یکم جنوری 2016 کو وزن 220 کلوگرام تھا، آج 80 کلو ہے؛ شادی کی آفر نے مجھے بدل دیا


کیا آپ اپنے جسمانی وزن میں کچھ کمی لانا چاہتے ہیں ؟ تو یہ جان لیں کہ اتنا آسان کام نہیں بلکہ آپ کی قوت ارادی کا امتحان ہے، کیونکہ راتوں رات اس مقصد میں کامیابی بہت کم ملتی ہے۔

تاہم یہ ایسا ناممکن کام بھی نہیں جو آپ کرنہ سکیں، اس سلسلے میں ایسے افراد کی داستان حوصلہ بڑھا سکتی ہے جنھوں نے اس مقصد میں کامیابی حاصل کرکے سب کو حیران کردیا۔

ایسا ہی کمال امریکی ریاست انڈیانا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون الیکسز اوہل نے کرکے دکھایا جنھوں نے اپنے آپ کو اتنا زیادہ بدل دیا کہ پہچاننا ناممکن ہے۔

2 سال قبل یعنی 25 سال کی عمر میں اس خاتون کا جسمانی وزن 220 کلو گرام تک پہنچ چکا تھا اور ان کی زندگی محدود ہوکر رہ گئی تھی۔

ان کے اپنے الفاظ میں ‘ میں نوعمری سے ہی بہت زیادہ موٹی ہوچکی تھی اور اس وجہ سے زندگی کے اچھے لمحات سے دور ہوچکی تھی’۔

مگر پھر انہیں ایک شخص نے جب شادی کی پیشکش کی تو انہوں نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے صرف 2 تبدیلیوں کو اپنا لیا۔

اور یہ تبدیلیاں تھیں غذا کو بدلنا یعنی جنک فوڈ وغیرہ سے دوری اور صحت کے لیے فائدہ مند غذاﺅں کو اپنانا اور جسمانی سرگرمیاں یا ورزش۔

اس خاتون نے یکم جنوری 2016 کو موٹاپے سے نجات کا عہد کیا تھا اور روزمرہ کی زندگی میں چھوٹی مگر ایسی تبدیلیاں اپنائی جس کے نتائج بہت زیادہ نمایاں ثابت ہوئے۔

اس خاتون نے سب سے پہلے فاسٹ فوڈ اور کولڈ ڈرنکس کا استعمال چھوڑا اور اس کی جگہ پروٹین سے بھرپور غذائیں، سبزیوں اور کم کاربوہائیڈریٹس والے کھانوں کو دی جبکہ مشروب کے لیے پانی کو اپنایا۔

اس کے علاوہ انہوں نے مختلف جسمانی سرگرمیاں جیسے سائیکل چلانا، زومبا فٹنس پروگرام اور ورک آﺅٹ وغیرہ کو معلوم بنایا اور اپنے ارادے کو کمزور نہیں ہونے دیا۔

یکم جنوری 2016 سے اب تک یہ خاتون اپنا وزن 220 کلو گرام سے کم کرکے 80 کلو تک لاچکی ہیں یعنی 2 سال میں 140 کلوگرام تک کی کمی لائی ہیں۔

ان کا کہنا ہے ‘میں 140 کلو کم کرچکی ہوں اور میرا مقصد اپنے محبوب کے ساتھ خوش باش اور صحت مند زندگی گزارنا ہے’۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر لوگ بھی موٹاپے سے نجات چاہتے ہیں تو اگلے ہفتے یا اگلے سال کا انتظار مت کریں بلکہ اس مقصد کے لیے عزم کو پختہ کرکے جت جائیں، یہ فیصلہ ہی زندگی کو بدلنے میں مدد دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).