پاکستان میں تبدیلی واقعی آ رہی ہے


اگر میں کہوں کہ لندن کی ٹھنڈی سڑکوں پر گھومتے ہوئے بھی میری روح پاکستان میں ہوتی ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ ایک قدرتی امر ہے انسان اپنی جنم بھومی کی محبّت میں ہمیشہ ہی گرفتار رہتا ہے پھر لندن ہو نیویارک یا سڈنی اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

یہاں برف باری ہو رہی ہے میں کافی کا بڑا مگ ہاتھ میں لئے کھڑکی کے پاس کھڑی اپنے گھر کے سامنے سے گزرتی برف میں لپٹی سڑک کو دیکھ رہی ہوں۔ سنسان سڑک کے دونوں اطراف دودھیا سفید برف جم کر سخت ہو چکی ہے۔ وقفے وقفے سے جب کوئی گاڑی گزرتی ہے تو میں اس گاڑی میں بیٹھے افراد کے حالات کو پڑھنے کے لئے نظر اٹھا کر ان کو دیکھ لیتی ہوں ہوں ورنہ میں سڑک اور لندن کی سنو ( برف ) اب کافی مانوس ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں آجکل موسم بدل رہا ہو گا میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتی مگر دل کہہ رہا ہے کے ضرور شالا مار باغ کی گھاس اب زندگی کی طرف لوٹ رہی ہو گی۔
کل پاکستان ایک دوست سے فون پر بات ہو رہی تھی وہ اپنے مخصوص پرانی انارکلی والے پرانے لہجے میں ہی بتا رہی تھی کہ اب پاکستان بدل گیا۔ ابھی کچھ لوگوں کو میٹرو بس سسٹم کی پوری طرح سمجھ بھی نہیں آئی تھی کے کوئی اورنج ٹرین نامی شے لاہور پر سے اڑتی نظر آنے لگی۔ میں نے بھی ایک طرح سے اس کو ٹوکتے ہوئے کہا چلو اچھا ہے اب لاہوریے تو خوش ہوں گے نا۔ اس نے ایک گہری سانس لی جس میں چھپی اداسی میں نے سات سمندر پر بھی محسوس کر لی اور پھر دھیرے سے بولی خوش تو ہیں مگر افسردہ بھی ہیں۔ اب کرنے کو کوئی اور بات تھی نہیں تو میں نے پوچھ ہی لیا کے اب لاہوریوں کو کیا ہو گیا اب کیوں اداس ہیں۔ اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولی صرف لاہوریے نہیں پورا پاکستان افسردہ ہے یہاں آجکل نجانے کیوں لوگوں کو لگ رہاہے کہ کوئی ان پر ان کی مرضی کے خلاف فیصلے مسلط کر رہا ہے۔

وہ تو یہ بات کر کے چلی گئی مگر میں بہت دیر تک اس کی اور اپنے ہم وطنوں کی سادگی پر ہنستی رہی کہ ان کو اب معلوم پڑا کہ کوئی ان پر ان کی مرضی کے خلاف اپنے فیصلے مسلط کر رہا ہے۔ کون ان سادہ معصوم لوگوں کو سمجھاے کہ تم پر تو ہمیشہ سے ہی فیصلے مسلط ہوتے رہے کب وہ وقت رہا کہ جب تم نے اپنے فیصلے خود کیے ہوں اپنے حکمران خود چنے ہوں۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ جس کو تم لاتے ہو وہی حکمرانی کرتا ہے اگر تم ایسا سمجھتے اور سوچتے ہو تو مطلب تم عام دنیا میں نہیں ڈزنی لینڈ میں رہتے ہو۔

تمھارے لئے وہ اپنا مہرہ تم میں انجیکٹ کرتے ہیں اور اگر کبھی جس کو انہوں نے تمھارے لئے تم میں زبردستی انجیکٹ کیا وہ کچھ ایسا کرنے لگا جس میں تمہاری مرضی ہو تو اس کو وہ بدنام اور بلیک میل کرکے دھرتی بدر کر دیتے ہیں یا پھر سولی چڑھا دیتے ہیں۔ یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہو رہا جو تم اتنا اداس ہو یہ تو ہوتا چلا آیا ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کو پرکھو تم جان جاؤ گئے کہ جو ہو رہا ہے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ یہ طرز عمل تو مسلسل بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہر دور میں عوام الناس کے ساتھ رواں رکھا گیا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو بدنام کرنا بلیک میل کرنا ان سے اپنی مرضی اور مخصوص شرائط پر حساب طلب کرنا اور پھر سخت سزائیں دینے کی تاریخ ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

‏مگر جانتے ہو یہ کون لوگ ہیں جو تم پر تمہاری مرضی کے خلاف فیصلے مسلط کرتے ہیں۔ یہ ایک ٹولہ ہے یہ جب چاہے بےگناہ کو سزا دے سکتا ہے جس کو چاہے اپنے مقصد اور ذاتی طمانیت کےلئے کافر، گستاخ اور غدّار ثابت کرسکتا ہے۔ ان کے مہرے ٹی وی سکرینوں پر پرائم ٹائم میں بیٹھ کر غدّاری اور گستاخ مذہب کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہوتے ہیں۔

اب کی بار بھی جو ہو رہا ہے یا ہوا وہ نیا نہیں ہاں اس بار نیا صرف یہ ہوا کہ وہ جو پہلے پردے کے پیچھے رہ کر کام دکھاتے تھے آب کی بار سامنے آ گئے۔ ویسے یہ اچھا ہی ہوا ان کے اس اقدام سے یہ ہمیشہ کی لڑائی آخری محرکہ میں تبدیل ہو گئی اب یہ قدیمی لڑائی آخری بار لڑی جا رہی ہے۔

آخری لڑائی اس لئے کہا کیوں کے میں سمجھ رہی ہوں کہ اب وطن میں ہوائیں رخ بدل رہی ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں پاکستان کےافق پر پھیلے مایوسی اور بےچینی کے سیاہ بادل اب چھٹنے کو ہیں۔ میں مشرق سے اگتے سورج کے ساتھ امید کی روشن ابھرتی کرن کو محسوس کر رہی ہوں۔ وہ عوام جس کے بارے میں کبھی جالب نے کہا تھا کہ ان کی فکر سو گئی اب وہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہو گئے۔

آج کل بہت کچھ نیا ہو رہا ہے کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ تاریخ میں پہلی بار پنجاب سے ان کو شکست ہوئی۔ ہاں تاریخ میں پہلی بار بلوچستان نےان کے حق میں ووٹ ضرور دیا مگر اس میں بھی خیر کا پہلو یہ ہے کہ ضمیر کے خریدار قوم کے سامنے آ گئے اب لوگوں کو سمجھ آ گئی کہ جو دال ان کو 70 سال سے کھلائی جا رہی تھی اس میں کچھ کالا ضرور تھا۔

میں ذاتی طور پر کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ نہیں مگر میرا قوی ایمان ہے کہ عوام کی فلاح جمہوری ادوار میں ہی ممکن ہے۔

میں پر امید ہوں وطن کے باسیو تم بھی پر امید ہو جاؤ اب حالات بدل رہے ہیں اب جھوٹ فریب اور مفروضوں پر مبنی کہانیوں کے ختم ہونے کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ ستر سال تک جو لوگ کرپشن، منی لانڈرنگ، جھوٹ، بددیانتی اور نا اہلی کے نام پر ملکی سیاست کے آسمان پر سیاستدانوں کے چہرے داغدار کرنے کے لئے جتن کرتے رہے آج ان کے اپنے احتساب کا وقت آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).