مائی لارڈ! کیا احمدی سانس لے سکتے ہیں؟


اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب ختم نبوت کی شقوں میں تبدیلی سے متعلق مولانا اللہ وسایا کی درخواست کی سماعت کر رہے ہیں اور اس دوران کورٹ روم میں جیسی باتیں چل رہی ہیں وہ نہ صرف خطرناک حد تک تشویشناک ہیں بلکہ معاشرے کو ’قتال فی سبیل اللہ‘ کی راہ میں جوتنے کی ایک دانستہ کوشش لگتی ہے۔

جسٹس صاحب کو ان دس ہزار لوگوں کے بارے میں مزید تفاصیل درکار ہیں جنہوں نے نادرا کے مطابق مسلمان سے احمدی مذہب اختیار کیا۔ سماعت کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی شخص عدالتی حکم کے بغیر اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ احمدی سرکاری ملازمت حاصل کرنے کیلئے جھوٹ بول کر اپنا مذہب اسلام ظاہر کرتے ہیں اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اصل مذہب میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ جسٹس صاحب نے عدالت کے معاون پروفیسر حسن مدنی سے استفسار کیا کہ ایک شخص صرف پنجاب اسمبلی کی سیٹ کیلئے اپنا مذہب تبدیل کردے تو اسلام اس پر کیا کہتا ہے، اس پر پرپروفیسر حسن مدنی نے جواب دیا کہ اسلام مذہب تبدیل کرنے والے کی سزا وہی ہے جو مرتد کی ہے۔

جسٹس صاحب، شائد آپ کا نادرا کے آفس میں شناختی کارڈ بنوانے کیلئے جانا نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہے تو انتہائی وی وی آئی پی ماحول میں ہوا ہے اس لئے مجھے تھوڑی سی تفصیل بتانے دیں۔ نادرا میں جو لوگ بیٹھے کام کر رہے ہیں وہ کام میں تیزی دکھاتے ہوئے سب کا مذہب اسلام ہی لکھتے جاتے ہیں۔ ہر کوئی معاملے کی حساسیت کا ادراک نہیں رکھتا اور کچھ لوگ ویسے بھی سادے ہوتے ہیں اور انہیں زیادہ تفاصیل کا علم نہیں ہوتا، ایسے ہی کسی احمدی کا مذہب اگر اسلام لکھا گیا ہے اور وہ بعد میں جا کر احمدی کروا دیتا ہے تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟ نادرا کی تو یہ حالت ہے کہ میرا اپنا شناختی کارڈ شروع سے ہی احمدی پر بنا ہوا ہے۔ جب میرا کارڈ کہیں کھو گیا اور متبادل کارڈ بنوانے گیا تو ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ میرے پرانے ڈیٹا پر ہی میرا کارڈ بنا دیا جاتا سوائے یہ کہ میں کوئی ایڈریس وغیرہ بدلوانا چاہتا، مگر ہوا یہ کہ جب ڈیٹا چیک کیا تو مذہب پر اسلام لکھا تھا، میں نے نادرا کے بندے سے کہا کہ میرا تو احمدی پر بنا ہوا ہے تو اس نے بدلتے ہوئے کہا کہ سسٹم متبادل کارڈ بنوانے پر یہ ڈیٹا نہیں اٹھاتا۔ اب اگر میری نظر نہ پڑتی اور میں اس غلط فہمی پر رہتا کہ سسٹم میرا پرانا ڈیٹا ہی اٹھائے گا تو میرے شناختی کارڈ میں بھی مذہب مسلمان (سرکاری) لکھا جانا تھا اور جب بھی بعد میں تبدیل کروانے جاتا تو میرا نام بھی ان دس ہزار کی لسٹ میں آپ کی خدمت میں پیش ہو چکا ہوتا۔

جسٹس صاحب، آپ کی اطلاع کیلئے یہ بھی عرض کر دوں کہ نادرا کے لوگ اسلام سے احمدی مذہب تبدیل کرتے وقت جو ناروا رویہ احمدیوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں وہ اسی گھٹن شدہ معاشرے کا عکاس ہے جہاں پر اپنے سوا سب کو جہنم کا ایندھن سمجھا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کا سلوک ناروا ہوتا ہے بلکہ اپنے تئیں وہ ہم سے پہلے سے احمدی ہونے کا ثبوت بھی مانگتے ہیں اور اکثر اوقات مرتد کی سزا کے بارے میں بھی لیکچر دیا جاتا ہے۔

جسٹس صاحب ، مرتد کے بارے میں تو آپ شائد قران کی تعلیمات کے خلاف کوئی قانون سازی کر ہی دیں مگر اپنے معاون سے پوچھئے گا کہ پھر باقی احمدیوں کے بارے میں کیا کرنا ہے؟ ان کے کے بارے میں معاون صاحب کے علماء کیا کہتے ہیں؟ شائد آپ کو یاد ہو کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی شیرانی صاحب احمدیوں کے مسئلے پر مرتد والی بحث شروع کرنا چاہ رہے تھے مگر اشرفی صاحب اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ اگر آپ نے علماء کے فتووں پر ہی اپنے فیصلوں کا انحصار کرنا ہے تو بطور احمدی میں آپ کی مدد کئے دیتا ہوں۔ شائد آپ کو معلوم نہ ہو، اور اگر نہ ہو تو اپنے معاون خصوصی سے پوچھ لیجئے گا کہ پیدائشی احمدی جو کہ ’مرتد‘ کے تحت قتل نہیں ہو سکتا کیا اسے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے؟ وہ آپ کو پھر ’زندیق‘ کی بھول بھلیوں میں الجھا کر پیدائشی احمدیوں کے قتل کی بھی نوید سنا دیں گے۔ اب جبکہ آپ نے احمدیوں کے بارے میں قانون کو مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہی ہے تو پھر اب پیچھے نہ ہٹیئے گا، ڈٹ کر اپنا اور اپنے جیسے پر امن دین کے پیروکاروں کا نام روشن کیجئے گا۔

جسٹس صاحب، آپ کے چوٹی کے علماء (آپ کے معاون جن کی جوتیوں میں بیٹھنا باعث سعادت سمجھتے ہیں) نے احمدیوں کے قتل کا فتاویٰ دئے ہیں جو آج بھی نہ صرف چھپے ہوئے موجود ہیں بلکہ احمدیوں کے خلاف بنائی گئی ویب سائیٹس پر بھی بڑے طمطراق سے موجود ہیں۔ یہ فتاویٰ ان خطرناک حالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان فتاویٰ کو حکومتی سطح پر قبول کرنے سے ہو سکتے ہیں، جس کی سعی آپ اب کر رہے ہیں۔ اب ذرا ان فتاویٰ پر نظر ڈالتے ہیں جن کی رو سے ہر احمدی واجب القتل قرار پاتا ہے۔

مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر کا نام مذہبی حلقوں میں کافی مشہور ہے۔ انکے ایک پمفلٹ کا نام ہی یہ ہے کہ ’آنحضرت ﷺ کے بعد مدعی نبوت اور اسکو نبی ماننے والا واجب القتل ہے‘۔ اس کے شروع میں لکھتے ہیں:

’’نصوص قطعیہ، احادیث صحیحہ متواترہ اور اجماع امت سے مسئلہ ختم نبوت کا اتنا اور ایسا قطعی ثبوت ہے کہ اس میں تامل کرنے والا بھی کافر ہے بلکہ صحیح اور صریح احادیث کی رو سے مدعی نبوت اور اس کو نبی ماننے والا واجب القتل ہیں مگر یہ قتل صرف اسلامی حکومت کا کام ہے نہ کہ رعایا اور افراد کا۔‘‘

http://www.khatm-e-nubuwwat.org/pamphlets/MolanaSKSafdarsb/90/P/2.htm

فتاویٰ اصحاب الحدیث میں ہے:

’’مرزا قادیانی اور اس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ چونکہ یہ لوگ نص قطعی کی مخالفت کرتے ہیں لہٰذا یہ صرف کافر ہی نہیں بلکہ مرتد واجب القتل ہیں۔‘‘ (فتاویٰ اصحاب الحدیث از ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد، جلد اول، صفحہ 58، ایڈیشن جون 2007، مکتبہ اسلامیہ)

http://kitabosunnat.com/kutub-library/fataawa-ashaab-ul-hadees-1

احمدیوں کو جب مرتد کہ کر واجب القتل کہا جاتا ہے تو ہمارے کچھ معصوم لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہر احمدی کیلئے نہیں ہے، یہ تو صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو اسلام کے دوسرے فرقوں کو چھوڑ کر احمدیت میں شامل ہوتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان علماء کے خون کی پیاس تب تک نہیں بجھنی تھی جب تک یہ سارے احمدیوں کو واجب القتل نہ قرار دے لیتے۔ اس لئے انہوں نے پیدائشی احمدیوں کیلئے ’زندیق‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا اور اس طرح اپنے قتل کے فتاویٰ کو فقہی جواز دیا۔ اب کچھ نظر زندیق کے فتاویٰ پر بھی ہو جائے۔ مولانا یوسف صاحب لدھیانوی احمدیوں کو زندیق اور واجب القتل سمجھتے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’س … (۱) کافر اور مرتد میں کیا فرق ہے؟

(۲) جو لوگ کسی جھوٹے مدعی نبوت کو مانتے ہیں وہ کافر کہلائیں گے یا مرتد؟

(۳) اسلام میں مرتد کی کیا سزا ہے؟ اور کافر کی کیا سزا ہے؟

ج …. جو لوگ اسلام کو مانتے ہی نہیں وہ تو کافر اصلی کہلاتے ہیں، جو لوگ دین اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے برگشتہ ہو جائیں وہ ’’مرتد‘‘ کہلاتے ہیں، اور جو لوگ دعویٰ اسلام کا کریں لیکن عقائد کفریہ رکھتے ہوں اور قران و حدیث کے نصوص میں تحریف کر کے انہیں اپنے عقائد کفریہ پر فٹ کرنے کی کوشش کریں انہیں ’’زندیق‘‘ کہا جاتا ہے اور جیسا کہ آگے معلوم ہوگا انکا حکم بھی ’’مرتدین‘‘ کا ہے بلکہ ان سے بھی سخت۔

(۲) ختم نبوت اسلام کا قطعی اور اٹل عقیدہ ہے اس لئے جو لوگ دعویٰ اسلام کے باوجود کسی جھوٹے مدعی نبوت کو مانتے ہیں اور قران و سنت کے نصوص کو اس جھوٹے مدعی پر چسپاں کرتے ہیں وہ مرتد اور زندیق ہیں۔

(۳) مرتد کا حکم یہ ہے کہ اس کو تین دن کی مہلت دی جائے اور اسکے شبہات دور کرنے کی کوشش کی جائے اگر ان تین دنوں میں وہ اپنے ارتداد سے توبہ کر کے پکا سچا مسلمان بن کر رہنے کا عہد کرے تو اسکی توبہ قبول کی جائے اور اسے رہا کر دیا جائے لیکن اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسلام سے بغاوت کے جرم میں اسے قتل کر دیا جائے، جمہور ائمہ کے نزدیک مرتد خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کا ایک ہی حکم ہے البتہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک مرتد عورت اگر توبہ نہ کرے تو اسے سزائے موت کی بجائے حبس دوام کی سزا دی جائے۔

زندیق بھی مرتد کی طرح واجب القتل ہے لیکن اگر وہ توبہ کرے تو اسکی جان بخشی کی جائے گی یا نہیں؟ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اگر وہ توبہ قبول کر لے تو قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، وہ بہرحال واجب القتل ہے ، امام احمدؒ سے دونوں روایتیں منقول ہیں ایک یہ کہ اگروہ توبہ کر لے تو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ زندیق کی سزا بہر صورت قتل ہے خواہ توبہ کا اظہار بھی کرے ۔ حنفیہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ اگر وہ گرفتاری سے پہلے از خود توبہ کر لے تو اسکی توبہ قبول کی جائے اور سزائے قتل معاف ہو جائے گی ۔ لیکن گرفتاری کے بعد اس کی توبہ کا اعتبار نہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ زندیق مرتد سے بدتر ہے، کیونکہ مرتد کی توبہ بالاتفاق قبول ہے، لیکن زندیق کی توبہ کے قبول ہونے پر اختلاف ہے۔‘‘ (آپ کے مسائل اور انکا حل از مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی، جلد 1، صفحات ۴۶،۴۵، اشاعت ستمبر 1995، ناشر مکتبہ لدھیانوی)

https://archive.org/details/AapKeMasailAurUnKaHal-10Volumes-ByShaykhMuhammadYusufLudhyanvi

اوپر کے فتویٰ پر اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو مولانا یوسف صاحب لدھیانوی نے وہ بھی پوری کر دی، لکھتے ہیں:

’’س …. اور اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ مرتد تو وہ ہوتا ہے جو دین اسلام سے پھر جائے، یعنی پہلے مسلمان تھا بعد میں نعوذ باللہ کافر ہو گیا ۔ اس لئے جو شخص پہلے مسلمان تھا پھر اس نے مرزائی مذہب اختیار کر لیا وہ تو مرتد ہو گیا۔ لیکن جو شخص پیدائشی قادیانی ہو وہ تو مرتد نہیں کیونکہ اس نے اسلام کو چھوڑ کر قادیانی کفر اختیار نہیں کیا بلکہ وہ ابتدا سے ہی کافر ہے ۔ وہ مرتد کیسے ہوا؟

ج …. اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ہر قادیانی ’’زندیق‘‘ ہے اور زندیق وہ شخص ہے جو اسلام کے خلاف عقائد رکھتا ہو، اس کے باوجود اسلام کا دعویٰ کرتا ہو اور تاویلات باطلہ کے ذریعہ اپنے عقائد کو عین اسلام قرار دیتا ہو ۔ اور زندیق کا حکم بعینہ مرتد کا ہے ۔ البتہ زندیق اور مرتد میں یہ فرق ہے کہ مرتد کی توبہ بالاتفاق لائق قبول ہے، اور زندیق کی توبہ کے قبول کئے جانے یا نہ کئے جانے میں اختلاف ہے۔ اس ایک فرق کے علاوہ باقی تمام احکام میں مرتد اور زندیق برابر ہیں۔ اس لئے قادیانی مرزائی خواہ پیدائشی مرزائی ہوں یا اسلام کو چھوڑ کر مرزائی بنے ہوں دونوں صورتوں میں انکا حکم مرتد کا ہے۔‘‘ (آپ کے مسائل اور انکا حل از مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی، جلد 5، صفحہ 71، اشاعت اپریل 1998، ناشر مکتبہ لدھیانوی)

جسٹس صاحب، ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح صفائی سے مولانا یوسف صاحب لدھیانوی نے لاکھوں لوگوں کی زندگی پر خط تنسیخ کھینچ کر آپ کے فیصلے کے لئے مواد مہیا کیا ہے۔ ان کے یہ فتاویٰ کتابوں کے دفتروں کے اندر کہیں گم نہیں ہو گئے بلکہ عالمی مجلس ختم نبوت نے احمدیت کے خلاف سارے فتاویٰ کو جمع کیا اور شائع کیااور مولانا یوسف صاحب لدھیانوی کے یہ دونوں فتاویٰ کتاب ’فتاویٰ ختم نبوت‘ مرتبہ مولانا مفتی سعید احمد صاحب جلالپوری کی جلد اول میں موجود ہیں۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احمدیوں کو آئینی طور پر کافر قرار دینے کے بعد ایسی کیا ضرورت پیش ہے جس کی وجہ سے مولانا شیرانی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی احمدیوں کو دوبارہ نشانہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اسکی بظاہر وجہ تو بہت سادہ ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک احمدیوں کو کافر قرار دینا انکے ساتھ رعایتی سلوک ہے اور احمدیوں کا اصل علاج قتل ہی ہے۔ اب چونکہ احمدیوں کو کافر قرار دینے کے بعد اور انکی مذہبی آزادیوں پرضیائی قدغن لگانے کے بعد بھی احمدی لوگ علماء حضرات کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اور آئے دن کوئی نہ کوئی انصاف پسند اس ستم پر آواز بلند کرتا رہتا ہے اس لئے علماء زیادہ سخت مؤقف اپنا لیتے ہیں تاکہ کمتر مؤقف تو کم از کم اپنی جگہ قائم رہے۔

حیرت ہے کہ سب مسلمان فرقوں نے، جو ایک دوسرے کو کافر کہتے نہیں تھکتے، ایک پر امن اور اپنے کام میں مگن جماعت کو پہلے آئین میں کافر قرار دلوایا ، پھر بھی سینے میں ٹھنڈ نہیں پڑی تو ضیاء الحق کے بدنام زمانہ آرڈینینس کے ذریعے ان کی مذہبی آزادیاں نہ صرف چھین لیں بلکہ ان پر سزائیں مقرر کروا دیں، ان سب حالات کے بعد بھی علماء اور جسٹس صاحب کو چین نہیں ہے اور وہ اب احمدیوں کا قتل روا رکھنے والے فتوں پر عمل کروانا چاہتے ہیں۔ ان علماء سے تو خیر کی توقع نہیں اور انصاف کا خون ہم کئی بار ہوتے دیکھ چکے مگر عوام الناس کو اب ان کے ہتھکنڈوں کا اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ کس طرح یہ اپنے فتوں کے زور پر معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنا چاہتے ہیں۔

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).