ہم سے بڑا چوہڑا کون؟


دیکھو یار ساجد مسیح، تم ویسے ہی جذباتی ہو گئے ہو۔ تمہیں نہیں پتہ تم چوہڑوں کی قسمت میں صدیوں سے یہی کچھ ہے۔ کبھی بہت نسلوں پہلے تمہارا باپ دادا میں سے کوئی صرف اس بات پر قتل ہوا ہو گا کہ اس نے کسی راجپوت نار کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا ہو گا۔

تم صدیوں سے شہروں سے باہر بستے ہو، اب شہر بڑے ہو گئے، شاہدرہ لاہور میں آ گیا تو کیا ہوا تم تو چوہڑے ہی رہے! تم کیوں سوچتے ہو کہ تم کبھی انسانوں میں شمار ہو سکتے ہو؟

تم کیوں رونا سناتے ہو کسی وڈیو میں؟ خاموشی سے مر کیوں نہیں جاتے؟ تمہیں کیا لگتا ہے وہ سرکار تمہیں انصاف دے گی جو تمہیں صرف جمعدار اور خاکروب کی نوکری دیتی ہے؟

تمہیں لگتا ہے تمہاری سسکتی روتی فریاد کی کوئی اہمیت ہو گی؟ او بھولے بادشاہ! جس بستی میں تمہارے غربت زدہ گھر ہوں اس بستی میں تو پلاٹوں کی قیمت گر جاتی ہے۔ تم کیوں سمجھتے ہو کہ تمہاری کچھ قیمت ہو گی؟

دیکھو، سنو، غور سے سنو، یہ لاہور جس کو روزانہ صبح صبح، اتنی صبح کہ ابھی پاکباز نماز کے لیے بھی نہیں اٹھتے، کون صاف کرتا ہے؟ چوہڑے! چوہڑے روز صبح گھروں سے نکلتے ہیں۔ آج تمہیں ضرورت تھی کہ کوئی نکلتا! تواس شہر میں کہ جس کی آبادی ایک کروڑ سے اوپر جا رہی ہے، کوئی باہر نکلا؟

میں نے کئی بار لاہور میں دیکھا کہ ابھی بارش شروع ہی ہوئی کہ ادھر ادھر سے نا جانے کہاں سے جمعدار آئے اور پائپ لائنوں میں جاتے کچرے کو روکا تاکہ پانی گزر سکے لیکن یار، میرے بھائی ساجد، سنو! ذہنوں میں کچرا پھنس گیا ہے۔ ہوا نہیں گزرتی۔

دیکھو تم کسی گٹر میں تو دم گھٹ کر مر سکتے ہو۔ یوں احتجاج کرتے ہوئے چوتھی منزل سے چھلانگ نہیں لگا سکتے۔ کون تمہارا ساتھ دے گا؟ کوئی نہیں، تمہارے پہلے سے تباہ حال گھر والے اور رل جائیں گے۔

دیکھو ساجد مسیح، خداوند کریم تمہیں زندگی بخشے، اب جب گھر پہنچنا تو سب سے پہلے اپنے بچوں کو بلانا اور انہیں بتانا کہ دیکھو ہم اس دھرتی کے سب سے قدیمی باشندے ہیں، دیکھو میرا زخمی چہرا، یہ آج زخمی نہیں ہوا، یہ ہزاروں صدیوں کے زخم ہیں۔

انہیں بولنا کہ سنو! اس کامونکی، اس شاہدرہ، اس شیخوپورہ اور گوجرہ سے باہر بھی ایک دنیا بستی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہمیں کوئی چوہڑا نہیں جانے گا۔ ہمارا رنگ ہماری پہچان نہیں بنے گا۔ ہمارا مذہب ہمیں باقیوں سے علیحدہ نہیں کرے گا۔

اس دنیا میں جانا چاہتے ہو تو کچھ سال، بس کچھ سال کے لئے قلم پکڑ لو۔ پھر وہ دنیا تمہیں خود بلا لے گی۔ کچھ سال درس گاہوں میں طعنے برداشت کر لو کہ آنے والی صدیوں میں کوئی زخم نہ لگے۔

ہاں ان سے کہنا کہ اگر کبھی کامونکی کے کسی جوہڑ میں کھلا کوئی پھول یاد آئے تو اپنے گھر کے کسی ننھے پھول کو دیکھ لینا کہ وہ کسی بھٹہ مالک یا چاول چھڑنے والے شیلر کے سیٹھ سے بچ گیا۔ اور اگر ہو سکے تو ہمین معاف کر دینا ۔۔۔ ہم نے تمہیں چوہڑا سمجھا اور پکارا۔۔۔۔ ہم سے بڑا چوہڑا کون ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).