کیا شادی صرف سیکس کا نام ہے؟


 

میں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میرے والدین زراعت کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ میرا گھرانہ چار بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل ہے۔ گھر میں لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ کوئی تفریق نہیں کی جاتی اس وجہ سے مجھے پڑھنے کے اچھے مواقع ملے اور میری پڑھائی پر والدین نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کیا۔ میں نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ساتھ ساتھ ملازمت شروع کی اور بطور پرائیویٹ امیدوار کے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ میں جب تک اپنے میکے میں رہی مجھے والدین نے ہر طرح سے سپورٹ کیا۔ پھر ایک دن والدین نے مجھ سے رضامندی جانی اور میں نے انہیں اپنی زندگی کا فیصلہ لینے کا اختیار دے دیا اس کے بعد میرا رشتہ ہوگیا۔ رشتہ ہونے کے بعد میرے منگیتر نے مجھ سے رابطہ کیا مگر میں نے یہ کہہ کر انہیں مزید رابطہ کرنے سے منع کر دیا کہ موبائل پر روزانہ کی بات چیت سے ہمارے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہونے کا خدشہ موجود رہے گا۔ میرے منگیتر نے تقریبا روزانہ کی بنیاد پر ہمارے گھر چکر لگانا شروع کر دیئے اور میں ہمیشہ ایک کمرے میں چھپ جاتی تا کہ ان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

2015 میں منگنی کے نو مہینے بعد میری شادی طے کر دی گئی۔ خوب ہلا گلا ہوا۔ سکھیوں سہیلیوں نے مذاق کئے اور میرے بھائیوں اور والدین نے انتہائی خوشی سے مجھے وداع کیا۔ شادی کی مصروفیات کی وجہ سے لگاتار تین چار راتیں جاگنے سے مجھے کافی تھکاوٹ ہو چکی تھی مگر سہاگ رات تھی تو مجھے اپنے شوہر کے انتظار میں جاگنا پڑا۔ ان کے آنے سے پہلے طرح طرح کے خیالات میرے دماغ میں گردش کر رہے تھے اور دل ہی دل میں میں خدا سے سب اچھا کی دعا مانگ رہی تھی۔ میرے شوہر رات گئے کمرے میں داخل ہوئے۔ میں من ہی من سوچ رہی تھی کہ مجھے پیار جتایا جائے گا، آگے آنے والی زندگی کے بارے میں باتیں ہوں گی ایک دوسرے کے ساتھ شئیرنگ کا موقع ملے گا۔ آنے والی زندگی میں ساتھ نبھانے کے قول اقرار ہوں گے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ میرے شوہر نے میرا حال تک نہ پوچھا اور آتے ہی کپڑے تبدیل کرنے کے بعد بیڈ پر مجھے لیٹ جانے کو کہا میں نے بات کرنا چاہی مگر انہوں نے میری کوئی بات نہ سنی اور فورا سیکس کرنا شروع کر دیا۔ میں تکلیف کی وجہ سے انہیں منع کرتی رہی مگر انہوں نے میری کسی بات کو نہ سنا اور اپنا کام جاری رکھا۔ زیادہ سے زیادہ صرف دو ہی منٹ میں وہ مجھ سے الگ ہو گئے۔ میں سوچ رہی تھی کہ اب شائد کچھ بات چیت ہو گی مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے منہ پھیرا اور سونے کی تیاری شروع کر دی۔ مجھے اس رویہ سے انتہائی تکلیف ہوئی اور میں تھکاوٹ کے باوجود کافی دیر تک سوچوں میں گم رہی اور سو نہیں پائی۔

سوچوں ہی سوچوں میں نہ جانے کب مجھے نیند آگئی مگر کچھ ہی دیر بعد میں نے اپنے جسم پر ہاتھوں کی حرکت کو محسوس کیا اور آنکھیں کھولیں تو شوہر کو ایک بار پھر سیکس کے لیئے تیار پایا۔ میں نے انکار کیا اور تھکاوٹ کے علاوہ تکلیف کا کہا مگر اس نے ایک نہ سنتے ہوئے میرے کپڑے اتار دیئے اور ایک بار پھر وہی حرکت شروع ہو گئی۔ یقین جانیئے ان دو منٹوں میں مجھے اپنے آپ سے گھن محسوس ہونے لگی۔ جیسے تیسے رات گزری۔ میں نے سوچا شائد کچھ دن گزرنے کے بعد حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ سارا دن میرے شوہر گھر سے باہر رہتے، کھانے کے وقت کچھ دیر کے لئے آتے اور پھر رات میں آتے ہی بغیر کوئی بات کیئے آتے ہی سیکس کا مطالبہ کر دیتے۔ میں نے بادل نخواستہ رشتہ کو آگے بڑھانے کی خاطر ان سے تعاون جاری رکھا۔ وہ بغیر وقفہ کے روزانہ آتے، سیکس کرتے اور بغیر بات چیت کے سو جاتے۔ میں فورپلے کو ترس گئی تھی مگر فور پلے تو دور، انہوں نے کبھی مجھ سے بات بھی نہیں کی۔ کچھ دنوں جب میں نے سیکس کے مطالبہ پر انہیں پیریڈز کے بارے میں بتایا تو انکی فرمائش اینل اور اورل سیکس کے لیئے ہوئی جس سے میں نے یکسر انکار کر دیا۔ پہلے دن انہوں نے کچھ نہ کہا اور ایک شرط ڈالی کہ ٹھیک ہے ہم سیکس نہیں کریں گے مگر میرے سامنے ننگی لیٹو تا کہ میں تمہارے جسم کے ساتھ اپنے عضو کو مسلتے ہوئے اپنی پیاس بجھا سکوں۔ مجھے انتہائی مخالفت کے باوجود ان کی یہ شرط ماننی پڑی اور پھر اگلے دن ہی مجھے ان کے تشدد کا سامناصرف اس لیئے کرنا پڑا کہ میں اینل یا اورل سیکس کے لیئے تیار کیوں نہیں۔

اب میں روز بروز کمزور ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ میری رنگت بھی کالی ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے ساری بات اپنی بڑی بہن سے شئیر کی تو اس نے کہا کہ شوہر کو خوش رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے اگر تم ایسا نہیں کرو گی تو وہ کہیں اور جائے گا۔ میں ہر طرف سے مایوس ہوتی گئی اور اسی مایوسی میں ایک ماہ گزر گیا۔ ایک ماہ بعد مجھے زندگی کی سب سے بڑی خوشی ملی کہ میں ماں بننے والی ہوں۔ میں نے رات اپنے شوہر کو یہ خوشخبری دی تو انہوں نے کوئی خاص توجہ نہ دی اور روز کی طرح مجھے سیکس کے لیئے کہا میں نے گزارش کی کہ کیا ہم کچھ دن بغیر سیکس کے گزار سکتے ہیں تا کہ کسی قسم کے مسئلہ کا سامنا نہ ہو تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے میرے ساتھ زبردستی سیکس کیا جبکہ میں روتی رہی اور ہاتھ جوڑ کر منع کرتی رہی۔ میں سوچتی تھی کہ شائد باپ بننے کی خبر ملنے کے بعد ان میں کوئی تبدیلی آئے اور وہ ذمہ داری اٹھائیں مگر ان میں ذرہ بھی تبدیلی نہیں آئی۔

میرے بار بار اصرار کے بعد مجھے ڈاکٹر کے پاس نہیں جانے دیا گیا۔ ایک دن میں میکے سے اپنی والدہ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی اور ڈاکٹر نے مجھے سیکس سے منع کیا۔ میں نے رات جب اپنے شوہر کو اس باببت بتایا تو انہوں نے مجھے بغیر پوچھے ڈاکٹر کے پاس جانے پر تشدد کا نشانہ بنایا اورایک بار پھر زبردستی سیکس کیا۔ حمل کے چھٹے مہینے میں مجھے ڈاکٹر نے بچہ دانی میں رسولی کا بتایا جس کا ذکر میں نے اپ نے شوہر سے کیا تو اس نے ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔ ٹیسٹ کرانے پر پتہ چلا کہ میرے جسم میں خون کی مقدار انتہائی کم ہے جس کے لیئے مجھے دواؤں کی ضرورت ہے مگر میرے شوہر نے اسے ڈاکٹروں کا کمائی کا ذریعہ کہہ کر جان چھڑا لی اور کوئی بھی دوائی نہ لا کر دی۔ میں نے میکے میں رہتے ہوئے اپنا چوری چھپے علاج جاری رکھا۔ نو مہینے گزر گئے اور مقررہ تاریخ پر صبح ہم نے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا تو اس سے ایک رات قبل میرے شوہر سیکس کا دورہ پڑا۔ میں نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ میں اس حالت میں برداشت نہیں کر سکتی تو ایک بار پھر ان کا وہی پرانا رویہ سامنے آیا کہ اچھا ٹھیک ہے میرے سامنے ننگی لیٹ جاؤ تا کہ میں اپنا عضو تمہارے جسم ساتھ مسل کر خود کو شانت کر سکوں۔

ہمیں خدا نے اگلے دن بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ سب لوگ مجھے ملنے اور مبارکباد دینے آئے مگر میرے شوہر نے مجھے مبارکباد دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ ڈلیوری کے بعد بھی سیکس تو وہ نہ کر سکتے تھے مگر ان کی عجیب طرح کی فرمائشیں جاری رہیں جن سے انکار کرنے پر اکثر میں تشدد کا نشانہ بنتی رہی۔ ڈلیوری کے بعد مجھے بواسیر کی شکایت ہو گئی۔ میں نے شوہر کو بتایا تو ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ٹھیک ہو جائے گا کہہ کر انہوں نے اپنی جان چھڑا لی۔ میرا بیٹا اب آٹھ ماہ کا ہو چکا ہے مگر ان کی روٹین میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ بیٹا بیمار ہوتا ہے تو میں خود اس کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی ہوں انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ انہیں پتہ ہے تو بس اتنا کہ رات ان کے آتے ہی مجھے بستر پر سیکس کے لیئے تیار ہونا چاہیئے۔ وہ روزانہ آتے ہیں صرف دو منٹ لگا کر سیکس کرتے ہیں اور خود کو پر سکون محسوس کرنے کے بعد الگ ہو کر سو جاتے ہیں۔ انہیں کبھی اس بات سے غرض نہیں رہی کہ میں سیکس چاہتی ہوں یا نہیں؟ کیا میں اس رویہ سے مطمئن ہوں یا نہیں اور میرے ساتھ کیا کوئی جسمانی مسئلہ ہے یا نہیں۔

میں نے یہ سب باتیں جب اپنی والدہ اور بہن سے شئیر کیں تو ان کا کہنا تھا کہ مرد ہے، سیکس نہیں کرے گا تو جیئے گا کیسے؟  وہ اس بات کو مسئلہ نہیں سمجھتیں جبکہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا شادی صرف سیکس کا رشتہ ہے؟ کیا میاں بیوی کے درمیان صرف سیکس ہی ہے جس سے ان کا رشتہ قائم رہ سکتا ہے؟

(یہ پاکستان کے علاقے وسطی پنجاب کی ایک خاتون کی سچی کہانی ہے۔ اس خاتون سے معمول کے طریقہ کار کے مطابق شناخت وغیرہ کی تصدیق کی گئی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ” ہم سب پر صائمہ ملک اور بی بی سی کی طرف سے جاری کی جانے والی تحاریر کو پڑھ کر مجھ میں لکھنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ میں کوئی لکھاری نہیں اور یہ تحریر پہلی مرتبہ ہی لکھی ہے۔ موضوع کی حساسیت کو دیکھ کر میں اپنا حقیقی نام ظاہر نہیں کر سکتی اور تصویر شائع نہیں کروا سکتی۔ جس کے لیئے معذرت خواہ ہوں ۔ آپ کے ریکارڈ کے لئے آپ کو اپنی شناخت کے ثبوت بھیج رہی ہوں”۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).