کروڑ پتی بنانے والی دعا


ہمیں دوبارہ سے سوچنا پڑے گا کہ کیا سیاست واقعی عبادت ہے۔ یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر سیاست عبادت ہے تو کس سطح کی۔ کیا واقعی ہمارے سیاست دان سیاست کو عبادت سمجھ کر ہی ادا کرتے ہیں۔ جبکہ ہم نے کہیں سنا اور شاید پڑھا بھی تھا کہ عبادات کے ثواب دو طرح کے ہوتے ہیں ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی۔ مگر پاکستانی سیاست دان کس طرح کی عبادات میں مشغول ہیں کہ انہیں صرف انفرادی ثواب کا سامنا ہے۔ اجتماعی ثواب کا ذکر شاید وہ اپنی سیاسی عبادات کے بعد اپنی دعاؤں میں بھول جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی عبادت گزاروں کے دن روز افزوں بہتری کی جانب گامزن ہیں اور اجتماعی دعاؤں کے طلب گارعوام کی حالت بدتری کی طرف محو سفر۔

کچھ کچھ اب اندازہ ہونے لگا ہے کہ سیاست واقعی بہت ہی فائدہ مند عبادت ہے۔ کیونکہ جو سیاسی خاندان ہیں، یا جو لوگ سیاست میں آتے ہیں۔ ان کی دعائیں اتنی جلدی قبول ہوتی ہیں جس کا تصور عوامی سطح پر سوچنا بھی شاید گناہوں کے زمرے میں آتا ہے۔ خیر قبولیت کے بعد سیاسی عبادت گزاروں پر مسلسل ہن برسنے لگتا ہے اتنا زیادہ برستا ہے کہ زر و جواہر رکھنے کے لئے ذاتی چھوڑیں، ملکی خزانوں میں جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ اب یہ شک ہی غلط ہے کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ ملک سے باہر لے جایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سیاسی عبادات کے نتیجے میں حاصل شدہ زر و جواہر ہیں جن کے لئے ملکی خزانوں میں جگہ نہیں ملی یا کم پڑ گئی۔ کہیں نہ کہیں تو حفاظت سے رکھنا ہے نا۔ چاہے اس کے لئے یہودیوں کے خزانے استعمال ہوں یا عیسائیوں کے ملک۔ اگر آپ برستے زر و جواہر کی قدر نہیں کریں گے تو یہ حاصل شدہ نعمتوں سے نا شکری کا موجب بنے گا۔ ناشکرانسان نہ تو خالق کے سامنے سرخرو ہوسکتا ہے نہ ہی مخلوق کی نظروں میں۔ اتنی نعمتیں اگر ایک فرد کو حاصل ہیں تو لازمی بات ہے کہ ان کا قدرت سے کوئی قریبی تعلق قائم ہوچکا ہے۔ ایک عام انسان کو نہ تو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قدرت کی مہربانیوں پر کوئی سوال پوچھ سکے، نہ ہی ان کے پاس اتنا علم کہ وہ کرپشن یا محنت کے ذریعے حاصل نعمتوں میں فرق کو سمجھ سکے۔ اگر وہ اتنا ہی کم علم ہے تو سیاسی عبادت گزاروں سے سوال کا حق بھی نہیں رکھتے کہ لندن، دبئی، فرانس، ملیشیا اور سنگاپور میں گھر، ہوٹل یا فارم ہاؤس کیسے بنائے جاتے ہیں۔

فی زمانہ یہ ٹرینڈ رہا ہے کہ بے شمار فوائد اور فوری ثمر دینے والی عبادات کے بارے میں اردگرد کے تمام لوگوں کو بتایا جاتا ہے تاکہ سب ثواب دارین حاصل کرسکیں۔ مگر سیاسی عبادات گزار اس میں منافقت کا شکار ہیں۔ وہ برستے زر و جواہر کا سبب بننے والی دعاؤں دواؤں اور طریقہ دعا سے عوام کو محروم رکھتے ہیں۔ پرانے زمانے کے حکیم لوگوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے نسخے یا دوا دارو کے فارمولے کسی کو نہیں بتاتے، اس وقت تک جب تک ان کو اپنی موت کا پورا پورا یقین نہ ہوجائے، اپنے بچوں کو بھی اس نسخے سے لاعلم ہی رکھتے ہیں۔ کچھ تو نسخہ بتائے بغیر ہی اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اگر ان کا نسخہ نااہل اولاد کے ہاتھ لگا تو پوری انسانی آبادی تباہی کا شکار ہوسکتا ہے۔ مگر بچے بھی ان سے کم نہیں ہوتے وہ باپ کے نسخے اور دوا خانے پر قبضے کے لئے اپنے ذاتی نسخے بناتے ہیں۔ کسی کو بتانے کی کیا ضرورت کہ ابا حضور نسخہ سمیت کوچ کرگئے۔ پھر ان کے نسخے ہوتے ہیں اور انسانی جانوں کے نذرانے۔ مگر سیاسی عبادت گزار حکیموں کے مقابلے میں ذرا سیانے ہوتے ہیں، عام لوگوں کے زیادہ نبض شناس ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کئی نسلوں کے لئے زر و جواہر کے خزانے جمع کرتے ہیں اور مسلسل بے وقوف بنانے کا فارمولا باقاعدہ اپنی زندگی میں ہی بچوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ بچوں کو سیاسی عبادات کا عادی بنا کر اپنی موت سے پہلے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سیاسی عبادات کا ثمر کسی بھی طور عام آدمیوں کے دسترس میں نہ آئے۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی عبادت صرف چند خاندانوں پر ہی کیوں فرض ہے۔ یا پھر ایسے افراد پر ہی کیوں فرض ہے جو ان چند خاندانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے کسی بھی بے ضمیری اور کسی بھی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے سرعام جھوٹ بولتے ہیں۔ کیوں ایسے افراد اس عبادت کا حصہ ہیں جو ضمیر کے بجائے ذات کو اہمیت دیتے ہیں۔ کیوں ایسے افراد اس عبادت کا حصہ ہیں جن کے مفادات ملک، قوم اور عوام کے بجائے خودساختہ شاہی خاندانوں اور چند افراد کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ ہمارے سیاسی عبادت گزار وہی کروڑ پتی والی دعا عوام کو کیوں نہیں سکھاتے۔ جس کے استعمال سے وہ راتوں رات کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔ اگر کسی دعا یا عبادت کے نتیجے میں عام آدمی آسانی سے کروڑ پتی بن سکتا ہے تو ہمارے نمائندوں کو اس سے کس نقصان کا اندیشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).