شام کے مرتے بچے اور یونیسیف کا احتجاج


ایک صاحب حال کا گزر کسی دشتِ پُرہول سے ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ دشت کے بیچوں بیچ ایک دیوارِ شکستہ ہے جو کسی کشادہ محلِ سرا کی باقی بچی ہے۔ سو وہ نوحہ اپنے اچھے زمانوں سے بچھڑنے کا اور اپنے ثروت و شوکت والے مکینوں کے مٹ جانے کا پڑھتی ہے۔ اور دیوار پر کسی نے یہ شعر لکھ رکھا ہے کہ ہجر کا بار کیوں کر سہا جائے، میں سیہ بخت تو ایسی ایک وحشت میں گرداں ہوں کہ اگر دیوار ہوتا تو ڈھے جاتا۔ اس صاحب حال نے قدرے توقف کیا پھر کھریا مٹی کا ایک ٹکڑا اٹھا برابر میں یہ شعر لکھ دیا کہ عشق کا دعوی کرتا ہے اور کسی دیوار سے بھی گیا گزرا ہے؟ اے نیک بخت! تو زندہ کیونکر ہے؟ مر کیوں نہیں گیا؟ یہ لکھ کے وہ روانہ ہوا۔ ایک زمانہ گزر گیا۔ بعد ایک مدت کے وہ صاحب حال پھر اسی دشت بے سایہ سے، اسی دیوار کے نزدیک سے گزرا۔ کیا دیکھتا ہے کہ دیوار پہ خجالت کا ایک حرف سادہ لکھا ہے… اور ایک جوانِ رعنا مرا پڑا ہے۔

ہم تو کسی بھی کھاتے میں فٹ نہیں آتے، نہ خجالت کے حروف سادہ لکھنے کا حوصلہ ہے نہ مر جانے کا ظرف ہے۔ یہ اوپر والا پیرا گراف اسد محمد خاں کی ایک کہانی سے لیا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ جب بہت زیادہ ڈپریسنگ حالات ہوں تو یا انتظار صاحب کی نثر میں پناہ ملتی ہے یا اسد محمد خاں کی۔ دیوان حافظ کی طرح کہیں سے بھی کھول کے پڑھنا شروع کر دیتا ہوں، کوئی نہ کوئی فال مل جاتی ہے۔ اس بار یہ پیراگراف ملا۔

ایک بہت لائٹ سا کالم سوچتے سوچتے خبریں پڑھنے لگا۔ وہاں یہ لکھا نظر آ گیا کہ یونیسیف نے شام کی جنگ میں بمباری کی وجہ سے مارے جانے والے 39 بچوں کے غم میں احتجاجاً خالی سٹیٹمنٹ جاری کی ہے۔ جو شخص یونیسیف کا بیان لکھنے والا تھا اس نے لکھا ”کوئی لفظ ان مرنے والے بچوں، ان کے ماں باپ اور ان کے چاہنے والوں کو انصاف نہیں دلا سکتے‘‘ اور اس کے بعد پورے کا پورا صفحہ خالی چھوڑ دیا گیا۔

یونیسیف کی ویب سائٹ پہ جا کے دیکھا، وہاں یہ سٹیٹمنٹ موجود تھی۔ اس کے بعد لائٹ یا غیر لائٹ کچھ بھی‘ نہ سوچا جا رہا ہے نہ لکھا جا رہا ہے۔ بہت سی کتابیں چھانیں، کوشش کی فلم وغیرہ دیکھ لی جائے، ٹی وی پہ نظریں جمانا چاہیں، کچھ بھی نہیں ہوا۔ دماغ مسلسل ادھر ہی لگا ہوا ہے۔ نہ جانے کب تک لگا رہے گا۔ ہم لوگ ظلم پروف ہو چکے ہیں۔ ہم یہ خبر سنیں گے تو ہمارا دماغ اے پی ایس کی طرف جا سکتا ہے، ڈرون حملوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، کشمیر کا زلزلہ یاد آ سکتا ہے لیکن کمپیریژن کرنے کے چکر میں ہم کسی بھی اذیتناک واقعے کا افسوس، اس کا دکھ وہ سب محسوس کرنا بھول گئے ہیں۔

خدا نہ کرے آپ نے کسی ماں کے سامنے، کسی باپ کے آگے اس کی اولاد مرتے دیکھی ہو، کسی بھائی کی بہن مرتے دیکھی ہو۔ تین چار ماہ پہلے کا واقعہ ہے، میں نے دیکھی ہے۔ وہ بچی لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کے باپ، ماں، بھائی، بہن سب آئی سی یو کے باہر شیشے سے جھانکتے تھے اور وہیں ہار کے گر جاتے تھے۔کتنی دعائیں کتنی تسبیح، کتنے وظیفے، کتنی دوائیں، کتنے علاج، اسے کوئی چیز نہ بچا سکی۔ میں اس لیے وہاں موجود تھا کہ میں ان کا رشتہ دار تھا۔ میں اس موت کے بعد بھی ان سب لوگوں کے پاس رہا، کیا ضبط، کہاں کا صبر کیسا حوصلہ؟ وہ لوگ آج بھی اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کے بیٹھے ہیں جیسے اس دن تھے جب وہ لڑکی ہسپتال میں داخل ہوئی تھی۔ آنکھوں کے آگے اپنی جان کے ٹکڑے کو سیکنڈ کی سوئی کے ساتھ زندگی کی جنگ ہارتے دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہوتا، یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ سب کچھ ادھر شام میں روز ہوتا ہے۔

وہاں جو اقوام متحدہ کا نمائندہ ہے وہ کہتا ہے کہ جب یہ حملہ ہوا‘ اس وقت لوگوں میں بھاگنے کی ہمت نہیں تھی، وہ بھاگنا چاہتے بھی تو خوراک کی پراپر سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے اتنے کمزور تھے کہ زیادہ دیر بھاگ دوڑ کر ہی نہیں سکتے تھے۔ پچھلے سال نومبر میں آخری فوڈ سپلائی کی گئی تھی اس کے بعد شام کی حکومت نے کسی بھی تنظیم کو اجازت نہیں دی کہ وہ غوطہ (اس علاقے کا نام جہاں بمباری ہوئی اور پھر یہ سٹیٹمنٹ جاری ہوا) جائیں۔ ڈبل روٹی اگر دس روپے کی ہے تو اس وقت وہاں دو سو بیس روپے کی تھی، کُڈ یو ایور امیجن؟

اور پانچ سال سے چھوٹے کتنے ہی بچے ایسے تھے جو بھوک سے پہلے ہی مر چکے تھے۔ اس حملے میں چن چن کے ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تاکہ کوئی بچ بھی جائے تو میڈیکل ایڈ نہ ہونے سے مر جائے۔ شامی حکومت کہتی ہے غوطہ میں جیش الاسلام کا سیٹ اپ موجود ہے، ایران بھی یہی کہتا ہے، روس بھی یہی کہتا ہے لیکن بم گرتے ہیں تو عام شہریوں کی لاشیں ملتی ہیں یا پھر تڑپتے بلکتے بچے اور ان کے ماں باپ ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہسپتال نہ ملنے کی وجہ سے خدا کے پاس جا کے انصاف مانگتے ہیں۔ جو اس وقت زندہ بچے ہوئے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم صرف موت کے انتظار میں ہیں۔

دل کی بات کی جائے تو یار ایک طرف سعودی عرب، امریکہ اور ترکی ہیں، دوسری طرف روس ہے ایران ہے اور خود شام ہے لیکن بیڑا غرق میرے تیرے جیسے بندے کا ہو رہا ہے۔ وہ 2011 کی عرب بہار کم بخت دوزخ کی خزاں تھی جو منحوس کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ اس وقت سے شروع ہونے والی یہی جنگ بہت جلد ترکی اور ایران کو بھی لپیٹ میں لیتی دکھائی دے رہی ہے۔ میں نے ایک ماں باپ کی بیٹی مرتی دیکھی تھی میں آج تک نارمل نہیں ہوا، ادھر روز کتنے ہی ایسے ناگہانی حادثے ہوتے ہوں گے، اور مستقبل میں جو ہوں گے، ان سب کا قصور کیا ہے؟ اگر کبھی یہ جنگ رکی تو پتہ ہے ان کی پہچان کیا ہو گی؟ کولیٹرل ڈیمج… سنا ہوا لفظ ہے نا؟ بس یہ اوقات ہے تمہاری ہماری سب کی۔ وی آر آل بلڈی فلائیز ٹو بی کلڈ بائے ڈیمنز!

یونیسیف کا یہ خالی صفحہ طمانچہ ہے ”عالمی ضمیر‘‘ کے منہ پر، ان سب ملکوں کے آگے اقوام متحدہ کیا بیچتی ہے بھائی۔ یہ ہیں تو یونائیٹڈ نیشنز ہے‘ یہ نہیں ہیں تو خود ان کی چھٹی ہو جائے گی۔ وہ بے چارے اس سے زیادہ کہہ بھی کیا سکتے تھے۔ خالی صفحہ اپنی ویب سائٹ پر لگا دیا کہ جو مرضی اس کا مطلب لے لو، ہمارے پاس لفظ ختم ہیں۔ لفظ اس لیے بھی ختم ہوئے کہ جس کا نام لیں گا وہی نمبردار نکلے گا۔

تو بس پڑھنے والے صاحبانِ حال ہیں، یہ وقت ایک پرہول دشت ہے، اخبار کا صفحہ اس وقت کی دیوار شکستہ ہے۔ اس پہ ہر روز اچھے برے زمانوں کے نوحے پڑھے جاتے ہیں۔ آج میں ادھر وہی دعویٰ کرنا چاہتا ہوں کہ اس المناک سانحے کے بعد میں اگر انسان نہ ہوتا اور دیوار ہوتا تو ڈھے جاتا۔ پڑھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ انسان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور ایسا ڈرپوک ہے کہ ایک دیوار سے بھی گیا گزرا ہے؟

تو یارو لکھنے والا یہ جواب دے گا کہ اب وہ زمانے گزر گئے جب پہنچے ہوئے بزرگ کوئی بات کہہ کے نکل جاتے تھے اور واپس آنے پہ جوانِ رعنا مرا ہوا ملتا تھا، اس وقت روز روز اتنے دکھ، درد اور تکلیفیں اور الم نظر نہیں آتے تھے۔ اب تو جوان روز مرتے ہیں روز جیتے ہیں۔ ہر روز کی خجالت ہے۔ ہر روز کی ہزیمت ہے اور ہر روز کی ہی تھکاوٹ ہے۔ ہم سب جیسا ہر انسان یہی سب کچھ گلے سے لگائے زندگی کرتا چلا جا رہا ہے۔ ویسے بھی جب اقوام متحدہ کا ادارہ صفحہ خالی چھوڑ دے اور ایک بسیار نویس اسی غم میں اس صفحے کو بھر دے تو اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain