وقت کی پابندی کا خیال میزبان پر فرض ہے


مجالس، محافل، مشاعرہ، نجی، سرکاری، پیشہ و رانہ تقریبات ہوں یا پاکستان میں کسی بھی نوعیت کی کوئی تقریب ہو، پابندیء وقت کے زریں اصولوں سے انحراف، اب پاکستانی قوم کی عظیم روایت بن چکی ہے۔ اور اس پر عمل کرنے والا فخریہ اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ ، ہاں کچھ تنظیمی اور دفاعی امور کے ادارے ان روایات کی ضرور پامالی کرتے نظر آتے ہیں۔

اگر آپ دعوت نامے پر لکھے گئے نوٹ پر عمل کرتے ہوئے وقت پر پہنچ گئے تو معلوم ہو گا کہ میزبان ابھی تو تقریب کا آغاز کے لوازمات میں مصروف ہیں۔ اور آپ ان کی طرف دیکھ کر گھڑی کی طرف اشارہ کریں گے تو ہنس کر کہا جا ئے گا، بھئی لوگ وقت کی پابندی کہاں کرتے ہیں اسی لیے نوبجے کا وقت دیا تھا کہ لو گ دس گیارہ بجے تک پہنچ ہی جائیں گے۔ تقریب کی نوعیت کے لحاظ سے دعوت کا وقت تمام زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کے طے کرنا چاہیے اور پھر اس پر سختی سے عمل کرنا چا ہیے۔

اب اگر آپ کوئی تقریب ورکنگ ڈے میں رکھ رہے ہیں تو لوگوں کی سہولت کو مدِ نظر رکھتے ہو ئے تقریب کے آغاز کا وقت مقرر کریں، اسی طرح جن اوقات میں سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام ہو تا ہے اس میں وقت کا تقرر سوچ سمجھ کر کریں ورنہ جو آپ کے گھر کے نزدیک رہتا ہے وہ تو وقت پر پہنچ جا ئے گا باقی اشخاص کو لازمی دیر ہو جا ئے گی۔ ہوتا یہ ہے کچھ اکا دکا سر پھرے جو وقت کی پابندی کو اپنے مزاج کا حصہ بنائے ہوتے ہیں، ان کے وقت کا ضیاع ہو تا ہے، اورانہیں شدید کوفت کو سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا موجب میزبان کی ذات ہو تی ہے۔ اکثر یہ ہو تا ہے کہ اگر آپ نے چھ بجے کا وقت دیا تو وقت کے پابند لوگ سات بجے تک اور باقی آٹھ نوبجے تک پہنچتے ہیں۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ ان کے ہاں ہمیشہ تقریب دیر سے شرع ہو تی ہے اس لیے ہم دیر سے آئے ہیں۔ یعنی، وقت اور وقت کی پابندی کرنے والے مہمان کی تذلیل، میزبان کی کی وجہ ء شہرت بن چکی ہے۔ یہ مقبولیت میزبان کے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے۔

آپ کے حلقہ ء احباب میں معدودے چند لو گ ضرور ہو تے ہیں، جن کے بارے میں مشہور ہو تا ہے کہ کوئی آئے نہ آئے وہ تقریب دیے گئے وقت پر شروع کر دیتے ہیں، ہما را تجربہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ہاں تمام لوگ وقت پر پہنچ جا تے ہیں۔ اسی طرح مہمان کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ اگراسے تقریب میں شرکت نہیں کرنی تو وہ اس کی پیشگی معذرت کر لے۔ اچھا یہ جو بڑے بڑے سرکاری اور نیم سرکاری عہدوں پر بیٹھے حضرات ہیں ان کے بد لحاظی کے ہمیں اکثر بڑے تلخ تجربے ہوئے۔ انہیں مہمانِ خصوصی یا صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ ان کے انتظار میں تقریب دیر سے شروع کی گئی، ان کی کرسی آخر وقت تک ان کے انتظار میں خالی رکھی گئی اور موصوف فون پر یہ ہی کہتے رہے کہ میں بس نکل رہا ہوں۔ اور پھر انہوں نے یہ کہہ کر تقریب شروع کرنے کی اجازت دے دی کہ شروع کر دیں بس میں پہنچ رہا ہوں۔

بدتہذیبی اور بد لحاظی میں کچھ داخلی اور خارجی معاملات میں مبتلا نام نہاد ایسے شعراء اپنی مثال آپ ہیں۔ لیکن پھر وہی بات میز بان کی نیت پر آکر ٹھہرتی ہے۔ محض پی آر بڑھانے کے شوق میں سرکاری اور غیر سرکاری بڑے عہدوں پر برا جمان، مصروف لوگوں کو بلا نے اور مسندصدارت پر فائز کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اب وہ بے چارے اپنے ادارے کے معاملات نبٹائیں، تصورِ جاناں میں وقت برباد کریں یا آپ جیسے خوشامدیوں کے ہاں آکر اپنی پچیس سال پہلے والی غزل سنائیں۔ وقت کی پابندی کے لیے میزبان کو اپنی نیت پر غور کرنا ہو گا۔ خود کو اصولوں کا پابند کرنا ہو گا۔ مہمان کے قیمتی وقت کی توقیر کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).