خیبر پختونخوا کا پشتون لوک رقاص


پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا اور فاٹا میں رہنے والے پشتون روایتی طورپر موسیقی اور رقص کی محفلوں سے لگاؤ رکھتے آئے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان علاقوں میں موسیقی کے فن کو بطور پیشہ پسند نہیں کیا جاتا۔

تاہم اب ایک تعلیم یافتہ نوجوان نے تمام تر معاشرتی دباؤ اور مشکلات کے باوجود لوک رقص کو بطور پیشہ اپنانے کی حامی بھری ہے اور اس میں مہارت بھی حاصل کی ہے۔

پشاور میں ایک غیر سرکاری ادارے سے منسلک فوک ڈانسر اسفندیار خان خٹک کا تعلق کوہاٹ کے علاقے گمبٹ کے ایک نواب گھرانے سے ہے۔ ان کا خاندان دسویں پشت میں پشتو زبان کے عظیم شاعر اور خٹک قبیلے کے سردار خوشحال خان خٹک کے نسل سے جا ملتا ہے۔

اسفندیار خان خٹک کا کہنا ہے کہ ‘میں نے خٹک ڈانس، افغان لوگری، کتھہ غنی، افشاری اور جنوبی ہندوستان کے کلاسیکی رقص کا امتیزاج بناکر ایک نیا فوک ڈانس متعارف کروایا ہے جس میں پاکستان، افغانستان اور انڈیا سمیت تمام ممالک کے رنگ موجود ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ رقص کا ایک نیا انداز ہے جس میں فوک بھی ہے اور کتھک بھی۔

انھوں نے کہا کہ اس رقص کو متعارف کرانے کا مقصد نوجوان نسل کو اپنے بنیاد اور ماضی کے بارے میں بتانا ہے کیونکہ ان سب جگہوں پر ان کی جڑیں پائی جاتی ہیں۔

اسفندیار خان نے بتایا کہ انہیں بچپن سے رقص کا جنون کی حد تک شوق تھا لیکن جُوں جُوں ان کی عمر بڑھتی گئی مشکلات بھی زیادہ ہوتی گئیں۔

انھوں نے کہا کہ پشتونوں کے معاشرے میں عام طورپر مرد کےلیے رقص کو بطور پیشہ اپنانا پسند نہیں کیا جاتا لیکن خٹک قبیلے سے تعلق ہونے کی وجہ سے شاید انہیں زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ اس قبیلے میں روایتی طورپر رقص عام ہے اور پسند بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول شاید انہیں بھی رقص سے اس لیے لگاؤ ہے کیونکہ ان میں خٹک قبیلے کا خون دوڑ رہا ہے۔

یاد رہے کہ خٹک ڈانس پاکستان کا قومی رقص بھی ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوب میں رہائش پزیر خٹک قبیلہ ماضی قدیم میں جنگوں کے زمانے میں بھی اس کو رقص کرتے آئے ہیں۔ یہ رقص ہاتھ میں تلوار اور رومال لے کر بھی کیا جاتا ہے۔ یہ شاید علاقائی رقصوں میں واحد ڈانس ہے جو انتہائی تیز رفتاری تک جا پہنچتا ہے۔

خٹک قبیلے کا رقص سے شوق کے بارے میں کئی باتیں بھی مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اپ نے کسی خٹک کو مارنا ہو تو اسے تلوار سے مت مارو بلکہ انہیں درخت سے باندھ کر ان کے سامنے ڈھول بجاؤ جس سے وہ خودبخود مر جائے گا اور یہ اس کی سب سے اذیت ناک موت ہوگی۔

اسفندیار خان نے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور پشاور میں گذشتہ کئی سالوں سے ایک غیر سرکاری ادارے میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائض ہیں۔ انہوں نے ملک اور صوبے کے مختلف مقامات پر محکمہ ثقافت کے زیر انتظام منعقد ہونے والے پرگراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ کچھ عرصہ تک ایک پشتو ٹی وی چینل کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ انہوں نے کلاسیکل رقص کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اور آجکل پشاور میں خود بھی ڈانس سکھاتے ہیں۔

‘یہ میری لئے اعزاز اور خوش قسمتی کی بات ہے کہ میں نے کلاسیکی رقص مسز اندو میتہ سے حاصل کی ہے جو گزشتہ چار دہائیوں سے اسلام آباد میں جنوبی ہندوستان کی رقص سکھا رہی ہیں۔’

اسفندیار خان نے مزید کہا کہ ڈانس ایک قسم کی شناخت ہوتی ہے جسے ہرگز ترک نہیں کرنا چاہیے لیکن یہاں بدقسمتی سے حالات کچھ اس طرح پیدا ہوگئے کہ رقص کرنا ایک جرم بن گیا ہے۔

‘میری نظر میں رقص انسان کے اندر منفی رحجانات کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں عمومی طورپر فنکاروں او رگلوکاروں کی قبولیت زیادہ ہے یعنی ان کو لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن رقص یا ناچنے والے افراد کو وہ عزت نہیں دی جاتی جو دیگر فنکاروں کو حاصل ہے۔

‘میری نظر میں رقص یا بالخصوص فوک ڈانس میں وہ کشش ہے جو دلوں کو فوراً چھولیتی ہے اور لوگوں کو زیادہ محظوظ بھی کرتی ہے لیکن پھر بھی قبولیت کے لیول پر ہم سب سے آخر میں ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp