زنانہ لباس اور ڈریگ ڈانس میرے فن کا حصہ ہے- پاکستان واپس نہیں آنا چاہتا؛ ذوالفقار علی بھٹو جونئیر


سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا ہے کہ ڈریگ ڈانس ان کی مشق کا لازمی حصہ ہے۔ ان کے والد نے پوری زندگی ایک مقصد کیلئے وقف کی لیکن وہ پاکستان میں بطور فنکار اپنی شناخت ظاہر نہیں کرسکتے اس لیے وہ وطن واپسی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

واضح رہے کہ ڈریگ ڈانس مشرقی ممالک میں خواجہ سراؤں کے رقص سے قریب تر سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ وہ مغربی رقص ہے جس میں مرد خواتین کے کپڑے پہن کے ڈانس کرتے ہیں اور یہ کسی بھی معاملے پر احتجاج کی ایک قسم بھی کہلائی جاتی ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کہا کہ گھر کے اکثر افراد قتل ہونے کے بعد پاکستان کے عوام تو چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی کمان سنبھالیں لیکن ان کے خاندان والوں نے کبھی بھی انہیں سیاست میں نہیں آنے دیا، ” شاید میں بہت ہی سادہ تھا کیونکہ میں بہت عرصہ اس میدان سے باہر تھا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ لوگ میرے بارے میں اتنا سوچتے ہیں “۔

اپنی ڈریگ ڈانس کی ویڈیو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا تھا کہ جب یہ ویڈیو سامنے آئی تو بہت ہی منفی رد عمل دیکھنے میں آیا، بالخصوص اس ویڈیو کے اس حصے پر اعتراض کیا گیا جس میں ڈریگ ڈانس کا حصہ شامل کیا گیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا تھا کہ وہ ابتدائی طور پر تو اپنے زنانہ لباس کے حوالے سے گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اب بات کھل چکی ہے تو اس پر بولنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ڈریگ ڈانس اگر میری مشق کا لازمی حصہ ہے تو اس میں شرمانے کی کیا بات ہے؟

27 سالہ بھٹو جونیئر 2014 میں امریکہ منتقل ہوئے اور سان فرانسسکو انسٹی ٹیوٹ سے اپنی ایم ایف اے کی تعلیم شروع کی۔ جب وہ نئے نئے شہر میں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ پامیلا گیلر اور امریکن فریڈم ڈیفنس انیشیٹو کی جانب سے پورے شہر میں مسلمانوں کے خلاف پوسٹرز لگائے گئے ہیں۔ ” جب میں نے یہ پوسٹرز دیکھے تو میرا دل چاہا کہ خود کو کہیں چھپالوں“ ۔

انہوں نے کہا کہ پہلے تو انہیں خوف محسوس ہوا جس کے بعد دنیا میں پھیلے اسلاموفوبیا نے ان کے اندر وہ جرات پیدا کردی جو ان کے اندر پاکستان میں نہیں تھی۔ ’ میں نے ایرانی آرٹسٹ منوش زمردینیا کے ساتھ مل کر ان وجوہات کا جائزہ لینا شروع کردیا جن کی وجہ سے مسلمانوں کو پریشانی کا سامنا تھا، ہم نے مل کر ” پرے فارمنسز“ کی بنیاد رکھی اور اسلامی تعلیمات پر عوامی مقامات پر عمل کرنا شروع کردیا۔ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یا تو آپ کوئیر ہیں یا پھر مسلمان ، کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مخالف ہیں ۔

ڈریگ شو میں شرکت کا اپنا پہلا تجربہ بیان کرتے ہوئے بھٹو جونیئر نے کہا کہ اگر آپ اس کے عادی نہیں ہیں تو آپ اس کو دیکھ کر بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ میک اپ، کپڑے ، پرفارمنس اور گانے ، سب کچھ آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

پہلے پہل تو کئی ماہ تک وہ ڈریگ ڈانس نہیں کرپائے جس کے بعد آہستہ آہستہ انہوں نے ایک مقامی بار میں یہ رقص کرنا شروع کردیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے ڈریگ ڈانس کو موسیقی اور زبانی الفاظ کا مجموعہ بنانا شروع کردیا اور ایسے الفاظ کا انتخاب شروع کردیا جو میرے مذہب اور میری ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں ، یہ الفاظ تماشائیوں کیلئے بعض اوقات نامناسب اور سیاسی ہوتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتے کیونکہ اگر انہوں نے وہاں پر اپنے آرٹ کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا تو یہ ان کیلئے انتہائی مشکل ہوجائے گا اس لیے وہ واپس پاکستان نہیں جانا چاہتے۔ ” میرے والد نے جو بھی کیا میں اس کی دل سے قدر کرتا ہوں، انہوں نے اپنی پوری زندگی ایک مقصد کیلئے وقف کی لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ میں ایسا نہیں کرسکتا “۔

بشکریہ؛ روزنامہ پاکستان

انگریزی انٹرویو؛

 https://www.nytimes.com/2018/02/20/arts/design/zulfikar-ali-bhutto-pakistan-drag-somarts-.html


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).