ایک رخصت ہوتے ہوئے سینٹر کی تنبیہ۔ کیا کوئی توجہ دے گا؟


پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ترجمان، سینٹر فرحت اللہ بابر نے اپنی الوداعی تقریر میں کچھ تاریخ ساز جملے ادا کیے۔ یہ جملے پاکستان کی غیر فعال جمہوریت کے تلخ حقائق کی عکاسی کرتے ہیں۔ اُنھوں نے جو کچھ کہا وہ کوئی راز نہیں تھا۔ زیادہ ترلوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں۔ تاہم پارلیمان کے فلور پر بہت کم نمائندے یہ بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسٹر بابر کی یہ تاریخی تقریر نہ صرف یاد رکھی جائے گی بلکہ مورخین یہ نکتہ اٹھاتے رہیں گے۔

اگرچہ فرحت اللہ بابر کا گزشتہ ہفتے کا سینٹ میں خطاب حالیہ پیش رفت پر تبصرہ تھا، لیکن اس کا موضوع نیا نہیں ہے۔ یہ ناقص گورننس کا باعث بننے والے اُن طویل، دیرنیہ اور حل طلب مسائل کا احاطہ کرتا ہے جو پاکستان کی جمہوریت اور وفاقی ڈھانچے کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی سے لے کر بنیادی سروسز کی فراہمی تک، ریاست عوامی مفاد کو مدِ نظررکھنے سے قاصر ہے۔ اس کی بجائے محدود گروہی مفاد دامن گیر رہتا ہے۔

فرحت اللہ بابر کا پہلا پیغام واضح تھا: من پسند احتساب کام نہیں دے گا۔ آج کل سیاست دانوں کی جواب طلبی عوامی گفتگو کا غالب حصہ ہے۔ عدالتی فعالیت کا رخ بھی اسی جانب ہے۔ میڈیا کا غالب حصہ بوجوہ عوام کی درست راہنمائی نہیں کرپارہا۔ اس کی وجہ سے احتساب کا عمل ابہام کا شکار ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی” سیاست دانوں کے احتساب‘‘ کی آڑ میں ملک کے جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے۔ جنرل ایوب خان نے 1950 ء کی دہائی میں نعرہ بلند کیا کہ وہ سیاسی نظام کا گند صاف کردیں گے۔ اس دور میں قوانین بنائے گئے جو سیاست دانوں کو ”نا اہل ‘‘ قرار دے کر سیاسی اکھاڑے سے باہر کردیتے تھے۔ تمام فوجی آمروں نے یہی راستہ اختیار کیا۔ اس کے بعد 1990 ء کی دہائی کی سولین حکومتوں نے خود اس ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔

احتساب کی تمام ترنعرہ زنی کے باوجود ہم بدعنوانی سے نمٹنے سے قاصر رہے، اور یہ ہماری سماجی اورسیاسی زندگی کا ایک معمول بنتی گئی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ کچھ ریاستی اداروں، جیسا فوج اور عدلیہ(اور کسی حد تک سول بیوروکریسی) کا خود کو بامعانی احتساب کے دائرے سے باہر رکھنے کا اعلان تھا۔ سینٹر بابر کامدعا یہ تھا کہ غیر منتخب شدہ ادارے بھی احتساب کی چھلنی میں سے گزریں۔ لیکن اُن کی اپنی سیاسی جماعت، جو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل کرنے کی کوشش میں ہے، نے اس خیال کو مسترد کردیا۔ ہماری تاریخ سے حاصل ہونے والا سبق یہ ہے کہ جزوی اور من پسند احتساب نتائج نہیں دیتا ہے۔

فرحت اللہ بابر کا دوسرا پیغام ہر کسی کو یہ یاددہانی کراتا ہے کہ پاکستان کا آئین پارلیمان کی بالا دستی کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم 2009 ء میں عدلیہ کی بحالی کے بعد سے اعلیٰ عدلیہ نے ”عوامی مفاد ‘‘ کا بے حد خیال کرنا شروع کردیا ہے۔ کچھ ججوں کے فیصلوں سے ایسا تاثر ابھرنے لگا جیسے وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔ عدلیہ کی آزادی کے جذباتی نعرے نے اس بات کو یقینی بنایا لیا کہ اُن کے ادارے کے مفادات تک کسی احتساب کی آنچ نہ پہنچے۔ مثال کے طور پر اٹھارویں ترمیم کے کچھ حصوں کو سپریم کورٹ نے پارلیمان کی غلطی قرار دے کر ختم کردیا۔ حال ہی میں پارٹی کی قیادت کے ایشو ر کی گئی قانون سازی پر بھی سپریم کورٹ نے لکیر پھیر دی۔ یہ فیصلہ شہری کے سیاسی حق پر قدغن لگاتا ہے۔ جب عدالتیں سیاسی عمل کو محدود کرنا شروع کردیں تو اس سے ایک خطرناک اشارہ ملتا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے ”عدلیہ کے سیاست میں مداخلت کرنے سیاسی کھیل میں شریک ہونے‘‘ کے تاثر پر بھی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ 2018 ء کی عدلیہ کسی بھی سابق دور کی عدلیہ سے زیادہ آزاد اور خود مختار ہے، لیکن اس کے نواز شریف کے بارے میں دیے گئے حالیہ فیصلے متنازع ہوگئے ہیں۔ اگر فاضل جج صاحبان فیصلے کرنے میں آزاد ہیں تو بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عدلیہ کا کردار افسوس ناک رہا ہے۔ ایوب خان، ضیا اور مشرف کے مارشل لا کی توثیق کرنے سے لے کر عدلیہ نے پاکستان کی جمہوریت اور سماجی کے ارتقائی عمل کے راستے میں رکاؤ ٹ ڈالی۔

اس ضمن میں اصغر خان کیس کی مثال لے لیں۔ اس کیس میں واضح ثبوت موجود تھا کہ اُس وقت کی اسٹبلشمنٹ نے انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے سیاسی انجینئرنگ کی تھی لیکن عدالت نے کسی سے جواب طلبی نہ کی۔ دوسری طرف نواز شریف کے خلاف فیصلوں کے لیے چھے ماہ کا وقت دیا گیا، اوراس کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے، حالانکہ یہ بات سپریم کورٹ کے منصب سے لگا نہیں کھاتی۔ اس حوالے سے وسیع تر ایشو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا وقار داؤ پر لگ چکا ہے۔ اگر یہ سیاسی کھلاڑی بن گئی تو اس دلدل میں قدم رکھنے والا دامن اجلا نہیں رہتا۔ اس وقت ”پی ایم ایل (ن) بمقابل عدلیہ ‘‘ کا تاثر گہر ا ہوتا جارہا ہے۔ سیاست دان تو کیچڑ اچھالنے اور کے کھیل کے عادی ہوتے ہیں۔ عدلیہ کو اس راہ سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ محترم چیف جسٹس آف پاکستان عوامی تقاریر میں عدالت کے فیصلوں کا دفاع کررہے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی صورتِ حال ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر سیاست دانوں کی عدلیہ پر تنقید غلط ہے، تو عدلیہ کی سیاسی عمل میں مداخلت بھی درست نہیں۔

فرحت اللہ بابر کی چوتھی تنبیہ یہ تھی اس بات کا تعین ضروری ہے کہ ملک پر دراصل حکومت کس نے کرنی ہے۔ یہاں بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ حکومت میں کون ہوتا ہے اور اصل میں حکومت کون کرتا ہے۔ ماضی میں تو درپردہ حسن انتظام چلتا رہتا تھا۔ لیکن موجودہ دور میں پی ایم ایل (ن) کی مبازرت نے ایسا کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ مثال کے طور گزشتہ نومبر میں بریلوی مسلک کے علما کے احتجاج اور دھرنے کومنتشر میں حکومت وقت قاصر تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مقتدرہ ”اپنے لوگوں ‘‘ کے خلاف کارروائی سے گریزاں تھی۔ آخرکار ایک سینئر جنرل نے آگے بڑھ کر حکومت اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان کوئی معاہدہ لکھا۔ یہ طرز عمل پارلیمانی جمہوریت اور سولین اداروں کو کمزور کرتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ آئین کے مطابق وہ قانون کے نفاذ کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے۔ دس سالہ جمہوری دور کے بعد یہ حالت یقیناًتشویش ناک ہے۔ مسٹر بابر نے اسی تشویش کو الفاظ دیے تھے۔

آخری بات، فرحت اللہ بابر نے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ مرکز صوبوں کو اختیارات کی منتقلی میں تاخیری حربوں سے کام لے رہا ہے۔ اُنھوں نے خبردار کیا کہ اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ اور صوبائی خود مختاری کو پہنچنے والی زک ملک کے تباہ کن ثابت ہوگی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”چھوٹے صوبے قومی اسمبلی میں یکساں حصے کا مطالبہ کرسکتے ہیں، جس طرح سقوط ڈھاکہ سے پہلے مشرقی پاکستان نے برابری کا مطالبہ کیا تھا۔ ہمیں پاکستان کو تحفظ دیناہے، اور یہ کام پارلیمان کا ہے۔ ‘‘پاکستان کا سب سے بڑا سانحہ اور جسے کمال بے حسی سے بھلا دیا گیا، وہ 1971 ء سقوط ڈھاکہ ہے۔ یہ اکثریت کے حقوق کی محرومی سے کا نتیجہ تھا۔ موجودہ دور میں بھی پی ایم ایل (ن) کی حکومت میں بلوچستان کے معاملات میں مقتدرہ کی مداخلت تشویش ناک ہے۔

اس وقت جب کہ ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، سیاسی طبقہ تقسیم ہے۔ میڈیا، عدلیہ اور مقتدرہ کی کاوش کا شکریہ، کہ سیاست دانوں کی ساکھ ختم ہوتی جارہی ہے۔ سینٹ کے انتخابا ت میں کی جانے والی ہارس ٹریڈنگ، اور پی پی پی اور پی ٹی آئی کی اسٹبلشمنٹ کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کی کوشش 1990 ء کی دہائی کی سیاست کی یاد دلاتی ہے۔ اورہم سب جانتے ہیں کہ وہ ہنگامہ خیز عشرہ کس انجام سے دوچار ہوا۔ اگرچہ اس وقت براہِ راست فوجی شب خون کا خطرہ نہیں ہے، لیکن شب خون کے کچھ ”چوردروازے ‘‘ موجود ہیں۔ اور اس وقت یہ دریچے بے صدا نہیں رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).