خواجہ محمد آصف صاحب، ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا گیا کہ یہ جہاد امریکی ہے؟


”لوگو آنکھیں کھولو، انگلینڈ والوں کو دیکھو، ان کی ہنر مندی دیکھو، ایسے کمال ان کے ہاتھ میں ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ اپنے بزرگوں سے بھی کئی منزلیں آگے نکل چکے ہیں۔ وہ ملک چلانے کے لیے آئین بناتے ہیں اور کیا خوب اس میں انصاف اور عقل مندی کا مکسچر ہوتا ہے۔ لوگ دو پتھروں کو رگڑ کے چنگاری پیدا کرتے تھے، وہ ایسے قابل ہیں کہ خس کے تنکوں سے آگ پیدا کرتے ہیں (ماچس)۔ خدا جانے کیا جادو ہے جو دھویں کی طاقت سے پانی پہ کشتی چلاتے ہیں؟ اور ایسے کہ تیز ہوائیں اور سمندروں کی منہ زور موجیں سبھی بے بس ہو جاتی ہیں، کشتی چلتی ہی جاتی ہے۔ ساز کو ہاتھ نہیں لگاتے اور اس میں سے آواز آ رہی ہوتی ہے۔ ان کے لفظ پرندوں کی مانند ہوا میں اڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ سب نے دیکھا کہ یہ لوگ کیسے چند لمحوں کے اندر لکھا ہوا پیغام کوسوں دور تک پہنچا دیتے ہیں۔ ہوا کو ایسے آگ لگاتے ہیں کہ وہ روشنی دینے لگتی ہے (گیس لیمپ)۔ لندن کو دیکھو جو رات کو چراغوں کے بغیر ہی جگمگا رہا ہوتا ہے۔ ذہین لوگوں کے کام دیکھو۔ ان کے طور طریقوں اور ضوابط کے سامنے باقی سب کچھ ایکسپائرڈ جنتریوں جیسا لگتا ہے۔ کیا تمہاری کتاب (آئین اکبری) میں اس قدر دانائی کی باتیں ہیں؟ اگر تمہیں سامنے ہیرے جواہرات دکھائی دے رہے ہوں تو کیا ضروری ہے کہ تم کھیتوں سے غلے کا ایک تنکا ہی چنو؟ مردہ پروری اچھا کام نہیں ہے، خود بتاؤ کیا اس کتاب میں پرانی باتوں کے علاوہ کچھ اور موجود بھی ہے؟‘‘

ہمیں اپنے مطلب کا علم حاصل کرنا پسند ہے۔ غالب کا اردو دیوان اب بھی ہمارے یہاں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے لیکن وہی غالب جب کوئی نصیحت کرتا ہے تو وہ سوائے ادبی کتابوں کے ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ سرسید نے جب اکبر بادشاہ کے زمانے میں لکھی گئی ایک کتاب کو ذرا لش پش کرکے دوبارہ تیار کیا، غلط پرنٹنگ ٹھیک کروائی، مشکل لفظوں کے مطلب لکھے، جو عبارتیں بوجھل تھیں ان کی تفصیل درج کی اور اسے نئے سرے سے چھپوانے کا ارادہ کیا تو ساری محنت غالب کے پاس لے گئے، انہیں کام دکھایا اور کہا کہ سرکار شروع میں آپ کے نام سے کوئی پیش لفظ یا چار لائنیں آ جائیں گی تو کتاب کی شان بڑھ جائے گی۔ اب 1855ء کا دور ہے، جنگ آزادی بھی نہیں ہوئی، دور دور تک کوئی ایسا مفکر نہیں دکھائی دیتا جس کے پاس مسلمانوں کی حالت سیٹ کرنے کا کوئی جامع منصوبہ ہو، لیکن غالب اس زمانے میں بھی پورے چست تھے۔ سر سید بڑے فخر سے کتاب لے کر گئے کہ غالب شاباشی دیں گے اور کچھ اچھا سا لکھ بھی دیں گے لیکن غالب نے طبیعت ہری کر دی۔ یہ جو اوپر ترجمہ ہے، یہ سارا غالب کی فارسی غزل کا ہے جو انہوں نے اس کتاب کی شان میں کہی۔ سر سید احمد خان کا موڈ ایسا آف ہوا کہ اپنی کتاب میں انہوں نے یہ سب کچھ شامل ہی نہیں کیا لیکن 1857ء کی جنگ آزادی کے فوراً بعد وہ یہی سب کرنے پہ مجبور ہو گئے۔ جو چیز غالب 1855ء میں دیکھ رہے تھے وہ سرسید کو پانچ چھ برس بعد نظر آئی اور 1862ء میں انہوں نے باقاعدہ مسلمانوں کی سائنسی تعلیم کے لیے کوشش کرنا شروع کی۔

اب تھوڑا اور پیچھے جاتے ہیں۔ یار مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ میں ڈبکی لگائے بغیر سامنے کی بات کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اصل میں جس چیز کا احساس غالب نے کر لیا، سر سید کو ہو گیا، اورنگزیب عالمگیر سمجھ گیا، ہم ابھی تک نہیں سمجھے، نہ ہمیں سمجھایا گیا۔ تو پیچھے جا کے ہمیں ایک کریکٹر ملتا ہے فرانسسکو برنئیر کا۔ یہ فرانسیسی آدمی تھا، پہلے فلسفہ پڑھا پھر ڈاکٹری کی اور اس کے بعد دنیا گھومنے کا شوق اسے ہندوستان لے آیا۔ ادھر یہ ڈاکٹر کے طور پہ مشہور ہو گیا۔ شاہجہان جب بیمار ہوا تو محل میں اس کا علاج کرنے کے لیے برنئیر سرکاری طور پہ ہائر ہو گیا۔ جب اورنگزیب عالمگیر اپنے ابا کو سائیڈ پہ کر کے ہندوستان کے بادشاہ بنے تو برنئیر اپنی قابلیت کی وجہ سے ان کے دربار میں بھی فٹ ہو گیا۔ وہ دس بارہ سال ادھر رہا پھر جب واپس گیا تو اپنی ساری آبزرویشن پہ اس نے مغل سلطنت کے بارے میں ایک ہیوی قسم کی کتاب لکھی۔ اس میں ہندوستانیوں کے مذہبی عقائد، رسوم، سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور انتظامی حالات کے ساتھ ساتھ درباروں کے اندر کا احوال بھی لکھا۔

اب ہوا یوں کہ برنئیر کہتا ہے جب اورنگ زیب عالم گیر بادشاہ ہوا تو اس کے ایک پرانے ٹیچر مبارک باد دینے چلے گئے۔ وہ بے چارے اس امید پہ گئے تھے کہ بادشاہ کا استاد رہا ہوں، کچھ خرچہ پانی مل جائے گا۔ بادشاہ ادھر تپا بیٹھا تھا، حکومت سنبھالنے کے بعد اندازہ ہوا تھا کہ اسے پڑھائے گئے علم اور دنیا چلانے کے علم میں کتنا زیادہ فرق ہے۔ اس نے استاد صاحب سے کہا، ”کیا آپ کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ آپ مجھے دنیا کی ہر قوم کے حالات بتاتے؟ ان کی فوجی طاقت، ان کے امپورٹ ایکسپورٹ، ان کے ہتھیار، ان کے رسوم و رواج، حکومت چلانے میں ان کے راہنما طریقوں وغیرہ کے بارے میں بتاتے؟ مجھے تاریخ پڑھاتے کہ میں ان سب کی غلطیوں سے کچھ سبق حاصل کر لیتا، جو بہتر حال میں ہیں تو ان کی ترقی کا سبب جان لیتا، مجھے آس پاس موجود ملکوں کی زبان سکھا دیتے تاکہ میں ان سے بہتر تعلقات بنا سکتا لیکن آپ نے مجھے کیا سکھایا؟ آپ نے اس کے بجائے عربی سکھانے کے لیے میری عمر کا ایک بڑا حصہ لگوا دیا۔ آپ نے مجھے گرائمر کے اصول سکھائے، آپ نے مجھے قاضی بننے کا نصاب پڑھایا، آپ نے مجھے لفظی بحثیں پڑھائیں۔۔۔ آپ نے میری جوانی کے دن بے فائدہ چیزوں میں ضائع کر دئیے‘‘۔

وہ پالیسی آج تک نہیں بدلی۔ خواجہ آصف آج ہمیں امریکی جہاد کے بارے میں بتاتے ہیں، جب جہاد اپنی پوری طاقت سے جاری و ساری تھا اس وقت ہمیں بتانے والے کہاں تھے؟ جب ہمارے ملک میں بے گناہ شہریوں کی لاشیں بچھتی تھیں، اس وقت اس راز سے پردہ اٹھانے والے کہاں تھے؟ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے پہلے جہاد کا اعلان ہوا اور افغانستان پہ ڈائیورٹ ہو کے وہ جہاد اپنی پوری قوت سے لڑا گیا۔ پچاس ساٹھ برسوں میں بلامبالغہ لاکھوں لوگ اس جہاد کا ایندھن بن گئے۔ چھوٹے چھوٹے بچے سکولوں کے اندر گولیوں کا نشانہ بنے، کیا اس وقت ارباب اختیار کو علم نہیں تھا کہ یہ جہاد امریکی ہے؟ آج سعودی عرب لبرل ہوتا ہے تو ہمیں اپنا جہاد سمیٹنے کی جلدی پڑ جاتی ہے۔ آج امریکہ واچ لسٹ پہ رکھنا شروع کرتا ہے تو فخریہ جہاد کرنے والی جماعتیں سیاست کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں لیکن دلوں کی پالیسی آج بھی نہیں بدلتی۔ اقوام متحدہ غوطہ پہ مظالم کے خلاف رائے شماری کراتی ہے تو پاکستان ووٹ نہیں ڈالتا اور غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ کیا وہاں روز مرنے والے مسلمان نہیں ہیں یا اس ظلم کی مذمت ووٹنگ سے کرنا جہاد نہیں ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہاں امریکہ بنفس نفیس جہاد کر رہا ہے اور در پردہ ہر وہ ملک بولتا ہے جس کے یہاں سے جنگی اصول اور پالیسیاں ہم درآمد کیا کرتے تھے۔

خواجہ محمد آصف صاحب! ہمیں اپنی عمر کے بہترین حصے میں لفظی بحثیں پڑھائی گئی ہیں، ہمیں گرائمر کے اصول سکھائے گئے ہیں، ہمیں ساری عمر افضل جہاد، نارمل جہاد اور جہاد کے کم ترین درجات کے بارے میں پڑھایا گیا ہے، ہماری نسل کشمیر اور افغانستان میں چھلنی ہوئی ہے، جو ادھر بچ گئے وہ بنفس نفیس اپنے شہروں میں نشانہ بنے ہیں، اپنے سارے وسائل جلا کر اور اپنے سارے مسائل بھلا کر ہم نے اس جہاد کی دیواریں اساری تھیں۔ آج یہ جہاد امریکی قرار پا چکا ہے تو جو بیج ہم اپنی آئندہ نسل کے دماغوں میں بو چکے ہیں اس کا کیا ہو گا؟ جنوبی پنجاب اور سرحد میں تیار ہونے والی کھیپ تک یہ پیغام کون پہنچائے گا کہ ہم نے اپنا وقت ضائع کیا اور یہ جہاد امریکی تھا؟ یہ راہنمائی بھی فرمائی جاوے کہ جہاد اب حکومت کی اجازت سے ہوا کرے گا یا حسب سابق و حسب ضرورت شوق پورا کرنے کے راستے کھلے رہا کریں گے؟ نیز یہ کہ ایک آفیشل فوج کے ہوتے ہوئے حکومت کو جہاد کی اجازت پہ بات کرنا سوٹ بھی کرتا ہے یا نہیں؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain