نوجوانی اور مدارس میں جنسی جنونیت


دراصل جنونیت کا جنم بھی ظلم سے ہی ہوا کرتا ہے۔ جن افراد کو بچپن میں برہنہ کیا جائے اور ان کو بہانے بہانے سے نازک حصوں کو ہاتھ لگا کر مذاق یا خوف کا نشانہ بنایا جائے پھر لڑکپن میں انہیں “آ تجھے مرد بنائیں” یا “تو اب تک جوان نہیں ہوا” کہہ کر جنسی تشدد کا شکار بنایا جائے اور پھر کبھی تضحیک کے خوف تو کبھی شرم کی آڑ میں یہ سلسلہ چلتا رہے تو ایسا فرد جوان ہو کر بھی جنسی تعلق کو تشدد یا جبر ہی سمجھتا ہے کیونکہ وہ اسے اسی انداز میں متعارف ہوا۔

ماہر نفسیات جنہوں نے قصور واقعے کے مجرم عمران کا ملاقات کے بعد نفسیاتی تجزیہ کیا، وہ لکھتے ہیں کہ غربت اور مفلسی میں چھ بہن بھائیوں کے ہمراہ بڑے ہوتے عمران کو نقابت (حمد و نعت) سیکھنے کا شوق تھا اور اسی لیے وہ ایسے افراد کے ترلے منتے کرتا تھا جن کو وہ اس میدان کا ماہر سمجھتا تھا۔ مگر وہ کچی معصوم عمر میں انسان اور درندے میں کیسے فرق کر سکتا تھا تو ایک دن نقابت سکھانے کے بہانے کسی کی ہوس کا شکار ہوا اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ آج وہ ایک سیریل ریپسٹ اور کلر ہے کیونکہ جیسا بیج ڈالا جائے ویسا ہی پودا نکل کر گھنا درخت بنے گا۔ وہ اپنی ناکامی، لا چاری اور بے بسی کا بدلہ کمزور بچوں سے لینے لگا۔

ایک بحث یہ بھی عام ہے اور کسی حد تک حقیقت بھی کہ مذہبی حلیہ اپنائے ہوئے افراد جن میں قاری صاحب، مولوی صاحب وغیرہ وغیرہ بھی شامل ہیں وہ جنسی طور پر زیادہ فرسٹریٹڈ یا جنونیت کا شکار ہوتے ہیں۔ بہت سے طالب علم ان کے ہاتھ، پیر یا مزید کسی عضو کا “شیطان” نکالنے کے کام آتے ہیں۔ مدرسوں میں کیونکہ اکثر دوسرے شہر یا دیہاتوں کے بچے بوریا بستر سمیت روانہ کر دیئے جاتے ہیں تو مدرسے کے علاوہ ان کی پناہ گاہ بھی کوئی اور نہیں ہوتی اس لئے دن میں ڈنڈے کھاتے اور رات میں فرسٹریٹڈ استاد جی کی تنہائی کاٹنے کے کام آتے ہیں جو اپنی بیگم کو گاوں میں مہینوں پہلے چھوڑ آئے تھے۔ کیونکہ زمانے کے سامنے تو وہ دین کی خاطر صبر کا پیکر بن کر دن نکال لیتے ہیں مگر رات کو ان کا صبر چھوٹا جاتا ہے اور رات کافی لمبی ہو جاتی ہے۔

جب متاثرہ شاگرد خود استاد بنتے ہیں تو وہ بھی اپنے استاد کے نقش قدم پر چلتے ہیں جس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں دیکھنے کو ملی جب پنجاب میں ایک بچے کو بعد از زیادتی چھت سے نیچے پھینک دیا گیا۔ مجرم استاد کا کہنا ہے میرے استاد نے بھی میرے ساتھ جنسی تعلق رکھا۔ قصور سانحے کے مبینہ مجرم عمران کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ پچاس سے زائد مرتبہ زیادتی ہوئی۔ اسی طرح لاہور کا ایک سیریل کلر تھا جو 100 بچوں کا قاتل تھا اس کا کہنا تھا کہ اس کا بچپن بھی روندا گیا۔ اب ایک خبر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے کہ کسی مدرسے میں اساتذہ اس گھناونے فعل کے دوران نہ صرف متاثرین کی ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کرتے بلکہ حلف لے کر ان سے خاموشی کا وعدہ بھی لیتے تھے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو انتہائی تاریک دور ہے مگر یہ واقعہ دنیا میں یا کسی مذہب میں پہلی بار نہیں ہوا۔

2015 میں ہالی ووڈ کی ایک فلم “اسپاٹ لائیٹ” ریلیز ہوئی جو حقیقی واقعات پر مبنی تھی۔ اس فلم نے بہترین فلم کا آسکر بھی اپنے نام کیا۔ اس فلم کا موضوع وہ تھا جس پر فلم بنانے کا ہمارے ملک میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک امریکی اخبار بوسٹن گلوب کی انویسٹیگیٹو ٹیم جب ایک کیتھولک چرچ کے پادری کے بچوں کے ساتھ بد فعلی کے واقعہ کی تحقیقات کر رہی تھی تو اس پر انکشاف ہوا کہ نہ یہ اکلوتا پادری ہے جو ان واقعات میں ملوث ہے اور نہ ہی متاثرین کی تعداد ایک دو یا درجن ہے۔ تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ ایسے 90 پادری ہیں جبکہ ان واقعات کے بعد بھی انہیں سیاسی اور مذہبی ٹھیکیداروں کی پشت پناہی حاصل ہے اس لئے نہ کوئی سزا ہوئی اور نہ ہی خبریں منظر عام پہ آئیں۔

ایک خوفناک رجحان دیکھیئے۔ ٹین ایجرز (تیرہ سے انیس سال والے) میں جنسی بیزاری اور تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں مگر یہاں صرف چند کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ایک حالیہ مردان کی بچی کا واقعہ۔ مجرم کی عمر زیادہ نہیں مگر اس نے اعتراف کیا کہ اس نے بچی پر جنسی تشدد کیا اور جب زیادتی میں ناکام رہا تو پکڑے جانے کے خوف سے بچی کو قتل کر دیا۔ ایک واقعہ پنجاب کے علاقے حافظ آباد میں پیش آیا۔ ایک 14 سالہ لڑکے نے مرغی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا۔ مرغی کے مالک کی تھانے میں عرضی اور دو عینی شاہدین کی گواہی کے باعث ملزم گرفتار ہوا اور اس نے اقبال جرم بھی کیا کہ یہ سب اس نے جنسی جنونیت کا شکار ہو کر کیا۔ 2012 میں ہوئے دہلی ریپ کیس جس سے پورا بھارت مظاہروں اور مباحثوں کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ ایک طالبہ کو چلتی بس میں نہ صرف اجتماری زیادتی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس پر شدید ترین جنسی تشدد کیا گیا جس کے باعث بعد ازاں وہ جان کی بازی ہار گئی۔ اس کے مجرموں میں بھی ایک سترہ سال کا لڑکا تھا جسے کم عمر ہونے کی وجہ سے قانون کے مطابق سخت سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔ وہ آج آزاد ہو کر بھارت کی کسی گمنام جگہ پر کسی ہوٹل کا ملازم ہے۔

یہ ایسا ظلم ہے جو آج سے نہیں بلکہ زمانوں سے ہوتا آیا ہے۔ جب جنس ظالم ہو اور جنس ہی مظلوم بھی ہو۔ جب جنونیت سر پہ سوار ہو تو نہ عمر کی تمیز رہتی ہے نہ جنس کی اور شاطر مجرم بڑی چالاکی سے خود کو مذہب اور اخلاق کی چادر میں چھپا کے رکھتا ہے۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے بچے کس سے ملتے ہیں؟ کیسے ملتے ہیں؟ کتنی دیر غائب رہتے ہیں؟ ان کی طبیعت میں کوئی بیزاری، چڑچڑا پن یا غصہ تو نہیں؟ وہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل تو نہیں ہو رہے؟ یہ سب نوٹ کرنے کیلئے بطور والدین “ویجیلنٹ” ہونا پڑتا ہے۔ جیسے کمرہ امتحان میں غیر محسوس طریقے سے آپ کی ہر بات نوٹ ہو رہی ہوتی ہے ویسے ہی والدین کو بھی ہوشیاری اور سمجھداری سے اپنے بچوں کی باڈی لینگویج پڑھنی چاہیئے کہ وہ الفاظ جو وہ زبان سے ادا نہیں کر پا رہے وہ اپنے انداز سے کیا پیغام دے رہے ہیں۔ لالچ اور خوف یہ وہ دو عناصر ہیں جن کو بنیاد بنا کر کوئی بدکار اپنے گناہ کا آغاز کرتا ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ زیادہ تر والدین اولاد کو پیدا کر کے بھول جاتے ہیں کہ ان کے کیا حقوق و فرائض ہونگے اور ایک بڑی تعداد ان والدین کی بھی ہے جو اوور پروٹیکٹو یا بلاضروری نگران بن کر اپنے بچے کو ڈرپوک اور کسی اور پر انحصار کرنے والا بنا دیتے ہیں۔ ایسا بچہ والدین کے بغیر خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے جس سے وہ ہمیشہ خوف کا شکار رہتا ہے اور خود کسی بھی چھوٹی بڑی صورتحال کا سامنا نہیں کر پاتا۔ ایسے بچوں کو خوف کا شکار کرنا آسان ہوتا ہے۔

اولاد کی حفاظت کی تلقین کوئی آپ کو نہیں کرتا البتہ شادی کے اگلے دن سے اولاد کے مطالبات، سوالات اور خدشات کی صورت میں آپ کے منہ پر مارے جاتے ہیں۔ میں نے بہت سے ایسے مرد حضرات بھی دیکھے ہیں جنہیں یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ ان کا کونسا بچہ کس جماعت کا طالبعلم ہے۔ بس تعداد پہ فوکس ہے کہ پہلا بچہ اس لئے ضروری تھا کہ دنیا کو بتا دوں کہ مرد ہوں۔ دوسرا بچہ اس لئے کہ پہلا بچہ ‘لڑکی’ تھی۔ پھر مزید تعداد بڑھانا کہ گاہے بگاہے بتاتا چلوں کہ اب بھی مرد ہوں۔ افسوس ہے آپ کے ذہن پر اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ آبادی بڑھا کر آپ مرد ثابت ہوں گے۔ مستقبل اولاد سے نہیں، اولاد کیلئے ہوتا ہے۔ آپ ان کے رستے آسان کریں، ان کی بہتری کیلئےانہیں بہتر بنائیں۔ ہمیں ہی اپنے بچوں کو بدلنا ہو گا کیونکہ متاثرین اور مجرم بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ کوئی باہر سے نہیں آتا۔ جب ہم اپنے بچوں کو انسان بنا کر ان میں ہمدردی اور احساس کی خصوصیات ڈال کر بڑا کریں گے تو نہ صرف آنے والے دور کے بچے بلکہ مرغیاں، بلیاں، بکریاں حتی کہ اندھی ڈولفنز بھی دعائیں دیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).