عام سے ذرا کم شہری اور غدار سیاسی قیادتیں
کہاں سے بات شروع کریں کہ ہماری تاریخ تاریک غاروں اور گہری کھائیوں سے بھری پڑی ہے۔ اب آزاد ی کے 71 برس بیت چکے ہیں اور موضوع میں موجود فریقِ اول یعنی شہریوں کو یہ مرتبہ آزادی کے بعد آہستہ آہستہ مِلا ہے تو چلیں آزادی کے بعد سے ہی بات کا آغاز کر لیتے ہیں۔ آزادی مِلتے ہی اُس کا جو پہلا استعمال ہم نے کیا وہ وطنِ عزیز کے بانی پر فتاویٰ اور بہتان طرازی پر مشتمل تھا۔ کسی نے انگریزوں کا ایجنٹ کہا تو کسی نے مذہبی اعتبار سے انہیں مطعون کیا یہاں تک کہ کافرِ اعظم تک کا خطاب بھی دے ڈالا گیا۔ یہ الگ بات کہ ان کے انتقال کے بعد نصاب اور غیر نصابی مواد میں اُن کے بارے کسی ایک بھی ایسی کمزوری کا ذکر نہیں ملتا جو کہ انسانوں اور فرشتوں میں فرق کی نشاندہی کے لئے پیمانہ بن سکے اور بابائے قوم قرار پائے۔
اب بابائے قوم کے بعد مادرِ ملت کی باری تھی انہیں بھی ہم نے دل کھول کر ایسے اعزازات سے نوازا کہ اب ہم خود بھی تاریخ کے اُس حصے کو یاد کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ کسی نے بھارتی ایجنٹ کہا تو کسی نے انتخابی مہم کے دوران کے انتخابی نشان کو گلیوں میں یوں سیر کروائی کہ اُسے یہاں بیان کرنا بھی مناسب نہیں۔ پھر محترمہ بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیںاور تب ہم نے انہیں قوم کی ماں قرار دے کر اور کتابوں اور کہانیوں میں اُن کی زریں خدمات کو بیان کرکے اپنے آپ کو اچھے بچے ثابت کر لیا۔
پھر ایک طویل سفر چل نکلا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارے روّیے بھی ترقی کرتے چلے گئے اور ارتقا کے اصولوں کے عین مطابق ہمارے الزامات،اظہار اور انداز میں قوت بڑھتی چلی گئی اور ہم جو پہلے قائدین پر محض الزامات لگاتے اور فتاویٰ جاری کرتے تھے اب انہیں غدار، یہود و ہنود اور نصاریٰ کے ایجنٹ، مذہب مخالف اور کافر قرار دینے کے ساتھ ساتھ انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کا انتظام بھی خود ہی کرنے لگے۔ خان لیاقت علی خان سے لیکر عصرِ حاضر تک قریباً سب ہی سرکردہ سیاسی اکابرین کو ایسے الزامات اور کچھ کو تو سنگین نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نا صرف پھانسی پر جھولنا پڑا بلکہ پھانسی سے پہلے انہیں کردار کُشی کی ایک فقید المثال مہم کا اور پھانسی کے بعداُن کی نعش تک کو تحقیر و تذلیل کا سامنا کرنا پڑا اور لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو عوام کے سمندر کے درمیان قتل کر دیا گیا۔ گویا آمروں کے علاوہ اس ملک کے قریب قریب تمام قائدین جو ملک کی سربراہی کے منصب پر فائز رہے یا فائز ہو سکتے تھے وہ جب تک زندہ رہے تب تک غدار، بے ایمان، بد دیانت، جھوٹے، لٹیرے، کافر وغیرہ مشہور رہے یہ الگ بات کہ اُن کے اس جہاں سے رخصت ہونے کے بعد ہم نے انہیں بابائے قوم، مادرِ ملت، قائدِ ملت، شہیدِ جمہوریت، شہیدِ انسانیت وغیرہ وغیرہ تسلیم کرنے اور بنانے میں جتنی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال بھی کم کم ملتی ہے۔
ہم اپنی ان اقدار کو آج بھی مضبوطی سے تھامے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور کسی کو عدالت کے ذریعے اور کسی کو عوامی جلسوں، میڈیا اور اشاعتی مواد کے ذریعے سے غدار یا پھر مذہب دشمن مشہور کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اور اپنی ان اقدار پر فخر کرتے ہوئے ہر دن ان کو مزید مضبوط کرنے کے طریقے ڈھونڈنے اور نئے سے نئے ہتھیار متعارف کروانے میں جُتے پڑے ہیں۔ کہیں سے میاں نواز شریف کو غداری اور اسلام دشمنی کے القابات مل رہے ہیں تو کہیں سے عمران خان صاحب کو یہودی ایجنٹ اور بد چلن ثابت کرنے کی جدوجہد کی جاری ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عام شہری جیسے ہی اپنی نا پسندیدہ شخصیت کے بارے کوئی بھی ایسی بات یا ایسی پوسٹ دیکھتا ہے جس سے ذرا سا بھی مخالف کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو تو اسے آگے پھیلانا گویا اُس کے ایمان کا حصہ ٹھہر جاتا ہے۔ اور اکثر پوسٹوں کے ساتھ تو باقاعدہ لکھا جاتا ہے کہ اگر آپ نے اسے آگے نہ پھیلایا تو آپ بھی ملک کے غدار ہیں۔ اب یہ پوسٹیں کس نے اور کس مقصد کےلئے تیار کرکے انٹرنیٹ پر ڈال دی ہیں اس سے بہر حال ہمیں کوئی سروکار نہیں۔اور نہ ہی ہمیں اس بات سے لینا دینا ہے کہ سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ شئیر کی جانے والی پوسٹوں کے ایڈمن ہمارے ذریعے سے پیسے کما رہے ہیں۔ ہمیں تو بس اپنی حبُ الوطنی ثابت کرنا ہے جو کہ بوجوہ ہم گذشتہ 71 برس سے ثابت نہیں کر پا رہے۔
ایک چھوٹا سا لٹمس ٹیسٹ جو میں نے پہلے اپنے ساتھ کیا اور پھر اُسے ایک اپنے انتہائی قریبی عزیز پر آزمایا۔ فون پر ملکی حالات پر بات کرتے ہوئے موصوف ایسی ہی پوسٹوں اور شہہ سرخیوں کے زیرِ اثر تمام سیاسی قائدین پر اپنی ناراضی کا بے دریغ اظہار کر رہے تھے۔ یہ سب غدار ہیں، چور ہیں، ملک دشمن ہیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ تو خیال آیا کہ کیوں نہ لٹمس ٹیسٹ کیا جائے۔ عرض کیا کہ آپ کا تعلق مذہبی اقلیت سے ہے۔ جواب ملا جی بالکل۔ تو عرض کی کہ یعنی آپ عام سے ذرا کم شہری ہیں کیونکہ آئین و قانون سے لیکر نصاب اور معاشرتی مشق میں آپ کی حیثیت کسی طور بھی مذہبی اکثریت کے کسی رکن کے برابر نہیں۔ جواب ملا جی بالکل۔ تو عرض کیا کہ آپ کو ہر قدم پر مخصوص حلقوں اور افراد کی طرف سے تعصب اور بعض اوقات نفرت کا بھی سامنا رہتا ہے۔ تو جواب ملا جی بالکل۔ تو عرض کیا کہ آپ کو وطنِ عزیز میں نشوونما اور بڑھوتری کے مساوی مواقع میسر نہیں۔ تو جواب ملا جی بالکل۔ تو عرض کیا کہ آپ کی تمام تر حب الوطنی کے باوجود آپ کو شک کی نظر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو جواب مِلا جی بالکل۔ تو گذارش کی کہ حضور عام شہریوں کے دیگر انتظامی اور قانونی مسائل کے ساتھ ساتھ آپ جو کہ عام سے ذرا کم شہری ہونے کا درد بھی جھیل رہے ہیں کیا آپ کے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا ہو کہ خُدا نخواستہ اِس ملک کو کوئی نقصان پہنچے یا اگر بیرونی دنیا سے کوئی آپ کو کسی بھی قیمت پر اس بات پر آمادہ کرلے کہ آپ اپنے وطن کو نقصان پہنچانے میں کوئی کردار ادا کریں۔ تو جواب مِلا کہ ایسا خیال تو کبھی انتہائی غصے یا نشے کی حالت میں بھی نہیں آ یا اور نہ ہی آ سکتا ہے۔ تو عرض کیا کہ جب ہم عام سے ذرا کم شہری بھی اس وطن سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ تو جن کو یہاں حقِ حکمرانی کے ساتھ ساتھ تمام حقوق، مواقع اور آسائشیں حاصل ہیں اُن کے بارے ہم یک لخت ایمان کی حد تک یہ کیسے تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ غدار ہیں اور ملک دشمن ہیں؟ پھر اس کے بعد کچھ دیر کےلئے خاموشی طاری رہی۔
خاموشی کو توڑا اور گذارش کی کہ حضور غلطی کرنا انسانی جبلت ہے۔ سیاسی یا انتظامی غلطی کی نشاندہی سیاسی اور ذمہ دارانہ انداز سے کرنا اور کرتے رہنا بہتری کےلئے ناگزیر ہے لیکن سیاسی یا انتظامی اکابرین کو مطالعہ پاکستان کے کرداروں کے پیمانے سے ماپنا اس لئے مناسب نہیں کہ ہر قسم کی انسانی کمزوری سے پاک اُن کی سوانح زندگی یا اُن کے بارے دستیاب تحاریر اور معزز القابات اور خطابات انہیں اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہی مل پائے ہیں۔یہ تو تھا عام سے ذرا کم شہری کا لٹمس ٹیسٹ لیکن اگر چاہیں تو عام اور مکمل شہری بھی اسے اپنے آپ پر آزما سکتے ہیں۔
- مشرقی اقدار، یوم خواتین اور مشرق کی عائشہ - 06/03/2021
- مودی اور انڈیا کو شرم آنی چاہیے - 02/03/2020
- جمہوریت، موروثیت اور کرپشن - 13/07/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).