خدارا بیویوں کو طلاق دے دو


اسلام آباد میں شوہر نے گھریلوں ناچاقی پر بیوی کےسر پر توا مار کر قتل کر دیا واقعہ کے فوراً بعد پولیس نے ملزم کو حراست میں لے لیا۔ لاہور میں اظہر نے شازیہ سے پسند کی شادی کی مگر مبینہ طور پر زہر دے کے قتل کردیا، مقتولہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اظہر اکثر بیوی کو قتل کی دھمکیاں دیتا تھا۔ لاہور میں ہی رسول پارک کی رہائشی نوبیاہتا دلہن شوہر کے ہاتھوں قتل کردی گئی۔ اِسی طرح کا ایک واقعہ ماضی میں بھی پیش آیا جہاں شادی کی پہلی رات کو تعلیمِ بالغان سے آگہی نہ ہونے کے سبب دلہن کو کنواری نہ جان کر شوہر نے بیوی کو شادی کی پہلی رات ہی قتل کردیا۔ اسی طرح کا انسانیت سوز واقعہ لاہور کے علاقے شفیق آباد میں پیش آیا جہاں ملزم نصیب علی نے تیز دھار آلے سے اپنی اہلیہ کلثوم کو قتل کیا اورموقع سے فرارہوگیا۔ ملزم کے والد کا کہنا ہے کہ مقتولہ کا پڑوسیوں کے گھر آنا جانا قتل کی وجہ بنا۔ شوہر اسے پڑوسیوں کے گھر جانے سے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں مانتی تھی۔

جبکہ اِسی طرح شوہر کے ہاتھوں بیوی کے قتل کا ایک اور واقعہ جنوبی چھاؤنی کے علاقے میں پیش آیا، جہاں گھریلو ناچاقی پر شریف نامی شخص نے بیوی پر اتنا تشدد کیا کہ وہ زندہ ہی نہ رہ سکی۔ شوہر کے اہلخانہ بتاتے ہیں کہ میاں بیوی میں اختلافات معمول کی بات تھی قتل کی رات بھی دونوں میں جھگڑا ہوا، جس کا انجام بیوی کی موت کی صورت میں نکلا۔

قارئین ایسے بےشمار واقعات آپ روز خبروں کی زینت بنتے دیکھتے ہوں گے جہاں میاں بیوی کے درمیان معمولی نوعیت کے گھریلوں جھگڑے دونوں کو ایسے بھیانک انجام کی جانب لے جاتے ہیں جہاں تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اپنے اندر انتقام کی آگ کو اس قدر بڑھکا لیتے ہیں کہ بعد میں ساری زندگی اُسی آگ میں جھلستے رہتے ہیں۔ جبکہ قابلِ غور امر یہ ہے کہ ایسے تمام واقعات میں کوئی بھی پیشہ وار مجرم نہیں ہوتا جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے اِس طرح کے کیسز میں اکثر ملزمان ایک عام شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار رہے ہوتےہیں تو آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو ایک عام آدمی کو جرم کرنے پر مجبور کردیتی ہیں اور جرم بھی ایسا کہ جس کی گرفت سے دونوں جہان میں کسی طور چھٹکارا ممکن نہیں تحقیق کی جائے تو اِس کی بہت سی وجوہات سامنے آسکتی ہیں لیکن میرے نزدیک اِس کی بڑی وجہ ہمارے معاشرے کے وہ فرسودہ رسم ورواج ہیں جن سے ہم اکیسویں صدی کے جدید ترقی یافتہ دور میں داخل ہونے کے باوجود چھٹکارہ نہ پاسکے۔

جہاں شادی کے وقت بیٹی کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ بیٹا میکے سے تمھاری ڈولی جارہی ہے سسرال سے تمھارا جنازہ ہی اٹھنا چاہئیے۔ جبکہ دوسری جانب شادی کے وقت لڑکے کے ذہن میں یہ بات بٹھادی جاتی ہے کہ جسے تم اپنے گھر بیاہ کر لارہے ہو اِس پر جو چاہے ظلم کرلینا تمھیں اگر پسند نہ بھی ہو تو بیشک باہر جہاں چاہو منہ مارلینا لیکن اِس سے علیحدگی اختیار کرنے کا سوچنا بھی نہیں کیونکہ طلاق رب تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے اور ہمارے خاندان میں آج تک کسی کو طلاق نہیں ہوئی جبکہ معاشرے میں ایسے لوگوں کو بالکل اچھا نہیں سمجھا جاتا لہذا تم اِس طرف دھیان بھی مت لانا بجائے اِس کے تم جو چاہو کرتے پھرو۔

بس یہی وہ نصیحتیں ہیں جس کو بنیاد بناکر میکے سے اٹھنے والی ڈولی سسرال سے جنازے کی صورت میں ہی لوٹتی ہے۔ جبکہ شوہرِ نامدار کسی بھی وجہ سے اختلافات کی صورت میں علیحدگی کو دنیا کا سب سے بڑا قبیح جرم سمجھتے ہوئے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہ بن پانے پر قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں اور خود کو ایسی دلدل میں دھنسا لیتے ہیں جہاں موت منہ کھولے ان کا انتظار کررہی ہوتی ہے۔ اگر آپ کے اختلافات اِس قدر شدت اختیار کرگئے ہیں کہ ساتھ ایک پل رہنا دوبھر ہوگیا ہے تو بجائے اِس کے کہ ساری زندگی ایک دوسرے کے سر پھوڑیں ایک دوسرے کو کوستے رہیں یہاں تک کہ تشدد کی راہ اختیار کرتے ہوئے جرم کا ارتکاب کربیٹھیں بہتر ہے کہ ایک دوسرے سے خیر کے ساتھ اپنی راہیں جدا کرلیں۔

اِس حوالے سے ایک مشہور کہاوت اپنے قارئین کی نظر کرنا چاہونگا۔ کسی زمانے میں ایک جج صاحب کے ڈرائیور کا اُن کی اہلیہ کے ساتھ چکر چل گیا اِس بات کا علم جب جج صاحب کو ہوا تو انھوں نے خاموشی کے ساتھ اپنی اہلیہ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اسے ڈرائیور کے ساتھ روانہ کردیا کچھ عرصے بعد عدالت میں ان کے سامنے قتل کے ایک مجرم کو کٹہرے میں لایا گیا جج صاحب نے دیکھا کہ کٹہرے میں کھڑا ملزم اُنکا وہی ڈرائیور ہے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ڈرائیور کی بیوی جو جج صاحب کی سابقہ اہلیہ تھیں وہ کسی اور آشنا کے ساتھ پکڑی گئی جسے ڈرائیور نے موقع پر ہی قتل کردیا۔ جج صاحب نے تمام ماجرہ سننے کے بعد کٹہرے میں کھڑے مجرم سے کہا کہ تم چاہتے تو میری تقلید کرسکتے تھے اور اپنے لیے خیر کا راستہ نکال سکتے تھے لیکن تم نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایسے راستے کا انتخاب کیا جو تمھیں موت کے منہ میں لے جانے والا ہے۔

ایسے لوگوں کےلیے میرا یہی مشورہ ہے اگر آپ کی بیوی آپ کی فرمانبردار نہیں آپس میں ذہنی ہم آہنگی نہیں یا وہ آپ کو کردار کی مشکوک نظر آتی ہے تو بیویوں کو اپنی باندی بنانے اُن پر بیہمانہ تشدد کرنے انھیں ایذا پہنچانے اور انھیں قتل کرنے سے بہتر ہے اختلاف کی صورت میں انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے ان سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے علیحدگی اختیار کرکے خود بھی اپنی زندگی جئیں اور دوسروں کو بھی اپنی مرضی کی زندگی جینے دیں یہ اللہ رب العزت کی جانب سے انسان کےلیے متعین کردہ خیر کا راستہ ہے تاکہ لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنایا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).