلت یا مارشل لآ سے ہی لاحق نہیں ہوتے، بلکہ پارلیمان میں جمہوری رویوں کے فقدان سے بھی اتنے ہی سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں جتنا کسی فوجی عمل یا عدالتی تحرک سے۔ جمہوریت اگرچہ خالصتاً مغربی طرزِ سیاست ہے جو بہت سے ارتقائی مراحل سے گزر کر اس مقام پر آئی ہے، جس سے مغرب کے شہری خوب مستفید ہو رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی جمہوریت میں (کہنے کی حد تک) بیک وقت مغربی، اسلامی، علاقائی اور قبایلی اقدار شامل ہیں جس کی وجہ سے یہ مغرب کی نسبت ایک پیچیدہ نوعیت کی جمہوریت ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس میں مغرب اور اسلام دونوں کے حسن شامل ہوتے، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ جمہوریت میں عدلیہ اور پارلیمان کے اپنے اپنے کردار ہوتے ہیں۔ جس قدر وہ اپنے اپنے کردار کو دیانتداری سے نبھائیں گے، ایک دوسرے کے کام میں مداخلت سے پرہیز کریں گے، جمہوریت اسی قدر مضبوط ہوگی ۔

جمہوریت کا یہ طے شدہ اصول ہے کہ قانون سازی پارلیمان میں ہوتی ہے اور ان قوانین کی تشریح عدلیہ کرتی ہے۔ قانون سازی کے حوالے سے پارلیمان کو مکمل آزادی ہے سواےؑ اس کے کہ وہ اپنے بعد میں آنے والی پارلیمان کو کسی بھی بات کا پابند کرسکے۔ تاکہ بعد میں آنے والی پارلیمان کی آزادی قانون سازی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایک انگریز مورخ، ادیب اور نقاد سر لیزلی سٹیفن (1832 ۔1904) نے پارلیمان کے قانون سازی میں مکمل طور پر با اختیار ہونے کے حوالے سے تنقید کرتے ہوےٓ کہا، (ترجمہ) ‘ اگر پارلیمنٹ ایسا قانون بنانا چاہے، جس کی رو سے نیلی آنکھوں والے بچوں کو مار دیا جاےٓ، تو وہ یہ قانون بنا سکتی ہیں، اسکو بطور ادارہ کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی، لیکن ایسا قانون وہ تبھی بنا سکے گی جب تمام ممبران پارلیمان پاگل ہوں۔ اور عوام ایسے قانون کو اسی وقت قبول کریں گے جب وہ احمق ہوں’۔

 معروف ماہرِ آیین البرٹ وی ڈائسی (1835۔1922) کے مطابق اگر عدالتیں قانون کی تشریح کریں اور پارلیمان غیرجانبداری سے قانون سازی کرے تو جمہوریت چلتی رہےگی۔ یہ مثالیں تو مغربی مفکرین سے منقول ہیں۔ انصاف اور حکمرانی کے حوالے سے اسلامی تاریخ بھی بھری پڑی ہے اور ان کی مثالیں ہم سکول کی ابتدائی کلاسوں سے پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ حضرت امام علی رضی اللہ و تعالی عنہ کا یہ واقعہ یقیناً ہر کسی کے مطالعے یا سماعتوں سے گزرا ہوگا کہ ان کی زرہ بکتر چوری ہوگئی، جو کچھ عرصہ بعد انہوں نے ایک غیر مسلم کے پاس دیکھ لی، آپ نے اس سے واپس مانگی، لیکن وہ مکر گیا، حضرت علی معاملہ عدالت میں لے گئے۔ جہاں ان کے دعوے کے بارے میں گواہ طلب کئے گئے تو انہوں نے اپنے دو بیٹے اور ایک غلام پیش کیے، لیکن عدالت نے ان کی گواہی ماننے سے انکار کردیا اور شواہد کی کمی کے باعث فیصلہ ان کے خلاف ہوگیا، جسے حضرت علی نے قبول کرلیا تھا، حالانکہ حضرت علی حاکم وقت تھے اور جانتے تھے کہ وہ حق پر ہیں، لیکن عدالت کے احترام کا یہ عالم کہ قاضی کے فیصلہ کی قدر کی، کیونکہ وہ اس وقت کے مروجہ قانونِ شہادت کے مطابق درست فیصلہ تھا۔

پاکستانی جموریت پر جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو عملی طور پر اس کے قبایلی و علاقائی رنگ ہی نمایاں نظر آتے ہیں جبکہ اسلامی اور مغربی رنگ بالترتیب صرف اس قدر ہیں کہ پارلیمان میں کارروائی کے دوران وقفہ برائے نماز ہوتا ہے اور ممبرانِ پارلیمان ووٹ حاصل کرکے اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ باقی سیاسی اختلاف اور زبان کا استعمال، کردار کشی، مدت اور باری پوری کرنے پر ڈٹ جانا، پارلیمنٹ میں اکثریت کے زور پر جو جی چاہے کرنا خالصتاً قبایلی اندازِ جمہوریت ہے۔

عدلیہ کا کام پارلیمان کے بناےؑ ہوےٓ قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن جب قانون ساز کبھی خود اپنے ہی بناےٓ ہوےٓ قانون کی زد میں آجاےٓ، اور عدلیہ اسے قانون شکن قرار دے دے، تو جمہوری رویہ تو یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیمِ خم کر دے اور اگر انہیں فیصلے میں کسی سقم کا شائبہ ہو تو اپنی بے گناہی عدالتی راستہ اپنا کر ہی ثابت کرے۔ راستہ خواہ کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو۔

عدلیہ جو پارلیمان کے بعد جمہوری معاشرے کا دوسرا اہم ترین ستون ہے، وہ بھی بلا شبہ اسی پاکستانی معاشرے کے افراد پر مشتمل ہے جس کے ارکان مختلف خیالات کے حامل ہوتےہیں، وہ بھی ایک قانون کی تشریح اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں اور اگر بنچ ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل ہو تو اکثریتی فیصلہ مانا جاتا ہے، کیونکہ یہی ایک طے شدہ اصول ہے۔ دوسری بات یہ کہ ججز کا فیصلہ جو ان کے نزدیک قانون کے عین مطابق ہوتا ہے، اس کے متن میں قانون اور نظیر کے علاوہ ایک اور عنصر بھی شامل ہوتا ہے جس کی قانونی حیثیت کچھ نہیں ہوتی، لیکن وہ ملزم یا مجرم کے کردار کو واضع کرنے کے لیے شامل کیا جاتا ہے انگریزی میں اسے اوبیٹر ڈکٹا (obiter dictum) کہتے ہیں۔ یہ عنصر اگرچہ بعد میں آنے والے مقدمات میں بطور نظیر تو شامل نہیں ہوتا لیکن اس فیصلے کا سیاق وسباق ضرور واضح کردیتا ہے، جس سے گواہان کے بارے میں ججز کی راےؑ اور فیصلے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

 پانامہ کیس کے حوالے سے ملزم کو گاڈ فادر یا مافیا سے تشبیہ دینا ایک ایسا ہی اوبیٹر ڈکٹا ہے جو اب تک میاں نوازشریف کے لیے اذیت کا باعث بنا ہوا ہے اور جس کےردِ عمل میں عدلیہ تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ بظاہر یہ جنگ دو بڑے اداروں کے بیچ ہے، لیکن اس کے برے اثرات عوام پر ہی پڑرہے ہیں۔۔ لوگوں کا پولیس اور دیگر محکموں پر سے اعتماد تو پہلے ہی اٹھ چکا ہے، لیکن پارلیمان اور عدلیہ کی اس رسہ کشی سے ججز بھی متنازعہ بنتے جا رہے ہیں۔ پاکستانی عدالتوں کے حوالے سے اعتماد کا یہ بحران خطرناک ہے۔ کاش یہ تاثر ختم ہو سکے۔

جب یہ مضمون تکمیل کے قریب تھا، ایک نیا نکتہ سامنے آ گیا جسے شامل کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ عمران خان نے اپنی حریف جماعت پی ایم ایل ن کے ایک بیان کے ردِ عمل میں بڑے ہی سرپرستانہ انداز میں عدلیہ کے سر پر’ دستِ شفقت’ رکھا ہے۔ کہتے ہیں اگر پی ایل ایل ن والے پارلیمان میں جج صاحبان پر تنقید کریں گے تو وہ سڑکوں پر نکل آییں گے۔ عمران خان کے اس بیان کا بھی عدالت کو از خود نوٹس لے لینا چاہیےؑ اور جو بھی پارٹی یا شخص عدلیہ کے ادارے کو بونا بنا کے پیش کرتا ہے اس کے خلاف بھی توہینِ عدالت کا مقدمہ چلایا جانا چاہیےؑ۔ اگر خدا نخواستہ واقعی ایسا ہوگیا، جیسا عمران خان نے کہا ہے تو۔۔ تو ۔۔۔ خاکم بدہن ۔۔۔ مجھے وہی کچھ ہوتا ہوا نظر آتا ہے جو کہنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).