پاکستان کی خارجہ پالیسی


دنیا میں اس وقت 195ممالک ہیں، جن میں سے 193ممالک اقوام متحدہ کے ممبر ہیں۔ لیکن یوں لگتا ہے پاکستان کے لئے خارجہ امور کے حوالے سے دنیا میں گنتی کے پانچ سات ممالک کا ہی وجود ہے۔ امریکہ، سعودی عرب، چین، برطانیہ، انڈیا، افغانستان اور اب ترکی مثبت یا منفی رنگ میں ہماری توجہ کے مرکز رہے ہیں۔ ان ممالک سے تعلقات بھی باامر مجبوری یا ہمارے ذاتی تعلقات کے مرہون منت ہیں۔

بیرون ملک آبادی کی خواہش رکھنے والے دنیا بھر کے لوگوں کی طرح کینیڈا پاکستانیوں کی بھی اولین ترجیح ہے۔ اس وقت سوا سے ڈیڑھ لاکھ پاکستانی کینیڈا میں آباد ہیں۔ یہ لوگ بزنس کے علاوہ سیاست میں بھی متحرک ہیں۔ سلمیٰ عطاء اللہ جان سینیٹر ہیں۔ اس وقت دو پاکستانی نژاد خواتین ہماری بہن سلمیٰ زاہد اور اقراء خالد وفاقی پارلیمنٹ کی ممبر ہیں (سلمیٰ زاہد آج کل بوجہ بلڈ کینسر بیمار ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو صحت دے)۔ اسی طرح صوبہ اونٹاریو کی پارلیمنٹ میں یاسر نقوی اور ڈاکٹر شفیق قادری موجود ہیں، اگلے الیکشن میں برادرم مظہر شفیق بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہوں گے۔ صوبہ سیسکاچون میں برادرم محمد فیاض صوبائی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ برادرم خالد عثمان اور بہت سے دوسرے احباب کینیڈین سیاست کا جانا پہچانا نام ہیں۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ایسا ملک جہاں ایک بڑی تعداد میں پاکستانی آباد اور متحرک ہیں وہ ہمارے حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ دہری شہریت کی سہولت سے تو کئی سیاستدان اور بابو فائدہ اٹھا چکے لیکن قومی مفاد حاصل کرنے کے لئے کینیڈا کو درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ پاکستانی حکمرانوں نے کبھی کینیڈا کا دورہ کیا نہ کینیڈا کے وزرائے اعظم کو زحمت دی گئی۔

چند سال پہلے ہمارے بڑے متحرک قونصل جنرل اصغر علی گولو (اب سفیر) کی کوششوں سے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دورے کی نوید سنی تھی لیکن اور ضروری کاموں کی وجہ سے وہ دورہ ملتوی ہوا جو کئی سالوں سے ہنوز التواء کا شکار ہے۔

پچھلے دنوں کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے انڈیا کا دورہ کیا۔ انڈیا کے بابوؤں کی سفارت کاری ہی تھی کہ مودی سرکار کے سرد رویے کے باوجود جسٹن کبھی تاج محل کے سائے میں بیٹھے نظر آئے کبھی گولڈن ٹیمپل میں روٹی بیلتے۔ کبھی بالی ووڈ سٹارز کے ساتھ ماڈلنگ تو کبھی گاندھی جی کی سمادھی پر پھول چڑھاتے۔ کینیڈین میڈیا کی تنقید کے باوجود کوئی ایک بلین ڈالر کے معاہدے کئے اور بھنگڑے ڈالتے رخصت ہوئے۔

کینیڈا کے بہت سارے کالجز اور یونیورسٹیوں نے پہلے ہی انڈیا کے تعلیمی اداروں سے مختلف قسم کے معاہدے کررکھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک بڑی تعداد میں انڈین طلبہ کو داخلے ملتے ہیں اور وہ تعلیمی ڈپلومیسی کا حصہ ہیں۔ صحت کے شعبے میں تعاون جاری ہے، انڈین مصنوعات اور ہینڈی کرافٹس بڑی تعداد میں کینیڈا کے بڑے سٹورز کا حصہ ہیں۔ سائنسی مہارت سے لے کر ایٹمی تعاون تک دونوں ممالک کے درمیان موجود ہے۔

یہی حال جرمنی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ہمارے خارجہ تعلقات کا ہے۔ حالانکہ بہت سے میدانوں میں ان ممالک کی مہارت مسلمہ ہے۔ انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کو بالکل مفت تعلیم جرمنی جیسے ملک میں ممکن ہے۔ دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی اورمشینری جرمنی اور جاپان جیسے ممالک میں دستیاب ہے۔ عمرے، تیل، ایف سولہ اور سی پیک تک محدود ہماری خارجہ پالیسی کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے ہر ملک سے فعال تعلقات ضروری ہیں لیکن کینیڈا، جرمنی، جاپان، آسٹریلیا جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ، اگر ان تعلقات کے گرد برف جمی ہے تو اسے پگھلانے کا آغاز تو کریں۔ تعلقات میں یہ وسعت ہر لحاظ سے پاکستان کے لئے سود مند ثابت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).