فاروق عادل کے خاکے


کسی بھی تخلیق میں باوجود کوشش کے تخلیق کار کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس کے ہر ،ہر رنگ میں موجود ہوتا ہے۔ اب یہ تخلیق کارکی بساط اور ظرف پر منحصر ہے کہ وہ اپنی تخلیق کی ہر سطر پر چنگھاڑتا رہے یا پھر پس منظر میںدھیمے سے قاری یا ناظر کے تحیر پر چپ چاپ مسکراتا ہے۔فاروق عادل کی کتاب ” جو صورت نظر آئی“ ہاتھ لگی تو فاروق عادل سے التفات، محبت میں بدل گیا۔ صاحب کتا ب سے مدت کی صاحب سلامت تھی مگر تحریر سے شناسائی پہلی دفعہ ممکن ہوئی۔ ہر سطر میں وہ شائستگی نظر آئی جو فاروق بھائی کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ وہی مسکراتے جملے ، وہی ذات سے اجتناب ، وہی تحقیق کا جنون ، وہی ادب آداب اور وہی احترام کے لبادے میں لپٹے چبھتے ہوئے سوال۔مجھے اس کتاب میں ہر شخصیت سے وہی عدل نظر آیا جو اس عادل کا خاصہ ہے۔

 35 شخصیات کے بارے میں لکھے گئے یہ خاکے اس ملک کی تاریخ کے 35 باب ہیں۔ ہر باب تاریخ کے چند مخفی رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔ ان شخصیات کے حوالے سے بہت کچھ بتاتا ہے۔ ان چند صفحات میں ہر دور کا قصیدہ اور نوحہ فاروق عادل نے پڑھا ہے۔ لیکن اسلوب میں وہ متانت ہے کہ کہیں کوئی واقعہ بریکنگ نیوز کے قبیح شکل میں نہیں ہے۔ رس بھرے انداز میں ، میٹھے سے لہجے میں وہ سب کچھ بتا دیا گیا جو ماضی کی گرد ہو گیا تھا۔ اس دھول میں سے نئے زمانے کے لئے درس دریافت کرنا فاروق عادل کا کمال ہے۔

ادیب اگر صحافی بھی ہو جائے ادب کی گرفت اور لذت سے ساری عمر باہر نہیں نکل سکتا ۔اس کو جملے کا چسکہ ہمیشہ رہتا ہے۔ لفظ کا سحر اس پر تاعمر قائم رہتا ہے۔ قاری کی حیرت سے وہ ساری عمر حظ اٹھاتا ہے۔فاروق عادل نے تمام عمر صحافت کی مگر ان اندر کا ادیب اب بھی انکے اندر کلکاریاں مارتا ہے۔ ہمکتا ہے ، لاڈیاں کرتا ہے۔یہی اس کتاب کا کرشمہ ہے۔ 260 صفحات میں صحافی کہیں پیچھے رہ جاتا ہے ادیب اپنی قامت کا سطر سطر پر انکشاف کرتا ہے۔ادب کا قاری اس کتاب کے اسلوب میں جستہ جستہ دھنستا چلاجاتا ہے تاوقتیکہ صفحات ختم ہو جاتے ہیں مگر تاثر باقی رہتا ہے۔تحریر میں یہ تاثر اور تاثیر ریاضت سے نہیں ملتا اسکے لئے درست لفظ برکت ہے، رحمت ہے اور یہ نصب سے نہیں ملتی یہ نصیب کی بات ہوتی ہے۔ بلکہ بڑے نصیب کی بات ہوتی ہے۔

خاکہ نگاری دشوار فن ہے۔ پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ دو طرح کے ادبی خدشات ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہیں مصنف اپنے علم کے زعم میں اس شخصیت کا تمسخر نہ اڑا دے ۔ اس سہولت سے ماضی میں کچھ خاکہ نگاروں نے بہت فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ اس طرح کی خاکہ نگاری میں دشواری یہ ہوتی ہے کہ جس شخصیت کا ایک مقام تاریخ نے متعین کیا ہوتا ہے خاکہ نگار اس تعین کے پرخچے اڑانے سے حظ اٹھاتا ہے۔ اس طرح کی تحیریر کا مقصود خاکہ کہ نگاری نہیں ہوتا بلکہ مصنف کی ذات کی بوقلمونیوں کا انکشاف پس پردہ خواہش ہوتی ہے۔اس سے خاکہ نگار تاریخ کا چہرہ بھی مسخ کرتے ہیں اور ادب کا ماتھے پر بھی تازیانہ بنتے ہیں۔دوسری کیفیت اس طرح ہوتی ہے کہ خاکہ نگاراس احترام سے شخصیت کا تعارف کرواتا ہے کہ انسان فرشہ ہو جاتے ہیں۔ غلطی کا کوئی امکان نہیں رہتا ہے۔ احترام کے لبادے میں سچائی کہیں دور گم ہو جاتی ہے۔” جو صورت نظر آئی “ میں جو کیفیت مسلسل ہے وہ میزان کی ہے۔ عدل کی ہے۔ کسی بھی مرحلے پر مصنف کے ہاتھ سے احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا اور کسی بھی جملے میں سچ دفن نہیں ہوا۔ یہ اسلوب کا کمال ہے کہ بات کہہ بھی گئے اورکہیں بھی تمسخر ، تضحیک اور تعصب کی جھلک تک نہیں ملی۔

فاروق عادل نے جن شخصیات کے خاکے لکھے ہیں ان میں زیادہ تر شخصیات کا تعلق سیاست کے میدان سے ہے۔ابتداءقائد اعظم سے کی ہے۔ یہ وہ خاکہ جو حرف حرف تعظیم کے جذبے سے سرشار ہے۔ قائد محترم کی شخصیت کے ایک ننھے سے پہلو کی طرف نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ پہلو نہ اس سے پہلے کبھی تاریخ کا حصہ بنا ہے نہ کہیں کتابوں میں اس کا ذکر ہوا ہے۔ اس پہلو کے انکشاف میں قائد کا رتبہ تو وہی رہا ہے مگر ایک انسانی پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ جو انکی شخصیت کے امتیاز کو زک نہیں پہنچاتا بلکہ انہیں ہم، آپ سا انسان بھی بنا کر پیش کرتا ہے۔یہ پہلو قائد کی محبت میں اضافے کا سبب بنتا ہے، اختلاف کا نہیں۔مرزا جواد بیگ کے بارے میں جو لکھا وہ ہمارے اسلاف کی سیاسی روایات کی روشن دلیل ہے۔ کس طرح اصول مقدم رہے ۔ کس وضع داری سے ہر تقاضے کا نبھایا گیا ہے۔امیر جماعت اسلامی میاں محمد طفیل کے خاکے میں مارشل کو آئینی رستہ دینے میں جماعت اسلامی کے کردار پر کھل کر گفتگو ہوئی ۔آمریت کا ساتھ دینے پر تنقید بھی کی گئی مگر یہ تنقید سازش نہیں بنی ،رو برو گفتگو کے پیرائے میں سامنے آئی۔ ستارہ شناس کے عنوان سے پیر صاحب پگارہ کا خاکہ بھی کتاب کی زینت ہے۔ پیر صاحب کی بذلہ سنجیوں میں سیاست کے جو رموز واشگاف ہوئے ہیں وہ قاری کے ذہن میں سوچ کے نئے در وا کرتے ہیں۔ائر مارشل اصغر خان کے بار ے میں لکھتے ہوئے اس واقعے کا بیان حیرت کو گم کر دیتا ہے کہ کس طرح یحیی خان نے 1970 میں سیاستدانوں کو رشوت کے طور پر نقد رقوم کی چوبی پیٹیاں بھجوائیں اور کس طرح اصغر خان جیسے بااصول سیاستدانوں نے ان رقموں کو ٹھکرایا ۔اس المیے پر بھی بات ہوئی کی 1970 میں ہمارے سارے سیاستدان اتنے باصول نہیں تھے۔ ذاتی فائدوں کے لئے قوم کے مستقبل کو داو پر لگانے والوں کی تعداد بے شمار تھی۔پروفیسر غفور کے خاکے میں اندرا گاندھی کے قتل پر پرفیسر صاحب کا ایک جملہ ہی انکی ساری شخصیت کا تعارف کرواتا ہے کہ تشدد سے مزید تشدد جنم لیتا ہے۔بیگم نصر ت کے بھٹو کے خاکے میں مارشل کے دنوں میں ان پر ہونے والے لاٹھی چارج کا حال خون کے آنسو رولاتا ہے۔ اجمل خٹک کی سادگی بھی ہمیں اس کتاب میں نظر آئی۔ جاوید ہاشمی کی جمہوریت پسندی کا ذکر بھی ہے ۔ غلام مصطفی جتوئی کی سیاسی سوجھ بوجھ کا ادارک بھی اس کتاب میں موجود ہے ۔ اس کتاب کا سب سے خوبصورت خاکہ عبدالصمد ہے۔ یہ کوئی سیاست دان نہیں، عبد الصمد کو ئی تاریخی شخصیت بھی نہیں، کسی پارٹی کے لیڈر بھی نہیں لیکن یہ ہماری سفاک تاریخ کا سب سے مکمل استعارہ ہے۔ اگر اس کتاب میں صرف یہی ایک تحریر ہوتی ہو بھی یہ کتاب غنیمت تھی۔

فاروق عادل نے خاکوں کی کتاب نہیں لکھی، تاریخ لکھی ہے، تہذیب لکھی ہے، تمدن کا تحریر کیا ہے، ثقافت کو زیر قلم کیا ہے۔ اس ملک کے ماضی سے شناسائی چاہتے ہیں تو کتا ب ضرور پڑھیں۔ اس ملک کی تاریخ ضرور پڑھیں۔ قارئین کرام کو اس تاریخ سے مستقبل کی تنویر ملے گی۔ آنے والے دنوں کے تصویر ملے گی۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar