اویس صاحب آئیے، مل کر چلیں


اویس صاحب آئیے مل کر چلیں۔ پیٹ کی بھوک اس دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ جذباتی بھوک ایک خطرناک مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک ہر مسئلے کی جڑ عورت اور مرد کی جنسی بھوک ہے۔ جنس کیا ہے۔ یہ ایک جذبہ ہے اور جذباتی پیچ و خم، سکھ دکھ کسی بھی فرد کے مثبت یا منفی انسان بننے کا تعین کرتے ہیں۔ جذباتی طور پر آسودہ اور نا آسودہ شخص کے طرز زندگی میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ جذباتی خوشی اور آسودگی پر سب کا برابر حق ہے۔ یہ حق مرد اور عورت دونوں میں خدا کی طرف سے پیدا کردہ ہے۔ انسانوں کا اس پر اختیار ہی کب ہے۔ جذبات میں سب سے اہم اور کلیدی کردار جنسی خواہش کو حاصل ہے۔ الله نے انسانوں میں یہ خواہش بلا تفریق مرد و زن رکھی ہے۔ یہ اتنی ہی نارمل ہے جتنی کہ بھوک یا چھت کی خواہش رکھنا۔ جنسی خواہش خوراک کی طرح جائز یا ناجائز دونوں طرح سے پورا کرنے کے درپے انسان کیوں ہیں۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ بھوک مٹانے کے جائز ذرائع بہ نسبت جنسی طلب کے بہتر طور پر موجود ہیں۔ تو پھر کیا جنسی ناآسودگی کو مٹانے کے لیے اگر جائز مواقع نہ ہوں تو انسان خواہ مرد ہو یا عورت ناجائز کی طرف لپک پڑیں؟ یہ حل نہیں ہے۔ جنسی چھینا جھپٹی خوراک کی چھینا جھپٹی سے زیادہ مہلک ہے۔ خوراک چھین لی جائے تو اس کے ذیلی اثرات اس قدر مہلک نہیں ہوتے شکار پر کہ زندگی بھر کے لئے عذاب بن کر شخصیت پر حاوی ہو جائیں جبکہ جنسی چھین جھپٹ کسی بھی شکار کی زندگی یکسر بدل کر رکھ دیتی ہے۔ یہ بات مرد اور عورت دونوں کے لیے کہی ہے میں نے۔

میں نے کئی بلاگ لکھے مردوں کی جنسی بھوک پر۔ مگر آج مجھے عورتوں کی اس جذباتی کفیت پر لکھنے کی تحریک ملی ایک مرد سے۔ اویس احمد ہم سب پر ایک شا ندار تحریریں دینے والے لکھاری ہیں۔ انہوں نے میری سوچ کے در وا کیے۔ ان کی تحریریں بہت کھری تھیں۔ سچ پر مبنی تھیں مگر کیا یہ ان کا قصور تھا کہ انہوں نے ہاے ہاے مچانے کی جگہ اپنے اچھوتے اسلوب رواداری کو مدنظر رکھتے ہویے ہلکے پھلکے انداز میں لکھا۔ ہرگز نہیں تو پھر میرا سوال ہے۔ کہ ان کی تحریر پر جو آوازے کسے گئے، کیا وہ مناسب تھے؟ یا جن مردانہ مسائل کا ذکر اویس صاحب نے کیا، وہ مذاق کے زمرے میں آتے ہیں؟ مختصر طور پر ایک کمنٹ پیش کرتی ہوں۔ “واہ صاحب آپ کے تو عیش تھے۔ اگر کسی عورت یا بچی کو ہراساں کیا جائے تو یہ خواتین ایک اعلیٰ مسند پر بٹھا دی جاتی ہیں”۔

عملا ہوتا ان کے لئے بھی کچھ نہیں۔ مگر یہ فقرے کبھی آپ نے سنے ایسے واقعات پر کہ تم تو بچپن سے مزے میں ہو۔ واہ بھی عیش ہیں تمھارے، اتنے مرد فدا ہیں تم پر۔ مزے کرو باجی۔ زندگی میں رنگ بھر گئے ہوں گے پھر تو۔ یا کہ اچھا تمہیں فلاں نے ہراس کیا تو پھر تمہاری نیند کب کھلی۔

میرے معاشرے کے باسیو! منافقت چھوڑ دو۔ نہ تو تم عورت کے ساتھی ہو نہ مرد کے۔ بلکہ ہم تمام لوگ بحثیت قوم چسکہ خور ہیں۔ عورت پر جنسی حملہ جرم ہے تو کیا مرد کو ہیجانی تحریک میں مبتلا کرنا جرم نہیں۔ ہاں یہ ایک سچ ہے کہ مردوں میں یعنی کہ اچھے خاصے اپنے آپ میں رہنے والے مردوں کو بھی عورتیں رجھا لیتی ہیں۔ کوئی مرد بھی عین عورت کی طرح پیدائشی ندیدہ نہیں ہوتا۔ مردوں کو ماؤں اور گھر وں سے ملنے والی لاپرواہی اور بڑی عمر کی خواتین کے ذومعنی جملے اور حملے غلط راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ دس بارہ سال کے بچے کو کیا علم کہ صحت مند سیکس کیا ہوتا ہے۔ وہ جو بھی گھر سے سیکھتا ہے۔ اپنے ارد گرد بانٹ بھی دیتا ہے۔ خود بھی ذہنی بیمار بن جاتا ہے اور دوسروں میں بھی وہ بیماری منتقل کرتا ہے۔ حضرت منٹو فرماتے ہیں کہ جو والدین سر درد کا بہانہ کر کے بھری دوپہر کو کمرے کی کنڈی چڑھا لیتے ہیں وہ اپنی اولاد کو وقت سے پہلے جنسی طور پر بالغ کر دیتے ہیں۔ تو کیا یہ بلوغت صرف لڑکے میں آتی ہے۔ لڑکی میں نہیں؟ اب یہ لڑکی کہاں جا کر اپنے جذبات کی تسکین کرے گی۔ ظاہر ہے کہ کسی لڑکے کے پاس اور وہ بھی محلے یا خاندان کا ہی ہو گا۔ یا اسکول میں۔ یہ بات طے ہے کہ ایسے حالات میں پیش قدمی لڑکی ہی کرتی ہے۔ ایک اور اہم عنصر اس ذہنی بلوغت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ ہے خواتین کی آپسی بے تکلفی اور کسی حد تک فحش گفتگو ہے جو وہ آپس میں فرماتی ہیں۔ اور نابالغ بچوں کی موجودگی کا ذرا بھی احساس نہیں کرتیں۔ بلکہ لڑکے تو ان کی اس محفل میں اشاروں اور ذومعنی جملوں اور غیر مہذب رویوں کا شکار ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں سمجھدار لڑکیوں کی طرف: جنسی تحریک مرد اور عورت نہیں دیکھتی۔ یہ بس ایک آگ ہے جو ہر کسی کے اندر ہے۔ یہ آگ نوجوانوں کو جلا رہی ہے۔ زبردستی کا ذکر میں نہیں کروں گی۔ کیا ایسے وقتی معاشقے لڑکے اور لڑکی دونوں کا کارنامہ نہیں۔ ان معاشقوں کو بھلے برا کہو مگر اس پر یہ امتیازی سلوک برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ لڑکی بری الزمہ اور لڑکا بیوفا۔ بےحیا وغیرہ وغیرہ۔ آگ اور کپاس کے کھیل میں دونوں برابر شریک تھے۔ دونوں جلیں۔ ایک کو جلانا درست نہیں۔ ایک سنگل عورت، بیوہ یا مطلقہ یا ناآسودہ رشتہ ازدواج میں منسلک عورت حقیقتاً حقدار ہے کہ اس کو ذہنی جنسی آسودگی میسر آئے۔ مگر اس کے لئے اوچھے ہتکنڈے استعمال کرنا نہایت غلط ہے۔ اس حقیقت سے جو بھی انحراف کرے گا وہ واقعتا خود سے جھوٹ بولے گا کہ خود نمائی کرنے والی خواتین کا مقصد مردوں کو متوجہ کرنا نہیں ہوتا۔ مرد سیٹی مارتا ہے عورت اپنے عشوہ اور انداز سے توجہ حاصل کرتی ہے۔ وہ عورتیں بھی ہیں جو بہت جاذب نظر ہوتی ہیں مگر ان کا بازار میں ننگے سر یا سنگھار کئے نکلنے کا انداز بالکل جدا ہوتا ہے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے لئے تیار ہوتی ہیں۔ دونوں میں تفریق کوئی گھامڑ مرد بھی کر سکتا ہے۔ گھائل کرنے والی خواتین کی الگ پہچان ہوتی ہے۔ اور گھائل ہونے والی عورت کی الگ۔ اسی طرح مرد بھی زخم خوردہ ہوتا ہے۔ زخم دیتا بھی ہے۔ پر اس اہم بات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اچھے بھلا شریف نفس مرد نظر جھکا کر بھی چل رہا ہو تو اسے بھی نظریں اٹھا نے پر مجبور کر دینے والے حربے ہیں خواتین کے پاس۔ اگر وشوا مترا کی تپسیا مینکا بھنگ کر سکتی ہے تو مجھے کوئی دوسری مثال نہیں دینا۔

جنسی نا آسودگی کا شکار مرد بھی ہوتا ہے اور عورت بھی۔ ہر میدان میں عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے تو اس میدان میں ہم کیوں ایک فورم پر اکٹھے نہیں ہو رہے۔ عورتوں کا جنسی استحصال بھی ہو رہا ہے اور مردوں کا بھی۔ طریقہ واردات جسمانی ساخت کے فرق کی وجہ سے مختلف ہوتا ہے، بس اور کچھ نہیں۔ مردوں کو اگر ہم خود کو کنٹرول میں رہنے کا کہ دیتے ہیں تو عورت کو بھی کہا جانا چاہیے۔ اگر جنسی طلب جبری طور پر پوری کرنے والا مرد گدھ ہے تو اس قماش کی عورت بھی مردار خور ہی کہلائی جانی چاہیے۔

نفسانی خواہش کے حصول کے لئے کسی کا استحصال کرنا، چاہے وہ میاں بیوی ہوں، عاشق معشوق ہوں یا اجنبی، بالکل ناقابل برداشت ہے۔ یہ استحصال مرد یا عورت دونوں کی طرف سے ناقابل قبول ہے۔ ہاں باہمی رضا مندی سے محبتوں کو پروان چڑھائیں اور نبھائیں۔ میں عشق کے حق میں ہوں یہ ایک مثبت جذبہ ہے۔ اگر اعتدال میں رہے۔

ہم آدم کی اولاد ہیں۔ جنّت سے تو نکالے جا ہی چکے ہیں۔ اب اگر زمین نے بھی ہمیں قبول نہ کیا تو پاتال میں اتریں گے۔ ذرا نفسانی خواھشات پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ تب تک ہم کوئی حل ڈھونڈ تے ہیں۔ چلیں، اویس صاحب مل کر چلتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).