وادی سون کے سنہرے لینڈ سکیپ


ضلع خوشاب میں واقعہ وادی سون خطہ پوٹھوہار کے انتہائی جنوبی سرے پر واقع ہے لیکن یہ طبعی خدوخال کے لحاظ سے پوٹھوہار سے قطعی مختلف ہے۔ وادی کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں اس کی ایک بالکل نئی شکل سامنے آتی ہے کہیں پر اس کی چٹانیں یوں منظر پیش کرتی ہیں کہ امریکہ کی ریاستیں مونٹانا، ٹیکساس کی پہاڑیاں یا پھر ایریزونا کی گرینڈ کینیان دکھائی دیتی ہیں اور ہالی ووڈ کی ویسٹرن موویز کا نقشہ سامنے آجاتا ہے یہی محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی کہیں سے کلنٹ ایسٹ ووڈ یا لی وان کلف گھوڑا دوڑاتے ہوئے فائر کرتے ہوئے آ نکلے گا۔ چٹانوں سے نکلیں تو ایک وسیع و عریض لینڈ سکیپ سامنے آتی ہے جس کے ہر موسم کے رنگ الگ ہوتے ہیں۔ موسم گرما میں دیکھیں تو ہر طرف ہریالی دکھائی دیتی ہے اور موسم سرما میں ہر طرف زرد گھاس دکھائی دیتی ہے۔ وادی میں ہر طرف وسیع و عریض جھیلیں اور چشمے ہیں۔ جہاں سیاح بکثرت آنے لگے ہیں۔ وادی سون کو سرگودہا ڈویژن کی جنت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ وادی سون میں ہی پانچ ہزار فٹ بلند ترین سکیسر پیک ہے جہاں تقسیم ہند سے قبل سرگودہا میں مقیم انگریز افسران اپنے خاندانوں سمیت وادی سون سکیسر کا رُخ کرتے تھے۔ سکیسر سرگودہا ڈویژن کا سرمائی صدرمقام کہلاتا تھا۔ ہمارے ہائیکنگ اینڈ ٹریکنگ سون ویلی گروپ کا مقصد وادی سون کے چھپے ہوئے گوشوں کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔ اور وادی سون میں سیاحت کا فروغ دینا بھی ایک مقصد ہے تاکہ وادی سون میں چھائی ہوئی غربت بھی دور ہو سکے۔ خاص طور سے سرگودہا، خوشاب اور ملحقہ علاقوں میں رہائش پذیر سیاحت کے دلدادگان کے لئے وادی سون کی سیاحت بہت آسان ہے۔

اور ہم موسم سرما میں وادی سون کے رنگ دیکھنے نکلے۔ سُنا تھا کہ نوشہرہ سے کچھ آگے کُفری کے نزدیک کچھ چشمے ہیں اور وادیاں ہیں جو بہت خوب صورت ہیں اور وہاں کم ہی لوگ جاتے ہیں اور یہ وادیاں خزاں کے بعد موسم سرما میں بہت دلکش منظر پیش کرتی ہیں تو وادی سون ہائیکنگ، ٹریکنگ آرکیالوجی گروپ کے دوستوں کے ساتھ ہم بھی گیارہ فروری 2018کو یہ وادی دیکھنے کے لئے گھر سے نکلے۔ یہ ایک بہت ہی سرد صبح تھی۔ گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ جھنگ سے ایک نئے ساتھی محمد احتشام مرتضیٰ بھی ہم سے آ ملے اور ہم وادی سون کے لئے عازم سفر ہوئے۔ ہم نے کُفری میں اکٹھے ہونا تھا جہاں گروپ کے روح رواں ملک محمد علی ہمارا انتظار کر رہے تھے چونکہ کُفری ان کا آبائی گاؤں ہے اور یہ سب ان کا دیکھا بھالا علاقہ ہے اس لئے ٹریک کو لیڈ کرنے ذمہ داری ملک محمد علی کے سپرد کی گئی۔

وادی سون ہائیکنگ، ٹریکنگ آرکیالوجی گروپ کا یہ اٹھارواں ٹریک تھا۔ جس میں ٹریک لیڈر ملک محمد علی اعوان، بلال مقصود کُفری سے شامل ہوئے۔ نبیل اعوان، ملک نیاز اعوان، عدنان احسن ملک، عثمان اعوان، وادی سون سے، جھنگ سے مرتضیٰ احتشام اور جوہرآباد سے ہمارے باکمال بٹ صاحبان شامل ہوئے۔ ہنستے کھلکھلاتے محمد دانش بٹ اورہر دم سنجیدہ رہنے والے ان کے بھائی محمد ارسلان بٹ۔

ہمیں وادی سون پہنچنے میں تھوڑی تاخیر ہوئی۔ نوشہرہ سے ہم کُفری پہنچے جہاں علی بھائی نے ہماری ٹرانسپورٹ کی پارکنگ کا انتظام کیا تھا۔ بہت دنوں بعد ہائیکنگ ٹیم ملی تھی تو بہت سی باتیں کہنے کو تھیں۔ باتوں کے ساتھ اپنے ٹریک کا آغاز بھی کیا۔ حسب روایت سبھی ممبران نے اپنا اپنا تعارف کرایا۔ محمد مرتضیٰ علی الصبح جھنگ سے چلے اور وادی سون آ پہنچے۔ کہتے تھے کہ ان کا ایک دوست وادی سون سے تھا اور بچپن سے ہی وادی سون کے قصے سنتے تھے اور وادی کو دیکھنے کا شوق تھا جو ہائیکنگ گروپ کی بدولت پورا ہوا۔ ارسلان بٹ گوجرانوالہ میں مقیم ہیں اور بہت عمدہ فوٹو گرافی کرتے ہیں ٹریک کے دوران ان کی بنائی ہوئی تصاویر نے ایک دنیا کو حیران کر دیا۔ عثمان نمل کالج میں جاب کرتے ہیں اور اپنے بھائی نیاز اعوان کی ٹریکنگ مہمات سے متاثر ہو کر ٹریک میں شامل ہوئے۔ جی ہاں۔ اس ٹریک میں ہمارے ساتھ بھائیوں کی دو جوڑیاں شامل تھیں۔

ٹریک کُفری گاؤں کی جنوبی پہاڑی سے شروع کیا اور آغاز میں ہی ایک بلند پہاڑ پر چڑھنا تھا۔ بہت جلد سب کے سانس پھولنے لگے۔ شہری زندگی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہاں چلنے پھرنے کے مواقع بہت کم دستیاب ہوتے ہیں۔ وادی سون کی قربت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے یہ یہاں فالتو چربی سے چھٹکارا پانا ممکن ہے۔ اس پہاڑ سے ہم وادی سون کی مشہور اوچھالی جھیل کا نظارہ کر رہے تھے۔ بائیں طرف سکیسرپیک اور دائیں طرف نوشہرہ دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں سے چلے تو چشمہ ڈیپ جا کر دم لیا۔ پھولی سانس کو بحال کرنے میں سرگودہا کے کنو مالٹے کھائے گئے۔ یہاں فیصل آباد سے سیاحوں کا ایک بڑا گروپ بھی چشمہ ڈیپ کی سیر کو آیا ہوا تھا ان سے گپ شپ لگی۔ وہ چشمے کی خوب صورتی دیکھ کر بہت خوش تھے۔ کافی عرصہ سے بارشیں نہ ہونے کے سبب چشمے کا پانی گہری سبزرنگت اختیارکیے ہوئے تھا۔ یہاں موجود کھجور کا درخت چشمے کی خوب صورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں سے ہم اوپر کو چلے۔ اوپر ایک وادی ہے جہاں دور تک سنہری گھاس پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں ایک ڈیرہ دکھائی دیا بتایا گیا کہ یہاں ڈیرے پر ایک ہی شخص کئی سالوں سے تنہا رہتا ہے اور اب کسی انسان کی آواز سنتے ہی رائفل نکال کر دو چار فائر کر دیتا ہے۔ ہم یہاں سے خاموشی سے گزر گئے۔ نبیل مجھے وادی سون کے بارے میں بتا رہا تھا۔ جب سے سوشل میڈیا پر وادی کی تصویریں اپ لوڈ ہونا شروع ہوئی ہیں وادی میں سیاحوں کی آمد میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔

جیسے ہی اس رستے پر تھوڑا آگے گئے تو ہمیں بائیں طرف ایک چھوٹا سا تالاب نظر آیا۔ جس کا پرسکون پانی گہرے سبز رنگ کا تھا۔ یہاں سے ایک چشمہ نکلتا ہے لیکن بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پانی کابہاؤ کافی کم تھا۔ چشمے کے ارد گرد اونچے پہاڑ تھے۔ پرسکون اور دلکش پانی بہت خطرناک تھے۔ 1996جھل مجھالی نام کے اس چشمے میں مویشیوں کو چَرانے والی ایک نوجوان لڑکی پانی میں اتری تو پانی نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اس کی چار سہیلیوں نے اس کو بچانے کے لئے پانی میں چھلانگ لگا دیں مگر بدقسمتی سے وہ سب اس گہرے پانی میں ڈوب گئیں۔ اس کے بعد سے اس چشمے پر بہت کم لوگ آتے ہیں۔ چشمے کے بالکل پاس سے گزر کر ہم اوپر کی جانب چلے جہاں ایک تنگ درہ ہمیں ہماری منزل مقصود کی جانب لے جا رہا تھا۔ تھوڑا اوپر چلے تو کسی من چلے نے چشمے میں پتھر پھینک دیا۔ پرسکون پانی ایک دم سے بے چین ہو اُٹھے۔ یہ منظر اتنا دلکش لگا کہ دوستوں نے چشمے میں مزید پتھر پھینکے۔ شاید وہ دل ہی دل میں چشمے کے سنگ دل پانیوں سے ان لڑکیوں کو اپنی طرف کھینچ لینے کا بدلہ لے رہے تھے۔ ایک ویران سی جگہ پر پیلی پیلی گھاس میں گھرا سبز رنگ کا یہ چشمہ نہایت دلکش منظر پیش کرتا ہے۔

تنگ درے کو عبور کر کے دوسری جانب نکلے تو منظر ویسا ہی تھا جیسا کہ ہم ابھی دیکھ کر آئے تھے۔ نیچے گہرائی میں پانی تھا۔ ہم اوپر سے دائیں طرف گھوم کر تنگ سے رستے پر احتیاط سے چلنے لگے۔ ہمارے لیڈر ملک محمد علی اور بلال مقصود بہت پہلے ہی یہاں سے گزر کر نیچے جا چکے تھے۔ مجھے مرتضیٰ احتشام کا بہت خیال تھا۔ بار بار اس کی جانب دیکھتا لیکن وہ بہت شانت اور بہت خوش تھا۔ وادی سون کے ہر پل بدلتے رنگ اس کو بہت اچھے لگے تھے۔ ہماری ٹیم یہاں بہت بکھر چکی تھی۔ بٹ برادران فوٹو گرافی کرتے کرتے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ علی بھائی اور بلال بہت تیز چلنے کے عادی ہیں اور یہ رستہ بھی ان کا جانا پہچانا تھا تو وہ بہت آگے نکل گئے۔ نیاز اور عثمان ان کے ساتھ تھے۔ عدنان ملک، نبیل اور میں گپ شپ لگاتے ہلکی پھلکی رفتار میں چل رہے تھے۔ مرتضیٰ بار بار تصویریں بنانے کے لئے رُ ک جاتا۔ جیسے ہی ہم آگے گئے تو ایک دم سے منظر بدل گیا۔

یہ ایک وسیع و عریض اور ہموار وادی تھی جس کی گھاس کا رنگ گزری خزاں نے زرد کر دیا تھا۔ درخت بہت کم تھے۔ خزاں نے اس سرسبز وادی کے سبھی رنگ چوُس لئے تھے اپنے اندر جذب کر لئے تھے۔ اب یہاں ہر طرف ایک ہی رنگ تھا۔ خزاں کا یہ رنگ بھی بہت منفرد اور انوکھا لگا۔ فضا میں عجیب سی خاموشی تھی۔ ہمارے عقب میں موجود درختوں کے پتے جھڑ چکے تھے۔ اور دور تک بکھری سنہری روپہلی گھاس ایک دلکش منظر پیش کرتی تھی۔ دانش نے کہا یوں لگتا ہے جیسے آسٹریلین لینڈ سکیپ بکھری ہوئی ہو۔ جیسے دیوسائی میدان میں خزاں اُتر آئی ہو۔ میں مسحور سا ہو کر اس سنہری وادی کو دیکھتا تھا اور حیران ہوتا تھا کہ وادی سون اپنے اندر کیسے کیسے رنگ سموئے ہوئے ہے۔ ہم سحرزدہ سے ہو کر اس وادی کے اندر سے گزرتے تھے۔ رستے میں کہیں کہیں چشموں کے پانی بھی چل رہے تھے۔ اس ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھو کر خود کو تروتازہ کیا۔

یہ وادی گوسر ہے۔ وادی سون میں ایک گمنام وادی جو کبھی بہت بارونق ہوا کرتی تھی۔ انگریز سرگودہا سے سکیسر پیک تک جانے کے لئے یہی سڑک استعمال کرتے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف شیشم کے درخت لگائے گئے تھے جو اب بھی ٹنڈ منڈ حالت میں کھڑے زمانے کی ناقدری کا نوحہ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وادی کی چوڑائی کہیں تین کہیں چار کلو میٹر ہے اور لمبائی سات آٹھ کلو میٹر ہے۔ یہ وسیع و عریض وادی تقریباً ہموار ہے۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں فصل کم ہی کاشت کی جاتی ہے لوگوں کا گزر بسر گلہ بانی پر ہے۔ علی بھائی نے بتایا کہ یہاں گھنے جنگل تھے لیکن محکمہ جنگلات کے گارڈز نے مقامیوں سے مل کر یہ درخت کاٹ ڈالے۔ چند ایک ڈیرے جن کو مقامی زبان میں ڈھوک کہا جاتا ہے وہ اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے۔ گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ہوا ایک دم سے کچھ زیادہ ہی ٹھنڈی محسوس ہونے لگی تھی۔ علی بھائی کی زرعی زمین یہیں تھی انہوں نے اشارے سے ایک وسیع ٹکڑے کی جانب اشارہ کر کے بتایا کہ یہ ساری زمین ان کی ملکیت ہے جبکہ سڑک کی جنوبی سمت ان کے کزنز کی زمینیں ہیں

اب دوپہر ہو چکی تھی۔ ٹریک کرتے ہوئے دو گھنٹے سے زیادہ وقت ہو چکا تھا۔ ٹریکرز کہیں بیٹھنے کے موڈ میں تھے اور لنچ کے لئے بے تاب تھے۔ ہم نے ایک چاردیواری دیکھی جہاں ایک قدیم زمانے کا گھنا درخت اس چار دیواری پرسایہکیے ہوئے تھا۔ ہم نے وہ جگہ ٹھکانہ بنانے کے لئے مناسب سمجھی۔ ریسٹ بریک کا اعلان ہوتے ہی سبھی ٹریکرز اپنے اپنے بیگ اتار کر ڈھیر ہوتے گئے۔

یہاں ہر طرف دور دور تک سنہری گھاس دکھائی دیتی تھی۔ چار دیواری کے اندر ایک پختہ قبر تھی چار دیواری نئی تعمیر شدہ تھی۔ جب ہم نے ایک مقامی بابے سے پوچھا کہ یہ قبر کس کی ہے تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا اور ہم نے اظہار حیرت۔ یہ ایک نئی تعمیر شدہ چار دیواری تھی چار پانچ سال پرانی اس سے پوچھا کہ یہ بنوائی کس نے ہے تو اس نے کہا کہ کوئی بندہ بنوا گیا۔ یہ کیسا تجاہل عارفانہ تھا۔ کمال ہی کر دیا بابے نے۔

بادلوں بھرے آسمان کے نیچے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں بار بی کیو کا انتظام کیا جانے لگا۔ پتھر جوڑے گئے، سیخیں نکال کر دھوئی گئیں۔ چکن نکالا گیا۔ ٹیم کوئلوں کو آگ دکھانے میں مصروف ہو گئی۔ دانش نے چکن تکوں کو سیخوں پر پرونا شروع کیا۔ جلد ہی سیخیں کوئلوں پر تھیں اور آگ کے نزدیک بیٹھنا اچھا لگ رہا تھا۔ چکن تیار ہو گیا۔ دانش صاحب ایک بڑی پلاسٹک شیٹ لائے تھے جہاں چکن تکے اور گرما گرم نان رکھے گئے۔ سبھی دوستوں نے اپنے بیگ کھولے اور کھانے پینے کا کوئی نہ کوئی آئٹم نکالا۔ تکوں کی خوشبو نے بھوک مزید بھڑکا دی تھی۔ اور پھر ٹیم نے کھانے پر دھاوا بول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ صاف ہو گیا۔ اتنے میں بٹ صاحب نے مزید تکے بنا لئے تھے۔ ان سے بھی انصاف کیا گیا۔ بٹ صاحب کی دلدہی کے لئے انہیں اپنے ہاتھ سے چکن تکے کھلائے۔ اور پھر علی بھائی نے ایک خاص چیز نکالی۔ یہ تھی ان کی اپنی بنائی ہوئی فروٹ ٹرائفل ٹائپ ایک سوغات۔ جسے وہ بہت شوق سے بنا کر ٹریکنگ ٹیم کے لئے لاتے ہیں۔ سب نے یہ سوغات بہت شوق سے اور بہت مزے لے لے کر کھائی اور ٹریک کا لطف دوبالا کیا۔ کچھ دیر یہیں سستائے تو جی چاہا کہ بس اب یہیں قیام کر لیا جائے۔ لیکن موسم کی خرابی اور دوپہر ڈھل جانے کے بعد واپس چلنے کا سوچا گیا اور واپسی کے لئے ہم نے ایک نئے رستے سے جانا تھا۔ اپنا سامان اٹھا کر جب ہم سڑک پر آئے تو دور سے ایک لڑکا تیز قدموں سے چلتا دکھائی دیا۔ ہم وہیں رک گئے جب وہ قریب پہنچا تو اس کےہاتھ میں ایک چائے کا تھرمس دکھائی دیا اور جی خوش ہو گیا۔ دراصل علی بھائی نے قریبی ڈیرہ پر موجود اپنے مزارع کو فون کر کے چائے بنانے کو کہا تھا مگر وہ کسی دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔ اس نے وہاں سےاپنے گھر فون کر کے چائے پہنچانے کو کہا تھا۔ جتنا مزا چائے نے اس وقت دیا شاید ہی کبھی ایسا مزہ آیا ہو۔ وہاں سے ہم سڑک پر چلے۔ کبھی یہ سڑک بہت آباد تھی۔ خوشاب سے وادی سون آنے والے لوگ اسی سڑک کے ذریعے وادی سون کے کئی دیہات کفری، کورڈھی، اوچھالی، سبھرال، جاہلر اور سکیسر پیک جاتے تھے۔ کٹھوائی سے گوسر کے رستے اوچھالی محض اٹھارہ کلو میٹر دور ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف شیشم کے درخت لگائے گئے جو بہت دلکش منظر پیش کرتے اور گرمیوں میں سورج کی شدت سے بچاتے بھی تھے۔ لیکن پھر وطن عزیز کے ہونہار انجینئرز نے براستہ کھوڑہ سڑک کی تعمیر و توسیع کی اور جو فاصلہ اٹھارہ کلو میٹر میں طے ہوجاتا تھا وہی فاصلہ چالیس کلو میٹر میں طے ہونے لگا۔ اور پھر بھی وادی سون کی عوام خوش اور مطمئن ہے۔ الحمداللہ

علی بھائی کے ڈیرے کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ تھوڑی سی چڑھائی کے بعد پیچھے مُڑ کر وادی گوسر پر الوداعی نظر ڈالی اور ایک انتہائی دلکش منظر دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک دلکش سنہری وادی تھی جہاں کہیں کہیں ٹنڈ مُنڈ درخت دکھائی دیتے تھے۔ اس کے پار اونچے پہاڑ تھے جن کے پیچھے جاہلر جھیل تھی دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ایک دلکش جھیل، جہاں موسم سرما میں سائبیریا سے آئے پردیسی پرندے سردیاں گزارتے تھے۔ ہم اس منظر کو کیمروں میں قید کرتے رہے

آگے چلے تو ایک ڈیرے سے کُتے بھونکے۔ علی بھائی نے بتایا کہ ڈیرے والوں کی دشمنیاں ہیں اور اسی لئے انہوں نے ایک اونچی جگہ پر ڈیرے بنائے ہیں تاکہ دور سے ہی آنے والوں پر نگاہ رکھی جا سکے۔ وادی سون میں دشمنی نبھانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ زمانہ قدیم میں وادی سون سے صبح کے وقت ایک ہی بس اس وقت کی تحصیل آج کے ضلع خوشاب آتی تھی وادی کے دوست دشمن سبھی اس ایک بس میں ہی سفر کرتے تھے اور کبھی کبھار لڑائی بھی ہو جاتی تھی سفر کے دوران ایسی ہی ایک لڑائی میں ایک جوان نے اپنے مخالف کا کان کاٹ لیا تھا۔ جس کا بدلہ اس نے یوں لیا کہ جوہرآباد بھری کچہری میں اپنے مخالف کا ناک کاٹ دیا۔ لیکن اب دشمنی نبھانے کی یہ خونریز روایت دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ مخالفوں کو کچہری میں چکر لگوانے کا شوق اب بھی ہے۔ میرے ماموں کا ایک کیس اب بھی لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ چند ہزار مالیت کی ایک کنال زمین کے لئے مقدمات ہائی کورٹ سمیت بہت سی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

وادی سون کی یہ دلکش وادی گوسر کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جو بہت عرصہ سیاحوں کی نگاہوں سے اوجھل رہی ہے۔ عام طور پرسیاح سڑک کے آس پاس تک رہنا پسند کرتے ہیں بہت کم سیاح پہاڑوں اور جنگلوں کا رخ کرتے ہیں۔ مقامی لوگ سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ گوسر کا درجہ حرارت گرمیوں میں بھی 35 سے چالیس درجہ حرارت تک رہتا ہے۔ جو قابل برداشت ہوتا ہے۔ ہر وقت ٹھنڈی ہوا چلتی رہتی ہے۔ وادی میں کئی چشمے ہیں جہاں سے مویشی اور مقامی اپنی ضرورت کا پانی حاصل کرتے ہیں۔ جو سیاح ایک بار وادی گوسر آئیں وہ دوبارہ ضرور یہاں آتے ہیں۔ موسم گرما میں وادی گوسر سبزے اور ہریالی سے لدی ہوئی دکھائی دیتی ہے اگر آپ نے ابھی تک وادی گوسر کا نظارہ نہیں کیا تو ایک بار ضرور سیاحت کیجئے

نہ چاہتے ہوئے بھی گوسر کو الوداع کہنا پڑا۔ یہاں سے چلے تو ایک اور منظر آنکھوں کے سامنے تھا یہ ایک نوے درجے کازاویہ بناتی ہوئی سیدھی دیوار کی مانند چٹان تھی۔ جس کے قریب اونچی جگہ پر سات قبریں بنائی گئی ہیں۔ ان قبروں کی بناوٹ اسلامی ہے لیکن وادی میں کوئی نہیں جانتا کہ یہ قبریں کب بنائی گئیں، کس نے بنائیں، یہاں پر کیا ہوا تھا۔ اس جگہ کو شہیداں کہتے ہیں جس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مسلمان حملہ آوروں نے مقامی آبادی پر حملہ کیا اور لڑائی میں شہید ہونے والوں کو یہاں دفن کیا گیا۔ یہ قبریں اسلامی طرز ایک نادر نمونہ ہیں ایک جیسے ہموار گھڑے ہوئے پتھروں سے بنائی گئی یہ قبریں صدیوں بعد بھی صحیح سلامت محققین کو دعوت تحقیق دیتی نظر آتی ہیں۔

یہاں پہاڑ ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے تھے۔ گہرائی میں گھنی جھاڑیاں تھیں۔ اور ایک رستہ اوپر کو اٹھ رہا تھا۔ ہم اس اوپر جانے والے رستے پر چلے۔ اندازہ تھا کہ اوپر پہنچ کر سامنے ہی کُفری گاؤں ہو گا پھولی سانسوں کے ساتھ جب اوپر پہنچے تو ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ موڑ مُڑنے کے بعد مزید چڑھائی ہماری منتظر تھی۔ چارو ناچار وہ مرحلہ بھی طے ہوا۔ یہاں ایک طرف چھوٹے چھوٹے غار تھے شاید کسی زمانے میں لوگ یہاں دشمنوں سے پناہ لیتے رہے ہوں۔ وادی سون ایک بھر پور تاریخ رکھتی ہے یہاں ہموارسلوں سے تعمیرکیے گئے کئی بڑے قلعے موجود ہیں۔ بے شمار مندر اور دیگر تاریخی مقامات موجود ہیں جن کی تاریخ کسی کو معلوم نہیں۔ اندازہ یہی لگایا جاتا ہے کہ مقامی آبادی یا تو یہاں سے ہجرت کر گئی یا مار ڈالی گئی اور اس کے ساتھ ہی وادی سون کی تاریخ بھی خاموش کر دی گئی۔

جیسے ہم پہاڑ پر چڑھے تھے اسی طرح ایک طویل رستہ طے کر کے دوسری سائیڈ سے نیچے اترے اور کُفری پہنچ گئے۔ شام ہو رہی تھی لیکن علی بھائی نے چائے کے لئے روک لیا۔ ایک پُر لطف چائے اور گپ شپ کے بعد ایک دوسرے سے دوبارہ ملنے کے لئے جُدا ہوئے۔ نئے آنے والے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا گیا۔
: 11۔ 02۔ 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).