ننھے ٹروڈو کا سفرنامہ بھارت (باتصویر)۔


گزشتہ دنوں تین برس کے ہیڈرین ٹروڈو کا دورہ ہندوستان اختتام کو پہنچا۔ اس سفر میں وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے۔ ہیڈرین کے والد آج کل کینیڈا کے وزیراعظم ہیں اور ننھے ہیڈرین ٹروڈو کی راہنمائی میں حکومت کا کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاتھ اس سفر کے بارے میں ان کی لکھی ہوئی ڈائری لگی جو یہاں پیش کی جا رہی ہے۔

انڈیا کے سفر کی تیاری
ہمارا ارادہ ہوا کہ انڈیا کا سفر کیا جائے کہ سنا تھا پریانکا چوپڑا، دیپکا پاڈوکون اور کترینہ کیف ادھر رہتی ہیں۔ بمشکل ڈیڈی کو تیار کیا۔ ڈیڈی نے کہنے کو پورا ملک سنبھالا ہوا ہے مگر حالت یہ ہے کہ ہماری مدد کے بغیر وہ اپنے جوتے کے تسمے تک نہیں باندھ سکتے۔

انڈیا میں آمد
جہاز انڈیا اترا تو باہر نکلتے ہی ممی، ڈیڈی، بگ برادر زیویر جیمز اور آپا جان ایلا گریس نے ہاتھ جوڑ دیے حالانکہ ہم کینیڈا کے رہنے والوں کے لئے انڈیا کا فروری ہمارے ہاں کے جولائی سے بھی گرم تھا۔ شاید پروٹوکول والوں نے یہ کہا ہو گا کہ ایسے ظاہر کریں کہ انڈیا کی سردی سے ہم بہت متاثر ہوئے ہیں۔ شاید انڈیا والوں کو سردی کا کوئی کمپلیکس ہے۔ بہرحال ان کی تقلید میں ہم نے بھی ہاتھ جوڑ کر ان میں ایسے پھونک مارنی شروع کی جیسے وہ سردی سے جم رہے ہوں۔

جہاز کے باہر استقبال
سیڑھیاں اترتے ہی ایک بچی پھولوں کا گلدستہ اٹھائے آگے بڑھی۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہم انڈیا میں اس حد تک مقبول ہیں۔ بہرحال ہم نے دوسروں سے دو قدم آگے بڑھ کر اس سے پھول لے لئے۔ ڈیڈی نہ جانے کیوں شرمندہ شرمندہ سے دکھائی دے رہے تھے۔ شاید ان کو اچھا نہ لگا ہو کہ صرف ہمیں پھول پیش کیے گئے تھے اور ان کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔

انڈیا کی مٹی کا ذائقہ
ہم نے سنا تھا کہ انڈیا مصالحوں کی سر زمین ہے۔ اس لئے جب ڈیڈی، ممی، بگ برادر زیویر اور آپا ایلا کو ایک میز کے پاس کھڑا کر کے غالباً امیگریشن کے کاغذات پر کروائے جا رہے تھے تو ہم نے موقع غنیمت جان کر انڈیا کی مٹی کو تناول فرمایا۔ لوگ بھی نہ جانے کیا کیا افسانے بنا دیتے ہیں۔ عام سی مٹی تھی۔ وہی جیسی کینیڈا میں ہم روز کھاتے ہیں۔ اس میں تو کوئی مرچ مصالحہ نہیں تھا۔

انڈیا کی پہلی صبح
ہمیں صبح سویرے ایک میدان میں لے جایا گیا۔ ادھر میز پر رنگا رنگ پھول سجے ہوئے تھے۔ دیکھ کر جی خوش ہو گیا اور ہم نے نعرہ مستانہ بلند کیا ”موگیمبو خوش ہوا“۔ ہمارے باقی اہل خانہ کو شاید پھول پسند نہیں ہیں۔ وہ سنجیدہ سی شکل نکال کر کھڑے رہے۔

بابا نریندر مودی سے ملاقات
انڈیا میں آج کل نریندر مودی نامی ایک بابے کی بہت چلتی ہے۔ ہمارا دوست ڈانلڈ ٹرمپ جونئیر پچھلے دنوں ہی اس سے مل کر آیا تھا اور اس نے ہمیں خبردار کر دیا کہ یہ بابا نہایت شریر ہے، اپنے کان بچا کر رکھنا، ورنہ کھڑے گھاٹ گوشمالی کر دے گا۔ ہم نے ملاقات کے وقت احتیاطاً اپنے کانوں پر ایک بڑا سا ٹوپ چڑھا کر انہیں چھپا لیا اور گالوں پر بھی ہاتھ رکھ لئے تاکہ یہ ہم سے فری نہ ہو۔

ہم نے نریندر مودی کو ایٹی ٹیوڈ دکھایا
بابا نریندر مودی نے ہم سے فری ہونے کی کوشش کی مگر ہم منہ بنائے کھڑے رہے۔ ممی اور ڈیڈی کھسیانی سی ہنسی ہنستے رہے اور آپا ایلا اپنے دونوں کانوں کی حفاظت کے بارے میں کانشئیس رہیں۔ بابا نریندر مودی نے زیادہ تنگ کیا تو ہم وہیں پسر گئے۔ پھر وہ سب خوب شرمندہ ہوئے اور ہماری خوب منت خوشامد کی تو ہم زمین سے اٹھنے پر رضامند ہوئے۔

ایک مندر کی سیر
انڈیا کے مندر اور تیرتھ بہت مشہور ہیں۔ اگلی صبح ہمارا پورا خاندانی زعفرانی لباس زیب تن کیے ایک شہر کی طرف چلا جہاں کے ایک مشہور مندر کی ہم نے یاترا کرنی تھی۔ جہاز سے باہر نکلے تو اچھی بھلی دھوپ تھی مگر ممی، ڈیڈی، بگ برادر اور آپا نے دوبارہ ہاتھ جوڑ دیے جیسے وہ سردی سے کانپ رہے ہوں۔ ہم اداکاری تو کرتے ہیں مگر اوور ایکٹنگ ہمارے بس سے باہر ہے۔ ہم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

مندر میں سوامی جی کو گلاب کی پتیاں بھینٹ کیں
مندر پہنچے تو باہر ہی ایک بابا جی دھونی رمائے بیٹھے دکھائی دیے۔ کسی قسم کا جاپ کر رہے ہوں گے۔ دبلے پتلے جیسے کئی برس کے بھوکے ہوں۔ سر منڈا ہوا تھا۔ ہم نے ان کی تپسیا سے پرسند ہو کر ان کے سر پر گلاب کی چند پتیاں رکھ دیں۔

مندر کے صحن میں
مندر کے صحن میں پہنچے تو اونچی اونچی آواز میں گھنٹے بجنے لگے۔ ہمارے کان ہی سن سن کرنے لگے اور بند ہو گئے۔ ممی، ڈیڈی، بگ برادر اور آپا دوبارہ سردی کی ایکٹنگ کرنے لگے مگر ہم نے بہتر سمجھا کہ ایسے شو کریں کہ ہم ان کے ساتھ نہیں ہیں اور اپنا کان کھولنے کی کوشش کرتے رہے۔

چرخے کا چکر
اندر پہلے کمرے میں ایک پہیہ سا رکھا تھا جس سے ڈوری بندھی تھی۔ پتہ چلا کہ اس کا نام چرخا ہے اور اسے چکر دیے جائیں تو یہ روئی کا دھاگا بنا دیتا ہے۔ ہمیں تو یہ بالکل بھی سمجھ نہیں آیا کہ روئی کو چکر دے کر دھاگا بننے پر کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے۔

مہمانوں کی کتاب میں تاثرات کا اندراج
چرخے کے پاس ہی ایک میز پر ایک کتاب رکھی تھی۔ علم ہوا کہ معزز یاتری اس میں اپنے تاثرات کا اندراج کرتے ہیں۔ ہم نے سب کو ہٹا کر کتاب اور قلم سنبھالے اور تاثرات خود لکھنے کو ترجیح دی اور اے سے لے کر زیڈ تک پوری کی پوری اے بی سی لکھ ڈالی۔

مندر میں رقص
مندر کے مرکزی کمرے میں پہنچے تو ممی، ڈیڈی، بگ برادر زیویر اور آپا ایلا ایک سنہرے مجسمے کو ہار وغیرہ پہنانے میں مصروف ہو گئے۔ ہمیں ایک طرف بالکل شفاف سا فرش دکھائی دیا۔ ہم نے اس پر آنکھ رکھ کر تحقیق کرنے کی کوشش کی کہ نیچے کوئی خفیہ تہ خانہ تو نہیں ہے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ مندروں کے نیچے خفیہ تہ خانے بنا کر ان میں مال دولت چھپایا جاتا ہے۔ ہزار کوشش کے باوجود تہ خانہ دکھائی نہیں دیا۔ اس پر ہمیں یاد آیا کہ پروٹوکول والوں نے بتایا تھا کہ مندر میں بھگوان کے سامنے داس رقص کرتے ہیں اور اس پر بھگوان پرسند ہو کر انہیں راجہ اندر کے اکھاڑے کی اپسرائیں دیتا ہے۔ ہم نے بھی کچھ دیر رقص کیا لیکن بہت دیر تک رقص کرنے کے باوجود اپسرا نہ ملی تو بگ برادر زیویر ہمارا مذاق اڑانے لگا اور ہم نے رقص بند کر دیا۔

راجہ اندر کے اکھاڑے کی اپسرا واقعی ملتی ہے
ہم باہر نکلے تو ہماری ٹانگیں درد کر رہی تھیں اور حرکت کرتے ہوئے تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ اچانک ایک طرف سے ایک اپسرا نمودار ہوئی اور ہمارے پیر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی۔ بدقسمتی سے ہمیں ڈیڈی دیکھ رہے تھے۔ ہم نے اپسرا سے جوتا پہنانے کی درخواست کرنا مناسب سمجھ کر اس سے دوری اختیار کی۔ ڈیڈی بھی عین موقعے پر ٹپک پڑتے ہیں۔

مسجد میں ورود
اس کے بعد ہمیں ایک مسجد میں لے جایا گیا مگر اپسرا وہیں مندر میں رہ گئی تھی اور ہم اس کی جدائی کے غم میں بے قرار تھے۔ ہمیں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

تاج محل کی سیر
شاید ہمارے سر پر محبت کا بھوت سوار دیکھ کر ہمیں تاج محل نامی ایک مقبرے لے جایا گیا۔ بتایا گیا کہ ادھر شاہ جہاں نامی ایک بادشاہ نے اپنی محبوب ملکہ کو دفن کیا ہوا ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اگر بادشاہ کو واقعی ملکہ سے محبت تھی تو اس کی قبر پر کروڑوں ٹن کا پتھر رکھ کر اتنا زیادہ گہرا دفن کیوں کیا تھا؟ کیا اسے یہ خوف تھا کہ ملکہ بھوت بن کر قبر سے نکل کر اسے ڈرایا کرے گی؟ ہم خوب بور ہوئے اور جماہیاں لیتے رہے۔

کینیڈا واپسی
ہم کینیڈا واپس آ گئے ہیں لیکن ہمارا دل وہیں مندر میں اٹکا ہوا ہے۔ ڈیڈی نے یہاں دیس دیس کی اپسرائیں اکٹھی کر رکھی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بانس پکڑا کر انہیں ہماری نگرانی پر مامور کر دیا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ ہم اس طرح بہل جائیں گے۔ لیکن ہم کوئی نہ کوئی پلان سوچ کر یہاں سے فرار ہو جائیں گے اور واپس اس مندر میں پہنچیں گے جہاں اندر کے اکھاڑے کی اپسرائیں جوتے سنبھالتی ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar