شانو بابا چوک، مرزا غالب اور نواز شریف


پاکستان میں امر ہونے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ نئی بننے والی کسی گلی، سڑک، کالونی یا کسی چوک کا نام آپ کے نام پر رکھ دیا جائے۔ بہت مرتبہ دیکھا ہو گا کہ جب کوئی نیا رہائشی علاقہ بننا شروع ہوتا ہے تو سب سے پہلے آ کے رہنے والے لوگوں کی ان تھک کوشش ہوتی ہے کہ وہ پورا ایریا ان کے نام سے موسوم ہو جائے۔ نام میں مشکل ہو گی تو ذات والا کارڈ آگے کیا جائے گا، یہ نسبتاً آسان ہوتا ہے، کہیں بہت سے بھٹی رہتے ہیں تو بھٹی کالونی ہو جائے گا، کہیں اعوان ہیں تو اعوان پورہ اور کہیں سید ہیں تو سادات سٹریٹ ہو جائے گی۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو کم سے کم اپنے عقائد امر کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس کی مثال دینے کی بھی ضرورت نہیں، جہاں بھی رہتے ہیں آس پاس کی دو تین گلیاں اور چوک دیکھ لیں، کوئی نہ کوئی نشان مل جائے گا۔

ابھی جو پورے لاہور شہر میں سڑکیں بنیں تو ایک برانڈ نیو راستہ وہ بھی نکالا گیا جو مرکز سے دور رہنے والوں کے لیے ایک شارٹ کٹ ہے۔ بڑی فٹ سڑک ہے، جہاں آدھے گھنٹے میں بندہ منزل مقصود تک پہنچتا تھا اب دس منٹ میں سکون سے کام ہو جاتا ہے۔ جن دنوں سڑک بن رہی تھی ان دنوں ٹائم بچانے کے لیے کبھی اس راستے پہ جانا ہوتا تو ٹھیک ٹھاک دھول مٹی ہوا کرتی تھی، تنگ آ کے ادھر کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ سوچا جب سڑک پوری بنے گی تو ہی بھائی جائے گا‘ ورنہ پرانا راستہ ٹھیک ہے۔ ایک روشن صبح دیکھا کہ سڑک فل تیار ہے۔ گاڑیاں آ جا رہی ہیں تو اپنا راستہ بھی وہی ہو گیا۔ چوک آیا تو دیکھا راؤنڈ اباؤٹ پر، سائیڈ والی دیواروں پر، آس موجود ہر وہ دیوار جو استعمال ہو سکتی تھی اس پہ سفید چونا پھیر کے سیاہ لکھائی سے ”شانو بابا چوک‘‘ لکھا گیا ہے۔ عجیب سا نام لگا لیکن سوچا کہ یار ہو سکتا ہے واقعی آفیشل نام ہو، جب اڈا پلاٹ ہو سکتا ہے، ارائیاں پنڈ ہو سکتا ہے، ہیر پنڈ ہو سکتا ہے تو شانو بابا چوک بھی ہو سکتا ہے۔ آگے گزر گیا۔

دو تین دن بعد دیکھا تو جہاں جہاں شانو بابا چوک لکھا تھا‘ وہاں دیواروں پہ نئی سفیدی کی ہوئی تھی۔ انتظامیہ جیسے تیسے ہر جگہ سے شانو بابا کی مشہوری ہٹا چکی تھی۔ پھر آگے نکل گیا۔ دو دن بعد پھر ایک کونے والی دیوار پہ کالے رنگ سے شانو بابا کا نام لکھا نظر آیا۔ ایک ہفتہ کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا تو اگلے سوموار دوبارہ سب راؤنڈ اباؤٹ اور آس پاس کی دیواریں بھری ہوئی تھیں۔ اب یہ دلچسپ کھیل شروع ہو گیا۔ دس پانچ دن شانو بابا کے ارمان نکلتے، ایک دن حکومتی ملازم آ کے سب صاف کر جاتے، ایسے ہی ایک برس نکل گیا۔

پھر اس چوک کا باقاعدہ کوئی نام رکھا گیا جو شاید ایک آدھ ماہ کے لیے تھا۔ جو مرضی جتن کیے جاتے شانو بابا آٹھ دس دن بعد پھر سے کام دکھا جاتے تھے۔ آخر شاید کوئی سنجیدہ ایکشن لیا گیا تو کافی دن چوک اپنے اصل نام پہ بحال رہا۔ کمال حیرت یہ ہے کہ وہ نام کبھی دماغ میں بیٹھا ہی نہیں، نہ اب یاد آتا ہے۔ وجہ شاید یہی تھی کہ نام لکھا ہی کتنی دیر تک رہ پایا تھا۔ ایک ہفتہ پہلے ادھر سے گزرتے ہوئے دیکھا تو سامنے اشتہاری سائن بورڈ پہ ایک جناتی سائز کا پینافلیکس موجود تھا جس میں سی ایم، تمام ضلعی نمائندوں، لوکل سیاسی شخصیات اور پتہ نہیں کس کس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد آخر میں ”شانو بابا‘‘ لکھا تھا اور چوک کا نام وہی تھا جو ہم اب بہتر طریقے سے یاد رکھ سکتے ہیں۔

ہوا کیا کہ بار بار کی انتھک غیر قانونی کوششوں کے بعد شانو صاحب فی الحال امر ہو گئے۔ آس پاس کے علاقے میں اگر کوئی پراپرٹی کا اشتہار ڈھونڈیں گے تو چوک کا نام یہی ہو گا۔ ساتھ والی یونیورسٹی کا پتہ کسی کو بتائیں گے تو بھی چوک کا یہی نام لیں گے، ٹریفک والے سپاہیوں کے ڈیوٹی روسٹر میں بھی یہی نام آ جائے گا، کوئی منچلا یا خود شانو صاحب گوگل میپ پہ بھی چوک کو اپنے نام سے مارک کر دیں گے تو کافی عرصے تک یہ کام چلتا رہے گا۔ صرف ایک مسئلہ ہے، جس دن شانو بابا کا نام چوک سے مستقل غائب ہوا، دو سال بعد کسی کو یاد نہیں ہو گا کہ شانو بابا کون تھے اور چوک پہ کیا بیچتے تھے۔ شانو بابا کی شہرت ان کا نام سامنے ہونے کی وجہ سے ہے، دیواروں پہ لکھے ہونے کی وجہ سے ہے اور ان تمام کوششوں کی وجہ سے ہے کہ جو ان کے ذاتی زورِ بازو اور وسائل کا نتیجہ ہیں۔ جس دن زورِ بازو یا وسائل کم ہوئے شانو بابا کی چھٹی ہو جائے گی۔

ہماری تاریخ بھی تقریباً اسی طرح شانو بابا جیسے زبردستوں سے بھری ہوئی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے جب ایک نیا چہرہ ابھرتا ہو، زبردستی ہر اہم یا غیر اہم مسئلے پہ رائے دیتا ہو، اپنی محدود سوچ کے حساب سے حکم لگاتا ہو، تاریخ کے چوک سے پرانی تختی ہٹا کے اپنا نام لکھنے کی کوشش کرتا ہو اور وقت آنے پہ شرافت سے ریٹائر ہو کے خارزارِ سیاست میں پچھلے ”کارناموں‘‘ کے زور پہ نئی دکان کھولنے کی کوشش کرتا ہو۔ حواری ٹھیک ٹھاک سمجھاتے ہیں کہ صاحب وہ دن ہوا ہوئے جو پسینہ گلاب تھا، اب نہ وہ دم خم ہے نہ وہ کرسی ہے لیکن نہ صاحب سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ حواری دل توڑنا چاہتے ہیں کہ لنگر پانی تو بہرحال زندگی کا حصہ ہے۔

ملک میں ایک آئین موجود ہے۔ اسے چوک سمجھ لیجیے۔ اسے بنانے والا ایک سیاستدان تھا، اس لیے مان لیتے ہیں کہ چوک کا نام بنانے والوں نے ووٹ چوک رکھا تھا۔ ہوتا کیا ہے کہ امر ہونے کے شوقین شانو بابا ایک دن آتے ہیں، انتظامیہ کے نام مٹاتے ہیں اور اپنا اسم گرامی لکھ کے چلے جاتے ہیں۔ چار دن بعد کوئی اور زورآور آتا ہے، شانو بابا کا نام مٹاتا ہے اور اپنا لکھ دیتا ہے، وہ جاتا ہے تو ساتھ والی یونیورسٹی کے ٹیکنو پروفیسر لالچی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں کہ اب چوک پہ ہمارے نام کی تختی لگنی چاہئے۔ ووٹ چوک پہ سیاستدانوں کی اپنی تختی شاید الیکشن کے چھ ماہ بعد تک بھی نہیں رہتی۔ کہنے کو چوک رواں دواں ہوتا ہے لیکن تختی بدلنے کے شوقین اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ یہ سارا کھیل اب پرانا ہو چکا۔

نیا کام اس مرتبہ یہ ہوا کہ جس نے چوک بنوایا تھا تختی ہٹانے کے بجائے اس کا نام چھیننے کی کوشش ہوتی نظر آئی۔ نہ چوک بنوانے والے کے پاس کوئی نام ہو گا، نہ وہ تختی لگائے گا، سنجیاں گلیاں ہوں گی اور وچ مرزا یار پھرے گا۔ بظاہر یہ منصوبہ بڑا شارپ نظر آتا ہے۔ بڑے بڑے پیش بین نواز لیگ کا پتا صاف ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن اصل میں پورا سکرپٹ ایک بہت بڑے جھول کا شکار ہے۔ کیا ایم کیو ایم الطاف حسین کے بغیر چل پائی؟ کیا تحریک استقلال اصغر خان کے بعد کھڑی رہ سکی؟ کیا پیپلز پارٹی بے نظیر کے بعد چاروں صوبوں کی زنجیر رہ سکی؟ کیا عمران خان کو نکال کے تحریک انصاف کا دھیلے برابر بھی وجود باقی رہے گا؟ وہی مجبوری ن لیگ کے ساتھ ہے۔ نواز شریف غالب کے ایک مشکل شعر کے آسان معنوں میں بلامبالغہ اس گلدستے کی گرہ ہیں جس نے سب لوگوں کو جماعت سے باندھا ہوا ہے۔ کیا لیڈر کیا ورکر کیا ووٹر، ن لیگ میں سے ن نکالتے ہیں تو پیچھے ایک آدھے الیکشن سے زیادہ کچھ نہیں بچتا۔ عملی بنیادوں پر یہ سب کچھ ناممکن ہے لیکن ایک مسئلہ اور ہے۔ نام چھیننے والے کھیل پہ چوک کے دیگر تماشائی جو آج بہت خوش ہیں انہیں اندازہ نہیں کہ یہی سب کھیل عین اسی طرح ان کے ساتھ بھی شروع ہو سکتا ہے۔ عمران خان کے بنی گالا والے گھر کا نقشہ جعلی ہونے کے بعد اگر وہ صادق اور امین نہ رہے تو پی ٹی آئی ایک الیکشن بھی سہتی نظر نہیں آتی، اس وقت کیا ہو گا؟

شانو بابا چوک کا بہتر حل یہی ہے کہ علاقے کے سارے سیانے مل کے بیٹھیں، کوئی جوڑ توڑ کریں۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر شانو بابا سے درخواست کرتے ہیں کہ ووٹ چوک کا نام اخروٹ چوک رکھ دیا جائے اور جو مرضی اس کے ساتھ سلوک کریں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain