ماہر نفسیات ڈاکٹر جہاں آرا کے مریض


جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔ وہ ڈاکٹر تھی لیکن اس وجہ سے نہیں کہ اس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا تھا بلکہ اس لیے کہ اس کو دیکھتے ہی انسان کو وہ مرض لاحق ہو جاتا جس کا علاج صرف اسی کے پاس تھا۔ کھلتا ہوا رنگ ریشمی بال، قدرتی کاجل بھری ہرنی جیسی آنکھیں، بھرے بھرے رسیلے ہونٹ۔ مسکراتی تو گال کے ذرا نیچے گڑھا پڑتا دیکھنے والا اس گڑھے میں ایسا گرتا جیسے پاتال کی گہرایوں میں گر گیا ہو۔ ستواں کھڑی ناک ایسی کہ جیسے اس ناک کی بدولت خاندان بھر کی ناک معاشرے میں بلند ہو گئی ہو۔ اور اس ناک میں ہمہ وقت جھلمل کرتی نتھلی۔ جو گویا رس بھرے ہونٹوں اور ناک کے درمیان ایک محدود فاصلہ بنائے ہوئے۔ ا س کے نقش و نگار تریاق کا کام بھی کرتے ۔

جب کبھی دلِ پریشاں بوجھل ہوتا تو جھٹ اسے دیکھنے بیٹھ جاتے پہلی نظر ڈالنے پر کرنٹ سا لگتا دوسری پر جسم میں سرد لہر دوڑ جاتی اور تیسری پر گرم۔ تاثیر اور شفا ایسی کہ انسان اپنی پہلی پریشانی بھول کر اک نئی بیماری میں مبتلا ہو جاتا۔ وہ نفسیات کی ڈاکٹر ہے۔ بلیڈ و نشتر سے چیر پھاڑ نہیں کرتی مگر آنکھوں سے دل چیر دیتی اور اگر مسکرا دیتی تو کلیجہ چھلنی۔ بند ہونٹوں سے مسکراتی اور ہونٹ کھلنے پر نہ بھی ہنسے تو کھلکھلاتی ہوئی دکھتی۔ وہ چپ رہتی تو بھی احباب سن سکتے اور بولتی تو رس گھولتی۔ لباس کے رنگوں کا انتخاب ایسا کہ سراپا بہار ہی رہتی۔ وہ قوس قزاح جیسی۔ کپڑوں کے رنگ اس کے چہرے کے رنگوں سے بار بار ہار جاتے۔

خدو خال ایسے کہ جو عضو جہاں اور جتنا ہونا چاہیے فقط اتنا ہی۔ کاٹن کی قمیض پہنے تو ساٹن کی دکھائی دے۔ یا تو حقیقی حسن بے پرواہ یا پھر جان بوجھ کر شان بے نیازی بنائے رکھتی۔ سنا ہے ہزاروں نفسیاتی مریضوں نے اس کے ہاں شفا پائی لیکن اس کے مریض ہی رہے۔ عجب قاتل حسن کی مالک جس نے دیکھا مقتولین میں شامل ہوا۔ اس قتالہ نایاب کے شوہر نامدار جتنے خوش نصیب ہیں شاید اتنے ہی پریشان حال بھی کہ زمانہ بھر ان کی اہلیہ کو ایسی نظر سے دیکھتا کہ شاید ویسی نظر سے تو وہ اب خود بھی نہ دیکھتے۔

وہ کہتی میں جہاں آرا ہوں ہم نے کہا کہ کبھی جہان سے بھی آرا ء لیں ارد گرد نگاہ تو ڈالیں سارا جہاں ہی آپ کا ہونے کو بے قرار ہے۔ ڈاکٹر اگر حد درجہ خوبصورت ہو تو کون کافر صحت یاب ہونا چاہے۔ اسی متعلق کچھ مریضوں سے بات ہوئی کچھ نے کہا ہم تو بھلے چنگے تھے ڈاکٹر ہی وجہ مرض ہے کچھ بولے نفسیاتی مسائل کا شکار تھے نیم پاگل تھے جناب کی عنایات و گفتار کے سبب صحت یاب ہوئے عرصہ ہوا لیکن جب سے مرضِ ڈاکٹر لگا دیوانے ہوئے پھرتے ہیں۔

ہو سکتا ہے نفس کے کسی مرض کا عمر سے کوئی تعلق ہو لیکن نفسیاتی امراض عمر نہیں دیکھتے اور نہ ہی ان کے ڈاکٹر۔ اور وہ محترمہ تو خدا کی پناہ۔ ویسے تو سائنس نے اب اتنی ترقی کر لی کہ نت نئی بیماریاں وجود میں آنے لگیں ہیں اللہ بھلا کرے پڑھے لکھوں کا کہ پوری دنیا میں ایک تلاطم برپا کر رکھا ہے یہ تھراپی اور وہ تھراپی۔ یہ بیماری اور وہ علاج۔ مرض کے ظہور ہونے سے پہلے ہی اس کا علاج مارکیٹ میں آ جاتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ اس دوا کے ذریعے آپ اس مرض سے محفوظ رہیں گے جو ہوا بھی نہیں۔ یعنی مرض کے لاحق ہونے سے پہلے علاج۔

جدید دور نے انسانی صحت اور نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ پیدل چلنے والے سائکل کے بعد موٹر سائیکل اور پھر گاڑی پر آئے۔ کمپیوٹر نے تو گویا کئی کئی گھنٹے اکڑوں بٹھا دیا جنہیں مسواک کی عادت تھی خوش تھے ٹوتھ برش والے بے چارے اب امساک کی فکر میں مبتلا رہتے۔ کمال حد ہے کہ پہلے پہل جو مالش ہوا کرتی تھی اب وہ بھی پالش کے زمرے میں آئی۔ عجب مرحلے اس وقت درپیش ہوئے جب مالش اپنوں کی بجائے پرائی عورتیں اجرت لے کر کرنے لگیں۔ ماڈرن دنیا نے اسے مساج کا نام دیا اپنوں سے کرائی گئی مالش نقطہ سکون تک لے جاتی تھی اور اب غیروں کے یہ اجرتی مساج نقطہ ہیجان تک پہنچاتے۔

مگر جہاں آرا خدانخواستہ جسمانی نہیں محض ذہنی مساج کرتی ہیں۔ علاج میں ادویات کا ستعمال کم سے کم کرواتیں کہتی انسان کے دماغ میں ہی اس کیزہنی بیماریوں کا علاج پوشیدہ ہے۔ نفسیات کا روحانیت سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا کے تمام ماہر نفسیات مریضوں کو کسی ایک خاص نقطے کی جانب مرتکز کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں جو ظاہر ہے مذہب، عقیدے، عشق وغیرہ سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے۔ محترمہ بھی معالج ہیں مریض کے علاج کے دوران اسے اس کی سوچ کے مطابق کسی نکتہ پر مرتکز کرتی ہیں۔ شفایابی منجانب اللہ لیکن ایک بات طے کہ صحت یابی کے بعد مریض باقی تمام تر ارتکاز بھول بھی جائے تو اس ڈاکٹر کو کبھی نہیں بھول پاتا۔

آج کل کے پیروں فقیروں سے متعلق سنا ہے کہ وہ سخت روحانی علاج کرتے ہیں۔ بعض کہانیوں بیانیوں کے مطابق خوبرو بے اولاد خواتین یا وہ جنہیں ساس یا نند کی ناک میں دم کرنا مقصود ہو کا احسن طریقے سے روحانی علاج کرتے ہیں زیادہ دم نہیں کرتے بس ایک دم کرتے ہیں یوں اپنے تعیں دمام دم مست رہتے ہیں۔ مگر جہاں آرا نفسیات کی حقیقی ڈاکٹر ہیں سو جس کو ذہنی بیماریوں کا خاتمہ کرنا مققصود ہو ضرور ان کے ہاں جائے نجات پائے مگر اپنی ذمہ داری پر کہ مرض عشق بیماروں کی ماں ہے۔ ہم تو یہی کہتے۔ بقول غالب۔ جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔ ختم شد

راقم تحریر کا تعارف۔ خرم بٹ(سابق سینئر جوائنٹ سیکریٹری نیشنل پریس کلب اسلام آباد)۔ بائیس سال سے فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ مزاح نگار۔ کالم نگار۔ بلاگر۔ ون لائنر۔ بٹ گمانیاں کے نام سے طنز ومزاح لکھتے ہیں۔ ان کی غائب دماغی کی وجہ ان کی حاضر دماغی ہے۔

خرم بٹ
Latest posts by خرم بٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خرم بٹ

خرم بٹ(سابق سینئر جوائنٹ سیکریٹری نیشنل پریس کلب اسلام آباد)۔ بائیس سال سے فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ مزاح نگار۔ کالم نگار۔ بلاگر۔ ون لائنر۔ بٹ گمانیاں کے نام سے طنز ومزاح لکھتے ہیں۔ ان کی غائب دماغی کی وجہ ان کی حاضر دماغی ہے

khurram-butt has 10 posts and counting.See all posts by khurram-butt