حق پی ایس ایل حق


یہ بات ہمارے بھی بچپن کی ہے۔ لہذا اندازہ لگا لیجئے کہ کتنی قدیم ہے۔ سال ہم اس کئے نہیں بتائیں گے کہ آپ بھی تو کچھ جوڑ توڑ کا کشت کاٹیں۔ خیر ہمارے اس ماموں زاد، جس کی عمر اس وقت محض تین برس تھی، کا کوئی ایک مسئلہ نہیں بلکہ مسائل تھے۔ کبھی کیل نگل جاتا تو کبھی کیڑے چبا لیتا۔ مٹی تو خیر سویٹ ڈش کی حیثیت رکھتی تھی۔ بلیوں کے پیچھے دوڑتا رہتا۔

ماں باپ کی ایک نہ سنتا۔

جی اس زمانے میں ماں باپ کی نہ سننا ایک مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ آج ہوتا تو جینئس کہلاتا۔ خیر۔ ہمارا یہ ممیرا بھائی آئے دن بیمار رہتا اور کسی نہ کسی طرح بیچاری ماں کی ناک میں دم کئے ہی رکھتا۔ اللہ بخشے مرحومہ نانی جان کو جنہوں نے تجویز کیا کہ اس کا نام بدلا جائے اور ان تمام مصیبتوں سے چھٹکارہ پایا جائے۔ محلے کے مولوی صاحب ( جن کی مرغی کے انڈے بھی اسی ‘جینئس ‘ کے ہاتھوں آئے دن کریش لینڈنگ کرتے رہتے تھے ) سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے جھٹ سے اس کا نام کاشف سے بدل کر عبدالقدوس رکھ دیا۔

کایا پلٹ گئی صاحب کایا! سب چین کی بنسی بجانے لگے اور راوی چین ہی چین لکھنے لگا۔ اس سے واقعے کو بیان کرنے کو محض اتفاقیہ مت جانئے۔ اس سے ہمارا ایک بہت اہم مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

ہاں لاہوریو ہاں! لاہور قلندرز کی ٹیم کو اس وقت دوا کی نہیں بلکہ تبدیلی نام کی ضرورت ہے۔ مجلس عامہ بٹھائی جائے اور اس صدمے سے لاہور کو نجات دلائی جائے جو ہر پی ایس ایل میں ہم پر نازل ہوتا ہے۔ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات۔ جیسا کہ ہمیں خود ہی اپنا چارہ گر بننے کی اس قدر عادت بن چکی ہے کہ ہم نے اس تبدیلی نام کے لئے بھی قومی رابطہ مہم کا آغاز کر لیا ہے۔

چقندرز کا نام زیر غور ہے۔

آپ بھی کہیں گے کہ کیا بے پر کی اڑا رہی ہے۔ لیکن نہیں صاحب ہم بھی انسان ہیں۔ دل رکھتے ہیں جو ہر کسی کے درد میں دھڑکتا ہے۔ سچ پوچھئے تو ہم ہار کا غم بھی سہہ لیں لیکن رانا فواد صاحب کی بھولی سی صورت پر یہ ملال دیکھا نہیں جاتا۔ کل میچ دیکھنے اسٹیڈیم میں موجود تھی آپ کی یہ منہ بولی بہن۔ یقین مانئے جب قلندروں نے فری ہٹس لینے سے یکسر انکار کر دیا تو ظالموں نے کیمرا رانا صاحب کی طرف کر دیا۔ ہمارا دل تو مانئے حلق میں ہی آ گیا۔ اللہ یہ بے بسی! اللہ یہ کسمپرسی! سموسہ ہاتھ سے پھسل پھسل جانے لگا۔

باوجود اس کے لاہور کے قلندر عالم وجد میں رہتے ہیں اور قوم کے غم و غصے کا نشانہ ہی بنتے ہیں رانا فواد صاحب سبھی کے ہر دلعزیز ہیں۔ اگر ٹیموں کی بجائے مالکان کی مقبولیت پر پی ایس ایل ہو تو قلندروں کا راج اقوام عالم پر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جیسا کہ رفیع صاحب کہتے ہیں کہ اس سے تو بہتر تھا رانا صاحب قتلموں کی انٹرنیشنل چین ہی کھول لیتے۔

ہمیں ابھی بھی  بہتری کی امید ہے۔ نام بدل کر تو دیکھئے۔ رانا صاحب اگر تجاویز دل کو نہ بھائیں تو ایسا کیجئے کی بقول شخصے قلندر کی جس بات نے پانی پانی کیا ہے اسی پانی میں انہیں ڈبو ڈالئے۔ لاہور کا وقت آج کل ویسے ہی ٹائٹ چل رہا ہے۔ ابھی بھی کوئی ابہام ہے تو رفیع صاحب کا قتلموں کی انٹرنیشنل چین والا آئیڈیا برا نہیں۔ کہ بہر کیف اس میں لاہور کا نام بلند ہونے کے کچھ بہتر چانسز ہی ہیں۔

حق پی ایس ایل حق!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).