سیاست میں جوتے اور کالک کا چلن


ورکرز کنونشن میں کارکنوں کی موجودگی میں کسی بھی لیڈرپر سیاہی پھینکنا آسان ہوتا ہے خواہ وہ لیڈر وزیرخارجہ ہی کیوں نہ ہو۔ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے گڑھ، گڑھی شاہو میں واقع جامعہ نعیمیہ کی ایک تقریب کے دوران ان پر جوتا پھینکنا بھی بہت آسان ہے ۔ اس کے لئے کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ۔ آپ کسی کے ساتھ بھی شرط لگاسکتے ہیں کہ ورکرز کنونشن میں آج فلاں لیڈر خطاب کرنے والے ہیں، میں ان کے چہرے پر سیاہی پھنیک دوں گا ۔ پانچ ہزار روپے کسی کی عزت کی قیمت تونہیں ہوتی لیکن پانچ ہزار روپے کی شرط جیت کر دنیا بھر میں پاکستانی سیاست کامنہ کالا تو کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جامعہ نعیمیہ میں بھی آسانی کے ساتھ سابق وزیر اعظم پر جوتا چلانے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے ۔ کسی کو کوئی سازش بھی نظر نہیں آئے گی ۔ نہ پی ٹی آئی پر الزام، نہ کسی اور مخالف پر دشنام ۔ مدرسہ بھی وہ کہ جس کی آپ نواز شریف خود پرورش کرتے رہے ۔ ایسے کام تو کوئی معمولی سا اہلکار بھی کرا سکتا ہے ۔ روز جلسوں میں عدالتوں کو برا بھلا کہنے والے کو عدالتیں بھلا کیوں‌سزا دیتیں ؟ عوامی لیڈر کو سزا بھی عوامی انداز میں ملنا چاہیئے تھی ۔ منصوبہ بندی تووہاں کرنا پڑے گی جہاں کسی مسلح جتھے کا کوئی سرغنہ خطاب کررہاہو اور جہاں کسی چڑیا کو پرمارنے کی بھی اجازت نہ ہو۔ یا جہاں کوئی طاقت ور کوئی، کوئی ظلِ الٰہی دربار لگانے والا ہو ۔ جناب اس علاقے کی تو ناکہ بندی کردی جاتی ہے ۔ دوردور تک کوئی ذی روح نظر نہیں آتا۔ لوگ بھیڑ بکریوں اورجانور کی طرح رکاوٹوں سے سرپٹخ رہے ہوتے ہیں، مریض ایمبولینسوں میں مر رہے ہوتے ہیں ۔ عورتیں سڑکوں پر بچے جنتی ہیں اور اس کے باوجود سب لوگ صبر شکر کر کے اپنے مالک کی رضا پر راضی رہتے ہیں ۔ قدم قدم پر عوام الناس کی تذلیل ہوتی ہے، ان کے منہ کالے کئے جاتے ہیں۔ ان کی چوراہوں اور ناکوں پر توہین ہوتی ہے، لیکن وہ اسے بھی اپنے گناہوں کی سزا سمجھ کر کوئی احتجاج کرنے کی بجائے صرف توبہ اور استغفار کرتے ہیں‌۔ کسی طاقتور کی توہین کی تو وہ کبھی جرات ہی نہیں کرتے ۔ ہاں البتہ ورکرز کنونشن میں اور جامعہ نعیمیہ میں کسی بھی لیڈر کی تضحیک بہت آسان ہے۔ یہ ایک سیاستدان کی تضحیک جو ہے ۔ سیاست دان کو تو گالی بھی دی جاسکتی ہے ۔ اس سے سیاست یا جمہوریت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عدالت چونکہ بہت حساس ہوتی ہے اس لیے اسے برا بھلاکہنا اوراس کی توہین کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس جرم کی پاداش میں ہمیشہ کمزور لوگ ہی سزا پاتے ہیں ۔ طاقت ور لوگ اگر عدالت کی توہین کریں تو اس سے بھی عدالت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیالکوٹ میں وزیرخارجہ خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکنے اور لاہور میں نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے واقعہ پر ہرشخص اپنے ظرف کے مطابق تبصرہ کر رہاہے۔ کچھ سیاسی کارکن بھی ان سیاسی لیڈروں کی توہین پر خوش ہیں جو آج کے بیانیئے میں جمہوریت کی بات کر رہے ہیں ۔ ان پر لوٹ مار کے الزامات بھی ہیں لیکن وہ ان قوتوں کے سامنے ڈٹ گئے ہیں جن کے وہ کبھی آلہ کارہوا کرتے تھے ۔

ہم جب ایک دوسرے کو عدم برداشت کا درس دیتے ہیں اور ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور معاشرے میں رواداری کو فروغ دینا چاہیے تو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اپنے بہت سے رویے ہمارے قول وفعل کے تضاد کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ رویئے سیاست میں بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ مذہب میں بھی، ادب میں بھی اور ایوان عدل میں بھی۔ یہ سب کچھ مل کر اس معاشرے کو سیاہی پھینکنے، جوتا مارنے اور توہین کرنے والے معاشرے میں تبدیل کررہاہے۔ ہمیں‌ یہاں احمد رضا قصوری سےلے کر ارباب رحیم تک مشرف دور کے وہ تمام کردار یاد آ رہے ہیں جو اس زمانے میں جوتے اور سیاہی کا نشانہ بنے ۔ لیکن ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ایک ڈکٹیٹر کا ہاتھ مضبوط کر رہے تھے ۔

اس سارے عمل پر جو جیسی بھی رائے دے لیکن ایک نکتے پر غور کرنا بہرحال ضروری ہے اور وہ یہ کہ سیاست دانوں کی توہین کے لیے ہمیں ان کے چہروں پر با قاعدہ سیاہی پھینکناپڑتی ہے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ ہمیں ان کے چہروں پر سیاہی پھینکنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ ان کی سیاہی ان کے چہروں پر پہلے ہی عیاں ہوتی ہے ۔ ۔ سیالکوٹ اور لاہور کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گالی کے بعد سیاست میں جوتے اور کالک کا چلن عام ہونے والا ہے کہ پھر نواز شریف اور ان کے ساتھی بھی اسی طرح جلسوں اور انتخابی مہم سے دور ہو جائیں‌گے جیسے لوٹوں اور نعروں کے ذریعے جاوید ہاشمی کو انتخابی مہم سے دور کر دیا گیا تھا ۔ آخری بات یہ کہ خواجہ آصف کے چہرے کوسیاہ کرنے والا شاید دنیا بھر کو ہماری وزارت خارجہ کاچہرہ دکھانا چاہتا تھا، اور جامعہ نعیمیہ سے فارغ التحصیل ہونے والےطالب علم طلحہ منور نے نواز شریف پر جوتا پھینک کر بتایا ہے کہ اس نے چار سال کے دوران اس ادارے سے کیا سیکھا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).