قراقرم ہائی وے۔۔حرامی پتھر گرتے ہیں!
حالیہ بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے باعث قراقرم ہائی وے جگہ جگہ سے بند ہے۔
تارڑ صاحب کے ایک سفر نامہ میں ایک مقامی گائیڈ اپنے جملوں میں جگہ جگہ لفظ حرامی ٹانکتا تھا۔
تارڑ صاحب کسی ٹریک کا پوچھتے تو کہتا ، ’’ دفع کریں صاحب ادھر کیوں جاتا ہے وہاں خطرہ ہے اوپر سے حرامی مارخور پتھر گراتا ہے‘‘
تارڑ صاحب کسی چراگاہ کا پوچھتے تو کہتا ، ’’چھوڑو صاحب میں مخول نہیں کرتا ادھرکچھ نہیں ہے بس چند حرامی پھول کھلتا ہے اور ایک حرامی آبشار ہے ‘‘
کچھ ایسی صورتحال ان دنوں قراقرم ہائی وے کو درپیش ہے ۔ بدترین لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے اور اتنی بد ترین لینڈ سلائیڈنگ کافی عرصہ کے بعد ہوئی ہے۔
بڑی مشکل سے اعتماد بحال ہوا تھا وگرنہ ابتدائی بیس سالوں میں قراقرم ہائی وے کی شہرت میں لینڈ سلائیڈنگ کا ذکر بھی زور و شور سے کیا جاتا رہا۔
تارڑ صاحب کے درجن سے زائد سفرناموں میں لینڈ سلائیڈنگ اسی وجہ سے بار بار در آتی ہے۔
لینڈ سلائیڈنگ سے سیاح ایک سنسنی کی سی کیفیت سے گزرتے تھے،
راہ چلتا ہر ٹرک ، مخالف آنے والے ٹرک کو سڑک پر رک کر صورتحال سے آگاہ کرتا تھا۔
مشہور لینڈ سلائیڈنگ ایریاز جیسے تتہ پانی وغیرہ زبان زد عام تھے کہ بارش کے چند قطروں یا ہلکی ہوا سے بھی پتھروں کا انبار چلا آتا تھا۔
ہر ٹرک والے کے پاس ایک خیمہ، چولہا، کھانے پینے کا بنیادی سامان دالیں اور تیل وغیرہ ہوتا تھا۔ قراقرم ہائی وے پر لینڈ سلائیڈنگ اگر آگے اور پیچھے ہو جائے تو آپ قید ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ٹرک والے تیاری رکھتے تھے۔ اب کچھ عرصہ سے ٹرک والے غفلت برت رہے تھے کہ لینڈ سلائیڈنگ قدرے کم ہو گئی تھی۔
قراقرم ہائی وے کا شمار دنیا کے میگا سٹرکچر میں نہیں بلکہ سپر میگا سٹرکچر میں آتا ہے۔ یہاں تک کہ مصری تہذیب کے بعد حضرت انسان کی سب سے بڑی کاوش کہی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اس طرح کی باتوں پر الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک تعمیراتی شاہکار موجود ہے تو قراقرم ہائی وے کو اتنی پذیرائی کیوں ملتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کسی ایک سو بیس منزلہ عمارت سے اس کا موازنہ کر نا جاہلیت ہے ۔ عمارتیں اور ڈیم وغیرہ Calculated Engineering کا شاہکار ہوتی ہیں۔ قراقرم ہائی وے کی تعمیر میں ہزاروں ٹن بارود استعمال کیا گیا۔ ایک ہزار کے لگ بھگ پاکستانی اور چینی صرف دوران تعمیر شہید ہوئے۔ کیلکولیشن مشکل تھی۔ جہاں آپ ڈائنامائیٹ لگا رہے ہیں وہاں آپ پیش گوئی نہیں کر سکتے کہ پھٹنے کے بعد اوپر سے کتنا پتھر آتا ہے ۔ ڈائنامائیٹ کا استعمال جب اتنا زیادہ ہو تو کئی دفعہ ٹائمنگ غلط ہو جاتی ہے۔
بلاسٹنگ کے نتیجے میں گرنے والی چٹانوں کا اندازہ بذات خود ایک ورلڈ ریکارڈ ہے ۔ تعمیر کے دوران تین کروڑ کیوبک میٹر کی چٹانیں گریں ۔ اسی ہزار ٹن سیمنٹ استعمال ہوا۔
اس کو آٹھواں عجوبہ ماننے کے لیے ایک اور بہت پر اثر پیمانہ ہے۔ بطور سیاحتی گائیڈ میرا یہ تجربہ کہ سیاح سب کچھ for granted لیتے ہیں۔ میں عموما کوسٹر کو کسی جگہ کھڑا کر کہ سیاحوں سے پوچھتا تھا کہ دریا کے اس طرف تو قراقرم ہائی وے ہے جس پر آپ چل رہے ہیں لیکن دریا کی دوسری جانب جو پہاڑ ہیں اگر آپ کو کہا جائے کہ یہاں سے سڑک نکالنی ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کیا یہ ممکن ہے؟ سیاح کانوں کو ہاتھ لگاتے کہ بھلا ان مہیب چٹانوں کا کیا جا سکتا ہے۔ چلیں ایک دو کلو میٹر کی بات اور ہے لیکن آٹھ سو کلومیٹر سڑک نکالنا ممکن ہی نہیں ہے۔ قراقرم ہائی وے کے ابتدائی سروے میں کچھ امریکی بھی تھے جنہوں نے اس کو ناممکن کہا تھا۔ اور ان کی دلیل بد نیتی پر مبنی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اول تو دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں سے سڑک نکالنا ناممکن ہے لیکن فرض کریں نکال لی تو اس کو برقرار رکھنا بالکل ناممکن ہے ۔ سڑک نکالنے کے لیے ہزاروں ٹن بارود سے بلاسٹنگ کرنی پڑے گی۔ اس بلاسٹنک کے نتیجے میں اوپر پہاڑ کا پتھر ہل جائے گا اور بارشوں اور زلزلوں سے نیچے آنے کے بہانے ڈھونڈتا رہے گا۔ اس طرح کے ہلے ہوئے پتھر کو نیچے آنے میں ایک صدی سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔
خیر پاکستان اور چین نے فیصلہ کیا کہ یہ سڑک بنائیں گے، پاکستان نے سوچا کہ اتنے بڑے پروجیکٹ کو بنانے کے لیے ایک مکمل علیحدہ سے ادارہ بنانا ضروری ہے۔ اور شاید اب کم لوگ جانتے ہیں کہ جس ادارے کی تشکیل کی گئی اس کا نام ایف ڈبلیو او رکھا گیا یعنی فرنٹئر ورکس آرگنائزیشن۔ اس ادارے کا مرکزی دفتر گلگت میں رکھا گیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایف ڈبلیو او قراقرم ہائی وے کی خالق ہے اور قراقرم ہائی وے ، ایف ڈبلیو او کی خالق ہے۔
خیر قراقرم ہائی وے بنی بھی اور پاکستانیوں نے اس کو برقرار بھی رکھا۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ دنیا نے اس کو آٹھواں عجوبہ کہا لیکن عام پاکستانی اس سے کم ہی واقف ہیں۔
قراقرم ہائی وے کے حوالے سے بین الاقوامی ماہرین کی باتیں آج بھی نقل کی جاتی ہیں ، مثال کے طور پر، پاکستان کا شمار دنیا کے امیر ممالک میں ہو سکتا ہے اس کے پاس ایک ایسی سڑک ہے جس کو سیاحتی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جائے تو اس ملک کے سارے قرضے اتر سکتے ہیں ۔
یا دنیا کے سب سے عظیم کوہ پیما میسنر جس نے بغیر اضافی آکسیجن استعمال کیے دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیاں سر کیں، نے کہا تھا کہ میں سوچتا تھا کہ کسی دن اگر میرے بیٹے نے پوچھا کہ جب خدا نے دنیا بنائی تھی تو کیسی تھی؟ قراقرم ہائی وے دیکھنے کے بعد اطمینان ہوا کہ میں اس کو پاکستان لے آؤں گا، سوست اور خنجراب کے درمیان لا کھڑا کروں گا اور کہوں گا کہ جب خدا نے دنیا بنائی تھی تو ایسی تھی۔
قراقرم ہائی وے پر پھر حرامی پتھر گرتے ہیں۔ ٹرک والے اب اگلے چند برس کے لیے محتاط ہو جائیں گے۔ پنڈی سے گلگت یا سکردو نکلتے ہوئے خیمہ ، چولہا اور بنیادی کھانے کا سامان رکھنا نہیں بھولیں گے۔
- میری تمام تعارفی شناختیں، پکارتے مظلوم کے پاؤں کی مٹی برابر ہیں - 08/07/2023
- موسم گرما سے محبت کے لیے البرٹ کامیو کے تین مشورے - 25/06/2023
- شاہ کو خبر ہو، تنی رسی پر چلتا کسان گر گیا ہے - 29/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).