کشمالہ طارق نے یوم خواتین منایا


اطلاعات کے مطابق آج کشمالہ طارق نے یہ ثابت کر دیا کہ عورت اتنی کمزور نہیں ہوتی جتنا اسے سمجھا جاتا ہے۔ کشمالہ طارق ایک معزز اور ہردلعزیز قانون ساز رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں وہ وفاقی محتسب برائے جنسی ہراسانی مقرر کی گئی ہیں۔ لیکن آج ایک پریشان کن وقوعہ ہو گیا۔ نوائے وقت گروپ کی چیف رمیزہ مجید نظامی صاحبہ، مطیع اللہ جان اور اے وحید مراد کے توسط سے جو خبریں ہمیں ملی ہیں ان کو جوڑ کر ہم پوری تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کشمالہ طارق صاحبہ تو اپنی فطری شرم و حیا اور انکساری کے سبب خود کچھ بتانے سے انکاری ہیں۔ ڈان کے پوچھنے پر شرماتے شرماتے بس یہی کہا کہ ”اس واقعے کے متعلق کوئی بھی اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کو تیار نہیں ہے“۔ اس لئے ہم خود کوشش کرتے ہیں کہ حالات کا تجزیہ کر کے ان کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کریں۔

خبروں کے مطابق اسلام آباد کا ایک مشہور صحافی مطیع اللہ جان نامی کشمالہ طارق کا انٹرویو لینے کا خواہاں ہوا۔ کشمالہ طارق نے سوچا ہو گا کہ چلو قوم کو بتا دیا جائے کہ جنسی و دیگر ہراسانی وغیرہ کیا ہوتے ہیں اور یہ سوچ کر انٹرویو کے لئے ہاں کر دی۔

اب ہوا یہ کہ بات تو ہونی چاہیے تھی کہ بظاہر کمزور سمجھی جانے والی عورت کس طرح اس منصب پر پہنچی جہاں وہ بڑے بڑے طاقتور مردوں کو سبق سکھا سکتی ہے۔ لیکن مطیع اللہ جان نے اس پر فوکس نہیں کیا۔ الٹے سیدھے سوال کرنے لگے کہ ق لیگ سے آپ کا کیا تعلق ہے اور جنرل مشرف کے دور میں کیا ہوتا تھا اور آپ کو کس کوالیفیکیشن پر خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب کیا گیا۔ اب اللہ جانے اس دور میں کیا ہوتا تھا۔ کشمالہ طارق کا اس سے کیا تعلق؟ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ تو منتخب کرنے والوں سے پوچھیں۔ بات صحیح ہے کیونکہ وہ تو بس اس دور میں نام کو ہی حکومت میں شامل تھیں لیکن ان کا زیادہ وقت اسمبلی میں بیٹھ کر سویٹر بنتے اور تماشائے اہل کرم دیکھتے گزرتا تھا۔ پہلے تو کچھ دیر تک ایسے سوال برداشت کرتی رہیں پھر تنگ آ کر انہوں نے کہہ ہی دیا کہ آپ سیاسی سوالات مت کریں۔ آئیں خواتین کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔

اب ان کی نیت تو غالباً یہ ہو گی کہ مطیع اللہ جان صاحب سے خواتین کے جدید فیشن اور برانڈز کے بارے میں بات کی جائے، یا کم از کم چند دیگر خواتین کی غیبت ہی کر لی جائے، مگر مطیع اللہ جان کچھ اور سمجھ بیٹھے۔ وہ بجائے خواتین ڈسکس کرنے کے ایسے سوالات پوچھنے لگ گئے کہ جنسی ہراسانی کیا ہوتی ہے، کیا قوانین ہیں، آپ کی تقرری کیسے ہو گئی۔ اس عہدے کے لئے تو ہائی کورٹ کا جج بننے کی اہلیت ہونی چاہیے، آپ کی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب قوانین تو کتاب میں لکھے ہیں، کشمالہ اس کی حافظ تو نہیں ہیں۔ کشمالہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ تقرری کا پوچھنا ہے تو وزیراعظم سے پوچھیں، مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں۔ ہاں ہراسانی کا موضوع کشمالہ کو مناسب لگا۔ لیکن وہ محض گفتار کی غازی نہیں ہیں بلکہ ایک عملی قسم کی خاتون ہیں۔

اب حقیقت یہ ہے کہ جب بھی ہمارا تمہارا ٹی وی والے انٹرویو کرتے ہیں تو عام طور پر وہ ہمیں فوٹیج بھی دیتے ہیں۔ ہر بندے کا دل کرتا ہے کہ خود کو ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہے۔ کشمالہ نے بھی یہی مطالبہ کر دیا کہ کیمرے سے نکال کر فوٹیج ان کو دی جائے۔ مطیع اللہ جان کی ٹیم نے انکار کر دیا۔ کشمالہ نے غالباً یہ سوچا کہ ان افراد کی مزید مہمانداری کی جائے تو ان کا دل نرم ہو گا اور یہ فوٹیج دے دیں گے۔ انہوں نے اپنے دفتر کے درجن بھر اہلکاروں کو بلا لیا کہ بھئی یہ ہمارے مہمان ہیں، لاکھ انکار کریں ان کو باہر نہیں جانے دینا۔ بس کوشش کرو کہ کسی طرح یہ ہماری مٹھی چاپی سے خوش ہو کر انٹرویو کی فوٹیج دے دیں۔

یوں مطیع اللہ جان کی ٹیم کی چند گھنٹے کمرے میں بھرپور میزبانی کی گئی۔ ان کا سامان بھی ان سے لے کر دفتر میں رکھوا دیا کہ پکڑے پکڑے آپ تھک جائیں گے۔ جب بھی باہر جانے لگتے تو یہ اہلکار ان سے لپٹ جاتے کہ ایسے مت جائیں۔ ہمارا دل ٹوٹ جائے گا۔ اعزاز چوہدری کی فراہم کردہ ویڈیو کے مطابق اس پیار محبت میں مطیع اللہ کو ہاتھ اور چہرے پر کچھ زخم بھی آ گئے اور ان کا کوٹ پھٹ گیا۔ لیکن اس بنیاد پر اس پیار محبت کو ہراسانی کہنا بری بات ہے۔ برائے بحث اسے ہراسانی مان بھی لیا جائے تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ وفاقی محتسب برائے جنسی ہراسانی کے پاس ہراسانی کے بارے میں جاننے تو گئے تھے۔ اب شکایت کیسی؟

اب بات تھانے کچہری تک چلی گئی ہے۔ سیانے سچ ہی کہہ گئے ہیں کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ کشمالہ نے جانے کتنے گھنٹے میزبانی کی۔ مطیع اللہ جان کی ٹیم کو کمرے میں بٹھایا۔ اپنے سٹاف کو ان کی خدمت پر لگا دیا کہ مہمان نوازی سے بچ کر باہر نہ نکل پائیں۔ لیکن تعریف کرنے کی بجائے ان پر حبس بیجا اور غنڈہ گردی کا الزام دھر دیا گیا ہے۔ اب آئندہ کوئی صحافی ان سے انٹرویو کی کوشش کرے گا تو وہ یہی کہیں گی
ہم باز آئے ایسی محبت سے، اٹھا لو پاندان اپنا

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar