دمشق میں عشق اور نواحی علاقوں میں جنگ کا آنکھوں دیکھا حال


دوستانِ گرامی، اس خادم کو صومالیہ کے آسمان سے گرے اور دمشق کے کھجور میں اٹکے دو ماہ ہو گئے ہیں۔ اب تک حکایت میں مذکور اندھے کی طرح اس ہاتھی کو جہاں تہاں سے ٹٹول کر اندازہ لگانے کی کوشش جاری ہے کہ یہ سپاٹ ہے، ستون کی شکل کا ہے یا رسی جیسا۔ دمشق کا ہوائی اڈہ بین الاقوامی پابندیوں اور بد امنی کے سبب کم فعال ہے چنانچہ باہر سے آنے والوں کو بیروت جانا پڑتا ہے جہاں سے دو برف پوش پہاڑ پار کر کے تین گھنٹے کے زمینی سفر کے بعد دمشق میں ورود ہوتا ہے۔ یہاں آ کر پہلے تو یہ انکشاف ہوا کہ اس لفظ “دمشق” کے درست تلفظ میں دال کے نیچے زیر اور میم پر زبر ہے یعنی “دِمَشق”۔ ایک اور وضاحت یہ کہ ہمارے ہاں اس ملک کو “شام” کہہ کر پکارا جاتا ہے جبکہ اس کا اصل اور قدیمی نام “سُوریا” ہے۔ درحقیقت بحرِ متوسط کے اس کنارے پر واقع علاقہ جس میں آج کل سوریا، لبنان، فلسطین، اسرائیل نامی ممالک ہیں، مجموعی طور پر “بلاد الشام” کہلاتا ہے۔

آمدم بر سرِ دمشق کہ شیخ سعدی یہاں نجانے کس قحط کے دور میں آے تھے کہ ان سے عشق فراموش ہو گیا ورنہ یہاں قدرتی اور انسانی حسن کی اس قدر بہتات ہے کہ “کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجاست”۔ ہمین تو یہی تاثر ملا کہ اہل دمشق ابھی عشق نہیں بھولے۔ شہر نہایت سلیقے سے بسایا گیا ہے۔ تنگ اور پر پیچ گلیاں ہیں مگر صاف ستھری، جن کے دونوں جانب جھروکوں سے مزیّن مکانات ہیں۔ اس خادم کا قیام شہر کے جدید علاقے میں واقع ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ہے جسے ہمارے آجر ادارے نے حفاظتی نقطہ نظر سے نسبتا محفوظ قرار دے رکھا ہے۔ شہر کا دل “دمشق قدیم” میں واقع ہے جہاں جامعہ امویہ، حضرت یحیی [ع] کا مزار، شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی، صلاح الدین ایوبی، حضرت رقیّہ بنت حسین [ع] اور درجنوں صحابہ کرام کے مزارات اور سُوق حمیدیہ وغیرہ بازار واقع ہیں۔ اب تک ہمارے وہاں جانے پر ادارے کی جانب سے پابندی عائد ہے چونکہ یہ علاقہ ہمہ وقت حکومت سے برسر پیکار شدت پسند گروہوں کے پھینکے گئے مارٹر گولوں کی زد پر رہتا ہے۔ ہوٹل کے قریب ہی شعلان نامی علاقہ ہے جہاں بہت سے ریستوران اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی دکانیں ہیں سو ہماری ترکتازی اکثر یہیں تک محدود رہتی ہے۔ یہیں سن تہتر کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی فضائیہ کی خدمات کے اعتراف میں موسوم “شارع پاکستان” بھی واقع ہے جس کی زیارت ایک جمعہ کو نصیب ہوئی، اگرچہ بعد میں افسران کی جانب سے سرزنش بھی ہوئی کہ یہ شارع جنگ زدہ علاقے کے نواح میں ہے۔ اس خادم کی ایک ذہنی معذوری ہے کہ شروع ہی سے شہروں میں راستہ کھو بیٹھتا ہے البتہ جنگل اور گاوں میں کبھی گم نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ شعلان میں اور بھی شدت اختیار کر گیا کہ جس گلی سے نکلو، ذرا دیر بعد آدمی ایک ہی جگہ پر جا نکلتا ہے۔ ہماری ایک مقامی ہم کار انسانی بستیوں کی منصوبہ سازی میں اختصاص رکھتی ہیں۔ انہوں نے یہ بپتا سُنی تو ہنس دیں۔ بولیں کہ عثمانی تُرک و فرانسیسی طرز تعمیر اور برطانوی و امریکی روایت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ برطانوی اور امریکی بستیاں اکثر اُفقی اور عمودی سڑکوں اور گلیوں کے جدول کی شکل میں بسائی جاتی ہیں جن میں چو رستہ چوک ہوتے ہیں جبکہ عثمانی و فرانسیسی روایت میں ہر چوک سے پانچ، چھے یا آٹھ گلیاں پھوٹتی ہیں اور محلّے دائرہ نما ہوتے ہیں۔ ان کی اصطلاح میں شامی طرز تعمیر “نجمی” ہے جبکہ برطانوی کو “شطرنجی” کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں نجمی کے مماثل لائلپور کا گھنٹہ گھر اور لیاری کا آٹھ چوک ہے۔

ہوٹل ایک چوڑی اور مصروف شاہراہ پر واقع ہے جس کے ہر ٹکڑے کا نام کسی قومی شخصیت سے منسوب ہے مگر عوام النّاس اسے اب تک “شارع بیروت” ہی کہتے ہیں کہ یہ آگے جاکر بیروت جانے والی شاہراہ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے دوسری جانب عثمانی دور کے سلطان سلیمان عالی شان کی یادگار محلّات اور باغیچوں کا ایک احاطہ ہے جو “تکیہ سلیمانیہ” کہلاتا ہے۔ اس کے ایک حصے کی بحالی کر کے اسے حرفت و ثقافت کے بازار کی شکل دی گئی ہے جس میں مقامی گھریلو صنعت کی اشیاء دریاں، زیورات، پیتل کے برتن، کھڈّی پر بنا گیا کپڑا اور روغنی تصاویر وغیرہ کی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں۔ بیچ میں ایک احاطے میں ایک ویران باغ ہے جس میں نصب ایک خاموش فوارہ، انار اور مالٹے کے ٹنڈ منڈ درخت اور سنگی روشیں امتداد زمانہ کا پتا ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں دے رہے ہیں۔ باغ کی ایک سمت الاقصی سے ملتے جلتے گنبد سے مزیّن قدیم مسجد ہے جو اب بھی آباد ہے۔ ایک سنیچر کو یہ خادم سرد موسم اور ہلکی بارش کو خاطر میں نہ لاتے ہوے وہاں گیا، دکانوں کے سامنے ذرا ٹھیکی لی اور ویران باغ کا کچھ دیر نظارہ کیا۔ چشم تصوّر پر عثمانی ترکوں کے دور سیادت کا نقشہ پھر گیا جن کا سکّہ ایک دور میں مصر سے حجاز تک اور یونان سے آرمینیا تک چلتا تھا۔ سامراجی دور کی نشانیاں جہاں تہاں کھنڈرات، آثار قدیمہ اور کچھ علاقوں اور لوگوں کے ناموں کی صورت باقی ہیں۔ انیسویں صدی میں یورپی سامراجیوں نے اس ملک کو ترکوں سے چھین لیا اور یہاں فرانس کا تسلط قائم ہوگیا۔ اسے بھی جنگ عظیم دوم کے بعد یہاں سے بوریا بستر سمیٹنا پڑا۔ اس دور کی نشانی چند فرانسیسی میڈیم مدارس اور سائن بورڈدوں پر عربی کے ساتھ فرانسیسی عبارتوں کی شکل میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایک مربوط اور ہم لسان علاقے “بلاد الشام” کی شام اور لبنان نام کے الگ ملکوں میں تقسیم بھی فرانسیسی سامراج کا ہی تحفہ ہے۔ اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا۔۔

جیسا کہ قارئین کو علم ہے، یہ ملک کوئی آٹھ برس سے شدید خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس کے باوجود یہ دیکھ اور سُن کر حیرت ہوئی کہ حکومت کے زیرِ نگین شہروں میں خوراکی مواد، دوائیں، شہری خدمات اور روزگار کی سرگرمیاں بکثرت موجود ہیں۔ مکمل ملبہ بنے علاقوں کو چھوڑ کر کم از کم دمشق، حلب، حمص، طرطوس وغیرہ کے شہری علاقوں میں بجلی کی فراہمی، اسپتال، بازار ، مدارس، آب رسانی، کچرے کا انتظام وغیرہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں۔ ایک اور خوش گوار منظر یہ ہے کہ لوگ جتنے بھی معاشی طور پر بدحال ہوں، شخصی صفائی پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ کوئی میلا کچیلا چہرہ، کثیف لباس یا بغیر بناو سنگھارکے مردوزن نظر نہیں آتا۔ بھک منگوں نے بھی کُڑے سلیقے کے پہنے ہوتے ہیں اور غریب ترین بھکاری عورت بھی چہرے پر غازہ تھوپے اور ہونٹوں پر سُرخی جماے باہر نہیں آتی۔ شعلان میں اکا دکا بھکاری خاندان خیرات مانگتا دکھائی دے جاتا ہے مگر ان کے بچے بھی پیمپر پہنے ہوتے ہیں۔ دراصل قبل از جنگ یہ ایک متوسط آمدنی کا حامل ملک تھا اور معاشی اشاریے مدت سے رُوبہ ترقی تھے۔ جنگ نے معیشت کی کمر توڑ رکھی ہے مگر گزشتہ دور کی خوشحالی کی کھرچن اب بھی باقی ہے۔ ایک گونگا بہرا شخص شعلان میں بوٹ پالش کا سامان لیے اکثر نظر آتا ہے۔ ایک روز اس خادم نے ضرورت اور ہمدردی کے پیش نظر اس سے جوتے پالش کرواے تو دیکھا کہ اس نے بھی بال جدید فیشن کے مطابق بنوا رکھے ہیں اور سر اور داڑھی میں چمکدار “جیل” لگا رکھا ہے۔

اس جنگ کے متحارب فریقین میں شامی حکومت اور اس کے ایرانی اور روسی حلیف، امریکہ اور یورپ کی حمایت یافتہ”فری سیرین آرمی” اور چند خود کو جمہوریت پسند کہلانے والے چھوٹے گروہ، القاعدہ سے منسلک بیس سے اوپر جہادی جتھّے، بدنام زمانہ “دولت اسلامیہ فی عراق والشّام” یا داعش اور شمال میں کُرد آزادی پسند شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ترکی اور اسرائیل بھی اکثر میزائل یا جنگی ہوائی جہاز بھیج کر اس جنگ میں اپنی دلچسپی کا ثبوت فراہم کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دو برس کے دوران ایک جانب شامی افواج اور اس کے حلیفوں نے مخالفین سے قریب قریب پورا ملک واگزار کروا لیا ہے۔ شمال میں داعش کے خود ساختہ مرکز رقّہ اور دیگر شہروں اِدلِب، عفرین وغیرہ پر کُرد گروہوں کی یورش اور رقّہ پر امریکی فضائی بمباری نے داعش کے قدم اکھاڑ دیئے ہیں۔ باغیوں کا آخری ٹھکانا دمشق کے مرکز سے چھے کلومیٹر پر شروع ہونے والے مضافاتی علاقے “غُوطہ” کے مشرقی حصے میں ہے۔ جنگ سے پہلے یہ ایک پُر فضا جگہ تھی جہاں چیری اور سیب کے باغات تھے۔ یہ در حقیقت بہت سے دیہات پر مشتمل علاقہ ہے اور اردن کی سرحد سے قریب پڑتا ہے۔ شامی افواج نے اسے دو برس سے مکمل گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس تک اسلحے کی رسد کو منقطع کردیا ہے۔ باغیوں کے ساتھ یہاں دو لاکھ کے قریب سویلین آبادی بھی محصور ہے۔ اشیاے خورد ونوش بمشکل اقوام متحدہ اور ہلال احمر کی وساطت سے امدادی قافلوں کی شکل میں پہنچائی جاتی ہیں اور ان کی مقدار اور کیفیت پر شامی حکومت کڑی نظر رکھتی ہے۔ مقامی لوگوں کی یہاں سے نقل مکانی ممکن نہیں ہو پا رہی جس کی متعدد اور متضاد وجوہات سننے میں آتی ہیں۔ علاقے سے نکل پانے والے ایک دو لوگوں نے رازداری کی شرط پر بتایا کہ سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ علاقے پر قابض القاعدہ اور فری سیرین آرمی کے جنگجو اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر کوئی جان جوکھم میں ڈال کر نکل جاے تو اس کے پیچھے رہ جانے والے اہلِ خاندان کو اس کی سخت ترین سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ نکل آنے والوں کو شامی فوج شدید شک کی نظر سے دیکھتی ہے اور پریشان کرتی ہے۔ ذرا سے شبہے پر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے یا اس بد تر صورت حال پیش آسکتی ہے۔ بھاری اسلحہ تو باغیوں کے پاس ختم ہو چکا ہے چنانچہ وہ بلا ناغہ ہر روز بیسیوں مارٹر گولے اندھا دُھند دمشق شہر پر پھینکتے ہیں جو اکثر قدیم شہر کے گنجان محلوں میں گرتے ہیں جن سے سینکڑوں سویلین مرد، زن اور بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ باغیوں میں بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہے جن کی اپنے ممالک کو واپسی ناممکن، یا کم از مخدوش ضرور ہے چنانچہ وہ محفوظ راستے کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے سے بھی انکاری ہیں۔ مستقل مارٹر گولوں کے جواب میں شامی فضائیہ نے مشرقی غوُطہ پر حملوں کا آغاز کیا ہے جو باغیوں کے ٹھکانے بستیوں کے بیچوں بیچ واقع ہونے کے سبب اکثر سویلین آبادی کی اموات اور معذوری پر منتج ہوتے ہیں۔

پاکستانی سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جاے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شام، خصوصا غوُطہ کے بارے میں جاری گرما گرم بحث اکثر غلط معلومات پر مبنی ہے۔ مثلا ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ یہ شیعہ سنی کے درمیان فرقہ وارانہ جنگ ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شام ایک رنگا رنگی پر مشتمل ملک ہے جس میں مسلمان فرقوں میں شیعہ، سنّی، نصیری/ علوی، اسمعیلی،دروز غیر مسلموں میں کیتھولک، پروٹسٹنٹ ، آرمینی، شامی اور یونانی آرتھوڈوکس عیسائی، ایزدی اور کچھ مظاہر پرست لوگ بستے ہیں۔ نسلی اعتبار سے عرب، آرمینی، کرد، چرکس، تُرک، جارجیائی، معتد بہ ہیں اور الہندی، افغانی، اصفہانی، ازبکی قسم کے نام یہاں صدیوں سے لوگوں کی آمد و رفت کا پتا دیتے ہیں۔ عرب اور کُرد بڑے لسانی گروہ ہیں جن میں کرُد سو فی صد سنی العقیدہ ہیں جبکہ پوری آبادی کا قریبا ستر فی صد سنی ہے۔ ملک پر ایک پارٹی “حزب البعث العربی” کی حکومت ہے جو کسی بھی قسم کی سیاسی مزاحمت، مذہبی یا سیکولر، کو برداشت نہیں کرتی اور سختی سے کچلتی آئی ہے۔ دوسری جانب ملک مکمل سیکولر ہے۔ جابجا مساجد اور خال خال کلیسے ہیں جو سب کے سب محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہیں۔ مساجد ہر نماز کے وقت خوب آباد ہوتی ہیں اور مذہبی فرائض کی ادائی پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ خواتین کی غالب اکثریت سر پر سفید سکارف باندھتی ہے جو ایک طرح سے سنی فرقے کا امتیاز ہے۔ ایرانی طرز کی عبایا پوش خواتین بھی کبھی کبھی نظر آجاتی ہیں۔ سربراہ مملکت بشار الاسد اپنی ذاتی زندگی میں نجانے کس قسم کی عبادات کا التزام کرتے ہوں۔ پتا نہیں کرتے بھی ہیں یا نہیں۔ ان کے اجداد البتہ علوی / نُصَیری فرقے کے پیرو رہے ہیں جو اثنا عشری فقہا کے نزدیک زنادقہ کے زمرے میں آتا ہے۔ سیاسی اور سماجی زندگی میں ان کے مذہب یا عقائد کا کوئی شائبہ نہیں ملتا۔ کابینہ، حکومت اور فوج کے اعلی عہدے داروں کے ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر سنی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ فوج میں لازمی بھرتی کا قانون ہے چنانچہ منطقی طور پر وہاں بھی سنی اکثریت ہوگی، اگرچہ یہ اعداد و شمار دنیا میں کہیں بھی جاری نہیں کیے جاتے۔

اب آئیے مشرقی غوُطہ کے حالیہ انسانی بحران کی جانب۔ جیسے کہ اوپر عرض کیا گیا یہ شام میں القاعدہ اور مغرب نواز باغیوں کا آخری مرکز بچا ہے۔ اس سے پھینکے جانے والے مارٹر گولے کئی ماہ سے دمشق کے شہریوں کی زندگیاں اجیرن کیے ہوے ہیں۔ اس خادم کے گمان کے مطابق شامی حکومت نے ایک حکمت عملی کے تحت اسے طرح دیئے رکھی کہ راے عامّہ اس کے مکمل خلاف ہو جاے۔ دو ہفتوں سے مشرقی غُوطہ پر فضائی اور زمینی حملوں کا آغاز کر دیا گیا ہے جن میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کے بارے میں متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں مگر اس سے مفر ممکن نہیں کہ بے گناہ لوگ اس میں گھُن کے مانند پِس رہے ہیں جو ہر لحاظ سے ناقابل قبول اور لائقِ مذمّت ہے۔ جو امر ذرا محّلِ نظر ہے وہ یہ ہے کہ کئی ماہ سے جاری ظالمانہ ناکہ بندی اور مارٹر گولوں سے دمشقی شہریوں کی ہلاکت کی کسی کو خبر نہ ہوئی مگر جوں ہی غُوطہ پر باقاعدہ فوج کے حملوں کا آغاز ہوا، مغربی انسانی حقوق کی تنظیموں کے بیانات کو اچانک ذرائع ابلاغ پر نمایاں جگہ ملنے لگی اور دردناک لائیو ویڈیوز منظر عام پر آنے لگیں۔ یاد کیجیے، کوئی سال بھر قبل، داعش کے مرکز رقّہ پر امریکی فضائیہ نے کارپٹ بمباری کی جس سے سینکڑوں محصور سویلین ہلاک اور ہزاروں معذور اور بے گھر ہوے۔ کیا اُس موقع پر بھی ایسی ہاہاکار مچی؟ ابھی ایک ہفتہ قبل کُرد گروہ جب داعش کو کامیابی سے اپنے علاقوں سے نکال چُکے تو اچانک ترک افواج نے عفرین نامی کُرد اکثریتی قصبے پر بمباری کا آغاز کردیا جس میں بیسیوں سویلین ہلاکتیں ہوئیں۔ عین اسی موقع پر اسرائیلی فضائیہ نے بھی دمشق کے اطراف پر میزائل داغنے اور جنگی طیاروں سے بم باری کا راگ چھیڑ دیا جن میں سے ایک ایف سولہ طیارہ بھی مار گرایا گیا۔ کیا کسی کو خبر ہوئی؟ اس سے قبل جب حلب میں محصور آبادی القاعدہ اور فری سیرین آرمی پر ہونے والے حملوں کا شکار بن رہی تھی، تو “وائٹ ہیلمٹ” نامی مشکوک تنظیم اور نامعلوم شہریوں کی جانب سے “حلب سے آخری پیغام” کے نام سے لائیو ویڈیوز کا غلغلہ مچا تھا۔ کچھ محققین کے مطابق ان میں سے اکثر ویڈیوز جعلی ثابت ہوئیں جو کسی سٹوڈیو میں تیار کی گئی تھیں، جیسا کہ ان میں بروے کار لائی جانے والی جدید فلمبندی کی “تھری سکسٹی کیمرا” تکنیک کے استعمال سے اندازہ ہوتا ہے۔ ایک حقیقت واضح ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں کے سبب شام کا ٹیلی کام کا نظام فرسودہ ہے اور زیادہ سے زیادہ “ٹُو جی” کی انٹر نیٹ رفتار دستیاب ہے جس پر آواز کی ترسیل بھی بہ مشکل ہوتی ہے لائیو ویڈیو تو درکنار۔ اس میں شک نہیں کہ شام کی جنگ میں انسانی حقوق کی پامالی مہیب اور الم ناک ہے۔ مگر اس کا ارتکاب ہر جانب سے ہو رہا ہے اور ہر اس فریق کی مذمّت ضروری ہے جو ان حرکات کا مرتکب ہو رہا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کا انسانی حقوق کا ریکارڈ انتہائی داغ دار ہے لیکن اس حمام میں کسی بھی متحارب فریق کے تن پر کپڑے نہیں ہیں۔ یہ ساری کی ساری جنگ جغرافیائی سیاسی مفادات کے ٹکراو کے سبب ہے اور اس میں فرقہ واریت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اگر کسی طرح سے کھینچ تان کر بشار الاسد کی مفروضہ علویّت کو تشیّع سے نزدیک ثابت بھی کر دیا جاے اور ایرانی فوجی معاونت کو اس سے جوڑ دیا جاے تو روس کی مداخلت کو کس فرقہ ورانہ پیمانے سے ماپا جاے گا؟ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ، رجب طیب اردگان اور بنجمن نیتن یاہو کو کس منطق سے اہل سنّت کا مشترکہ حامی بتایا جائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).