ساجد مسیح کا جرم چھوٹا تو نہیں ہے


قانون میں جرم کو ثابت کرنے کے لئے دو عوامل کا ہونا لازمی ہے
Actus reus یعنی مجرمانہ فعل
Mens rea مجرمانہ ذہن
عدالت ان دو عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی ملزم کو مجرم بناتی ہے۔

اب آئیں ساجد مسیح کی طرف جس کے جرائم کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ جرم کے دو عوامل نا ہونے کے باوجود ساجد مسیح مجرم ٹھہرا۔
ساجد مسیح کو کوئی معمولی مجرم نہ سمجھا جائے۔ اس کے جرائم کی لسٹ کوئی معمولی نہیں۔ سب سے بڑا جرم تو یہ ہی ہے کہ اس کا تعلق ایسے معاشرے سے ہے جہاں قانون طاقتور کے گھر کی لونڈی کی حثیت رکھتا ہے۔

ایسے معاشرے کا فرد ہونے کے ساتھ، سونے پر سہاگہ کے ساجد مسیح کا تعلق ایک اقلیتی برداری سے ہے جہاں معمولی سی رنجش پر بلا سفیمی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
رمشا مسیح کا کیس سب کے سامنے ہے جب 14 سال کی بچی کو گستاخ بنا دیا۔ انویسٹیگیشن ہوئی تو بات سامنے آئی محلے کے قاری صاحب نے خود گستاخانہ فعل سرانجام دیا ذاتی رنجش کی بنا پر۔

ہم اور ساجد مسیح افسوس کے ساتھ جس معاشرے کے فرد ہیں یہاں
اقلیت تو کیا مخالف مسلک کے مسلمان کو بھی گستاخ تصور کیا جاتا ہے۔
چنیوٹ کا واقعہ سب کے سامنے ہے جب اک ستر سال کے بزرگ کو قتل کردیا کیوں کے وہ مخالف مسلک کا تھا تو اس لئے گستاخ ٹھہرا۔

جانے کب کون مار دے کسی کو کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہا پھرتا ہے۔

اور ادھر ساجد مسیح کا تعلق تو پھر اقلیت سے تھا۔
اک اور جرم موصوف ساجد مسیح کا، کے کزن پطرس مسیح پر مبینہ طور پر بلاسفیمی کا الزام ہے۔ جب اتنے قریبی رشتے دار پر اتنا خطرناک قسم کا الزام ہو تو ظاہری بات ہے اس اندھے سسٹم کی اندھی منطق کے مطابق ساجد مسیح بھی برابر کا شریک جرم ہوا۔

یہاں تو اک معمولی سے چور کے پورے خاندان کو پولیس والے اندر کردیتے ہیں۔ پولیس اسٹیشن میں ان کی عزت کو خاک میں ملا دیا جاتا ہے۔
ادھرساجد مسیح کے کیس میں تو پولیس والوں کے بھی مائی باپ ایف آئی اے والے تھے۔ تو یہ کیسے ممکن تھا ان سے کم برائی کی امید رکھی جاتی۔

اب آئیں ساجد مسیح کے اصلی جرم کی طرف جس میں مجرمانہ فعل بھی شامل ہے اور مجرمانہ ذہن بھی جس کی باقاعدہ ایف آئی آر کٹ گئی ہے یعنی اب اقدام خودکشی کا ٹرائل ہوگا اور دفعہ 325 کے مطابق سزا ملے گی۔
جی کیوں نا ملے سزا جب اتنے نہ کردہ گناہوں کی سزا ملی ہے تو اس کردہ گناہ کی سزا تو ملنی ہی ملنی ہے۔
جی اب ہمارے ہاں جنگل کا قانون تو نہیں۔ قانون ہے تو عملدرآمد بھی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).