عدت کی صحافت کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے


کل اس ملک کے سب سے بڑے اردو اخبار روزنامہ جنگ نے صفحہ اول ایک خبر شائع کی جس کے بعد سوشل میڈیا پر ٹرینڈز کی جنگ شروع ہے۔ روزنامہ جنگ کے رپورٹر عمر چیمہ نے خبر میں عمران خان کی تیسری شادی سے متعلق دعویٰ کیا کہ وہ ”عدت‘‘ کی تکمیل سے قبل انجام پائی اور نکاح خوان مفتی سعید سے عمران خان نے استدعا کہ تھی کہ ”ہماری عزت کا خیال رکھیے گا‘‘۔

روزنامہ جنگ نے اس خبر کو ایک ایسی تحقیقاتی خبر کے طور پر شائع کیا جیسے کہ یہی اس دِن کی سب سے اہم خبر ہو۔
اخبار نے اس خبر میں ایک طرف عمران خان جبکہ دوسری جانب ان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کی تصویر شائع کی۔
اخبار نے صفحہ اول پر معمول کے مطابق رپورٹر کی بائی لائن پر اکتفا نہیں کیا بلکہ رپورٹر کی تصویر بھی شائع کی۔
اخبار نے اس خبر کو شہہ سرخی کے نیچے ایک باکس کی صورت میں شائع کیا۔

اخباری صحافت میں کسی خبر کو باکس کر کے شائع کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اخبار اس خبر کو غیر معمولی سمجھتا ہے اور اپنے قارئین کو بتاتا چاہتا ہے کہ ”ہم آپ کے لیے یہ خصوصی تحقیقاتی مواد لائے ہیں جو کسی اور اخبار کے پاس نہیں۔‘‘

اب گزشتہ چار برسوں سے جاری پاکستانی ابلاغی اداروں کو تقسیم کو سامنے رکھیے۔ ملک کے نمایاں ٹی وی چینلز پر سیاسی تعصبات کا اس قدر گہرا اثر ہے کہ ٹی وی دیکھنے والا ایک عام آدمی بھی بتا سکتا ہے کہ کون سا چینل کس کی لائن کے مطابق چلتا ہے۔ میڈیا میں اس وقت دو بڑے کیمپ ہیں۔ ایک نواز شریف اور ان کی حکومت کا حامی جبکہ دوسرا مخالف ہے۔ دونوں گروہ اپنی خبروں میں اسی تقسیم کے زیرِ اثر اینگلنگ، پلے اَپ اور پلے ڈاؤن کرتے ہیں۔ دونوں جانب مبالغہ آرائی عروج پر ہے۔ حکومت مخالف چینلز کے بارے میں بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہشوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور بہت سے حالات حاضرہ کے مباحثوں کے میزبانوں کا آہنگ چغلی کھاتا ہے کہ وہ باقاعدہ ”دی گئی ہدایات‘‘ کے مطابق مہم چلاتے ہیں۔ جنگ اخبار کا شمار اول الذکر گروہ میں کیا جاتا ہے، یعنی جو حکومت اور نواز شریف کا حامی اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کا ناقد ہے۔ یہی خیال انگریزی اخبار ڈان کے بارے میں بھی بن رہا ہے، گو کہ اس کے بارے میں تاثر ایک لبرل جمہوریت پسند جریدے کا رہا ہے۔

اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر عمران خان کی تیسری شادی کے بارے میں 5 مارچ 2018ء کو شائع کی گئی مذکورہ خبر کا تجزیہ مشکل نہیں۔ عمران خان اپنے جلسوں میں جنگ گروپ اور اس کے مالک کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ شروع میں بعض لوگوں نے اس تناؤ کو کم کرنے اور مصالحت کی کوششیں کی تھیں لیکن یہ بیل منڈے نہ چڑھ سکی۔ اس کے بعد اخبار نے بھی عمران خان کے خلاف محاذ کھول دیا۔ گزشتہ تین ماہ کی کئی خبری سرخیاں اس پر بطور دلیل پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایک مثال لیجیے۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ نواز شریف سپریم کورٹ سے28جولائی 2018ء کو نا اہل ہوئے تو انہیں وزارت عظمیٰ اور اسمبلی رکنیت سے فارغ ہونا پڑا۔ اس طرح ان کے انتخابی حلقے کی نشست خالی ہو گئی۔ این اے 120میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز فتح یاب ہوئیں۔ اس وقت یعنی 18ستمبر 2017ء کو روزنامہ جنگ نے جو شہہ سرخی شائع کی اس کے الفاظ یہ تھے:”نواز نے عمران کو ہرا دیا‘‘۔ دشتِ صحافت میں برسوں جادۂ پیمائی کرنے والے اس خبر کی پیشکش کے انداز کا باآسانی تجزیہ کر سکتے ہیں۔

عمر چیمہ بلاشبہ ایک جانے پہچانے انسویسٹی گیشن رپورٹر ہیں لیکن ان کی جانب سے اس قسم کی انتہائی نجی تحقیق پر مبنی اس خبر پر بہت سے اہل رائے نے تنقید کی ہے۔ میرے ایک دوست نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :”ایک صحافی نے ڈگری تو نیوز ڈیسک پر بیٹھنے کی لی تھی مگر وہ کاغذ قلم لے کر چارپائی کے نیچے لیٹ گیا ہے، یا مقدر یا نصیب۔ ‘‘ خیال رہے کہ یہ دوست کافی عرصے سے عمران خان کے ناقدین میں شمار ہوتا ہے۔ کچھ سینئر صحافیوں نے بھی اس طرزِ صحافت کی مذمت کی ہے۔ ان کا نام یہاں اس لیے نہیں لکھ رہا کہ ان کی عمومی شہرت عمران خان کے حامی ہونے کی ہے۔ بات کی ان کی اصولی اور درست ہے۔ لیکن کیا کیجیے، جب آپ کسی خاص کیمپ کے ساتھ شعوری یا لاشعوری طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں تو بہت بار آپ کی اصولی بات بھی کھلے دِل سے نہیں لی جاتی۔

اس خبر کی اشاعت کے بعد سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر پر عمر چیمہ کے خلاف ایک ٹرینڈ چلایا گیا جو ان کی نجی زندگی سے متعلق تھا۔ کچھ لوگوں نے عمر چیمہ کے ساتھ ہونے والی واٹس ایپ چیٹ کے اسکرین شاٹس بھی ٹوئیٹر پر پوسٹ کیے۔ میرا گمان یہی ہے کہ ایسی ٹویٹس کا بڑا حصہ جعلی اور مصنوعی تکنیکی حربوں سے بنایا گیا ہے، عمر چیمہ کی خبر سے جن لوگوں کو تکلیف پہنچی ہے، انہوں نے عمر چیمہ کی بیٹی کے بارے میں نازیبا مہم چلائی۔ ظاہر ہے یہ سب عمر چیمہ اور ان کے اہل خانہ کے لیے تکلیف دہ ہوگا۔ بے شمار لوگ ٹوئٹر پر اس ٹرینڈ کے خلاف بات کرتے بھی پائے گئے لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں۔ ٍاس سے قبل روزنامہ جنگ کے ایک رپورٹر احمد نورانی بھی اسی قسم کی تنقید کا سامنا کر چکے ہیں۔ ان پر اسلام آباد میں نامعلوم افراد کی جانب سے کیے گئے تشدد کے بعد ایک اردو اخبار روزنامہ جناح نے بھی ایک خبر شائع کی تھی، جس میں ان کی نجی زندگی کو بری طرح مجروح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اس سارے معاملے میں دوش کسے دیا جائے؟ صحافی کو یا میڈیا ادارے کو؟ میرے خیال میں دونوں قصور وار ہیں۔ ایک ایسی خاتون جو پبلک لائف کی شوقین نہیں ہے، اسے تصویریں کھنچوانے میں دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی تصویر کی بار بار مخصوص انداز میں اشاعت اس کی نجی زندگی پر حملہ ہے۔ نیوز بلیٹن میں بھی چٹخارہ لگا کر اسی قسم کی خبریں نشر کرنا نفرت کو جنم دیتا ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ نکاح کرنے والی خاتون کی عدت کے ایام کی گنتی کب سے اخباری رپورٹرکی تحقیقی جولان گاہ کا حصہ بنی ہے؟ سمجھنا چاہیے کہ یہ عمل اور ردعمل کا ایسا کھیل ہے جس کا نتیجہ انتہائی بھیانک ہے۔

مریم نواز ہوں یا پھر عمر چیمہ کی بیٹی، عمران خان کی اہلیہ ہو یا پھر کسی اور شہری کی بیوی، نجی زندگی کسی بھی شخص کی ہو، اس کا احترام لازم ہے۔ ہمیں متحارب سیاسی گروہوں کی ”خدمت ‘‘کی بجائے عمومی سماجی اقدار کا لحاظ کرنا چاہیے۔ دیکھا گیا ہے کہ دوسرے درجے کی سیاسی قیادت بھی اس قسم کی خبروں کو پرجوش طریقے سے ایکسپلائٹ کرتی ہے۔ ہمیں اس طرز عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ سیاسی وابستگی یا پسند نا پسند ہر شہری کا حق ہے لیکن تعصبات میں معروف سماجی پیمانوں سے تجاوز کرتے ہوئے نجی زندگی کی ”معلومات‘‘ کو داستانوی رنگ دے دیناکسی طور درست نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).