ٹین کی چھت پر بلیاں پالنے کا انجام


اگر ماری بکری نے بکرے کو لات
تو بکرا بھی مارے گا بکری کو لات
سنا تو بچپن میں تھا مگر جب بھی میں پاک افغان تعلقات پر غور کرتا ہوں تو یہی شعر ذہن میں آتا ہے۔

کیا زبردست شکوہ ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کہ بڈبیر کے حملہ آور افغانستان سے آئے تھے۔ اور یہ کہ اب افغان حکومت کو ثبوت پیش کیے جائیں گے کہ آرمی پبلک اسکول کے حملے کی طرح بڈبیر حملے کی منصوبہ بندی اور مواصلاتی رہنمائی بھی افغان سرزمین سے ہوئی۔ اس تانے بانے کو میڈیا میں یوں پیش کیا جا رہا ہے گویا کوئی بے مثال غیر معمولی انہونا واقعہ ہو گیا ہو۔

شہاب الدین غوری کے لشکر سے لے کر بڈبیر واقعہ تک کب کب ایسا نہیں ہوا؟ افغان سرزمین سے ہمارے ہاں اور ہماری سرزمین سے ان کے ہاں مداخلت کا رونا ایسا ہی ہے جیسے میرا بڑا بیٹا ہر وقت شکائیتی رہتا ہے کہ اس کے چار سالہ چھوٹے بھائی نے اس کا بنا سنورا کمرہ تلپٹ کردیا لہٰذا اس نے بھی چھوٹے بھائی کے دو کھلونے توڑ دیے۔ ایسی معمول کی شکائیتوں کا سوائے ایک عدد مسکراہٹ کیا حل؟

افغانستان اور پاکستان بھلے دوست بن جائیں کہ دشمن رہیں۔ دوطرفہ معاملات میں ہمیشہ دخیل رہیں گے۔ ان تعلقات میں بے نیازی ممکن ہی نہیں۔ آسان لفظوں میں،
ستم کرو گے ستم کریں گے، کرم کرو گے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے

ہاں افغانستان اور پاکستان بھائی بھائی ہیں مگر چچا زاد اور پشتون کلچر میں چچا زاد تربور ہوتا ہے اور تربوری رشتے میں ہمیشہ کھینچاتانی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا عنصر غالب رہتا ہے۔ مگر زمانے کو دکھانے کے لیے بھائی بندی بھی چلتی رہتی ہے۔

منطق تو یہ کہتی ہے کہ جب کسی مشترکہ دشمن کا سامنا ہو تو تربور بھی یکجا ہو کر مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی خاندانی رقابت و دشمنیاں وقتی طور پر پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ مگر افغانستان اور پاکستان کا تربوری رشتہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ ان کے درمیان کبھی یہی اتفاق نہیں ہوپا تا کہ مشترکہ دشمن ہے کون؟ عملاً یہی ہوتا ہے کہ ایک کا دشمن دوسرے کے لیے کارآمد۔

اگرظاہر شاہ اور سردار داؤد نے پختون علیحدگی پسندوں کی مدد کی تو ذوالفقار علی بھٹو نے گلبدین حکمت یار اور ربانی سے پینگیں بڑھا لیں۔ سوویت یونین نے خلقیوں اور پرچمیوں کو آگے بڑھایا تو پاکستان نے امریکا کا ڈاکخانہِ خاص بن کے مجاہدین کو کابل کیمونسٹ انتظامیہ پے چھوڑ دیا۔ ایران، بھارت اور امریکا نے شمالی اتحاد پر ہاتھ رکھا تو پاکستان نے طالبان کو آگے کھسکا دیا۔ اسلام آباد نے دائیں ہاتھ سے امریکیوں کو راستہ دیا اور بائیں سے پسپا طالبان کے لیے راستہ چھوڑ دیا تو امریکیوں نے ایک ہاتھ سے پاکستان کو کولیشن سپورٹ کے پیسے دیے اور امریکا نواز کابل نے دوسرا ہاتھ بلوچستان اور سوات و فاٹا سے بھاگنے والے مطلوبین پر نرم کردیا اور اس کے ردِ عمل میں پاکستان نے حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کو نہ دیکھا، نہ سنا، نہ محسوس کیا۔ عقل پر دوطرفہ جوش اتنا غالب ہے کہ ہوش کو یہ کہنے کا بھی موقع نہیں کہ،
یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے

چوہے بلی کے اس کھیل میں نہ صرف برسوں پہلے ڈیورنڈ لائن ایک تصوراتی سرحد بن گئی بلکہ عدم استحکام، مزید بدزنی، منہ زور گروہی وارداتوں، بے مہار پناہ گزینوں، اسلحے کے اجنبی انباروں، لاشوں اور معاشی کمر دو ہری ہونے کے سوا نہ اسلام آباد کے ہاتھ کچھ آیا نہ کابل کے۔ دونوں کی مسلسل کھینچا تانی میں مفاہمت کے امکانی پیالے سے جو دودھ مسلسل چھلک رہا ہے وہ دونوں طرف کے طالبان کی بلی غٹا غٹ پی رہی ہے اور اب تو داعش نے بھی پیالے پر زقند لگا دی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ٹین کی چھتوں پر خونخوار بلیاں پالنے والے نیند کو ترستے ہیں۔

اس تاریخی، زمینی و معروضی تناظر میں جب پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تردید کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے بگڑے ہوئے بچوں کے کان اینٹھنے کا ایک دوسرے کو یقین دلاتے ہیں تو باقی دنیا ان باتوں کو ایک اور کامیڈی سمجھ کے آگے بڑھ جاتی ہے۔

بے شمار وارداتوں کو چھوڑ کے صرف آرمی پبلک اسکول کے سانحے اور بڈبیر حملے کا ہی اگر تجزیہ کیا جائے تو پاک افغان امور کے سرکردہ تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے اپنی جگہ لیکن مطلوبہ کلیدی قیادت میں سے کوئی سرکردہ کمانڈر گرفت میں نہیں آیا اور ان کی اکثریت کامیابی سے افغانستان کے ایسے علاقوں میں جا بسی جہاں کابل حکومت کی رٹ مسلسل کمزور ہے۔

آرمی پبلک اسکول پر حملہ آور پیادے بھلے مار دیے گئے ہوں اور ان کے مقامی پشت پناہ پکڑ لیے گئے ہوں مگر ملا فضل اللہ کے علاوہ اے پی ایس آپریشن کے ماسٹر مائنڈ عمر منصور اور آپریشنل کمانڈر آصف عرف حاجی کامران افغان علاقوں میں موجود ہیں۔ ان ہی منصوبہ سازوں نے بڈبیر حملہ بھی پلان کیا اور حملہ آور وادیِ تیراہ کے راستے بیس سے زائد چیک پوسٹوں کو غچہ دے کر بڈبیر کے دروازے تک بھاری اسلحے سمیت آن پہنچے۔ آپ لاکھ کہتے رہیں کہ اس وقت پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس کے ڈانڈے افغانستان سے مل رہے ہیں مگر اس کا کیا کیجیے کہ ماسٹر مائنڈ سے لے کر عمل درآمد کرنے والے پیادے تک سب کے سب مفرور یا غیر مفرور سابق و حاضر پاکستانی رہائشی ہیں۔

جب آرمی پبلک اسکول میں قتلِ عام ہوا تو اس کے بعد افغان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اسٹرٹیجک قربت میں وقتی اضافہ ہوا اور مشترکہ خطرے کے قلع قمع کے لیے وقتی تعاون بھی دیکھنے میں آیا۔ مگر ایک دوسرے سے وابستہ توقعات فوراً پوری نہ ہونے کے سبب فریقین میں پھر سے روائیتی فاصلہ بڑھنے لگا۔ اس تازہ خلا سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے سرحد کے دونوں اطراف بے لگام دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والوں کی ایک بار پھر بن آئی۔

اپنی ناکامی کا سارا ملبہ دوسرے پر ڈال دینے سے دل کا بوجھ تو ہلکا ہوسکتا ہے مسئلہ ہلکا نہیں ہوسکتا۔ دہشت گردی کے آکٹوپس کو جب تک سانپ سمجھا جاتا رہے گا تب تک صرف لکیر ہی پیٹنے کو ملے گی۔ آپ بھلے اپنے ہاتھ کی ایک انگلی دوسرے کی جانب اٹھائیں مگر اسی ہاتھ کی ان تین انگلیوں پر بھی غور فرما لیں جو خود بخود آپ کی جانب اٹھ رہی ہیں۔

خود آپ کے سیکیورٹی دائرے اگر اتنے کمزور ہوں کہ ان میں سے مچھر بھی گزر سکتا ہو اور ایک اژدھا بھی ذرا سا ترچھا ہو کے نکل سکتا ہو تو پھر دوسرے کو الزام دینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ فرض کریں حریف ملک دہشت گردی کا نلکہ بند نہیں کر رہا تو کیا آپ سارا وقت چیخنے میں لگا دیں گے یا اپنا بچاؤ بند خود مضبوط کرنے کے بارے میں بھی سوچیں گے۔ تو کیا آپ نے بھی اپنی طرف کے سارے نلکوں کی لیکیج چیک کر لی ہے؟

اس وقت کابل، اسلام آباد اور افغان طالبان اگر کسی نکتے پر متفق ہیں تو یہ کہ داعش القاعدہ سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ اگر یہ خطرہ بھی ان تینوں کو کسی سہہ فریقی حل کی جانب دھکیلنے میں ناکام ہے تو پھر ایک سورہ ِفاتحہ باآوازِ بلند ان تینوں کے لیے بھی۔

منگل 22 ستمبر 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).