ایک حسینہ تھی ایک گدھا تھا اور رومان تھا


غیر کی باتوں پر دھیان لگانا انتہائی معیوب بات ہے؛ کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے، کہ ان چاہے بھی آپ بچ نہیں پاتے؛ جیسا کہ رکشوں، موٹرسائکلوں، کاروں کے سائیلنسر کی پھٹی ہوئی ڈھولکی کی آواز سے بچ کر جایا جائے تو کہاں جایا جائے!؟

”تم اپنے سینے کا تِل ہر ایک کو دکھاسکتی ہو؟ نہیں ناں“؟ اُس نے اپنے تئیں سرگوشی کی، لیکن آواز میرے کانوں سے آ ٹکرائی۔

میں نے کنکھیوں سے اُدھر دیکھا، اس کے مقابل بیٹھی گل نار کے رُخ سار دہک رہے تھے۔ میں اسلام آباد کے ایک اوپن ایئر ریستوران میں بیٹھا، اپنے ایک دوست کا انتظار کررہا تھا۔ یہ توتا مینا کی جوڑی میرے بائیں ہاتھ کی میز پر چونچ لڑا رہی تھی۔

”بہت بے شرم ہو، تم“!
”ارے؟ ایسا کیا؟ میں اپنے پیٹ کا تِل سب کو دکھاسکتا ہوں“۔
وہ صورت سے بھی گاودی معلوم ہوتا تھا۔ نازنین ایسی احمقانہ منطق سن کر متحیر رہ گئی۔
”اس لیے کہ تم مرد ہو، اور میں عورت؛ میں اپنا گریبان نہیں پھاڑسکتی۔ سمجھے“؟
آپ تسلیم کیجیے کہ حسن و دانائی یک جا بھی ہوسکتے ہیں۔
”تو ہم اس بات پر متفق ہیں، کہ مرد اور عورت میں کچھ فرق ہے“!؟
یہاں میں اقرار کرتا چلوں، کہ مہ جبینوں سے مناظرہ کرنے والے مجھے زہر لگتے ہیں۔

”لیکن بات مساوات کی ہورہی ہے۔ عورت اور مرد میں مساوات ہونی چاہیے“۔ ماہ رُخ اسے نکتے پر لائی۔
اُس نے تائید کی، ”اس بات سے کون انکار کرتا ہے، لیکن مرد اور عورت، دونوں پر مساوات کا ایک ہی فارمولا صادق نہیں آتا۔ کیوں کہ یہ دو الگ اصناف ہیں“۔
یہ سن کے مجھے یاد آیا، کہ اُلو کو مغرب میں فلاسفر سمجھا جاتا ہے۔

”تم مرد ایسے بودی دلیلوں سے ہم عورتوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے“۔ پری وَش کی لہجے میں چڑچڑاہٹ کے آثار نمایاں تھے۔
”چلو! بودی دلیل سہی، مگر عورت کو بے وقوف بنانے کا الزام مردوں پر تو مت لگاو“۔
یہاں مجھے یاد آیا کہ ایک دانا نے یہ بھی کہا تھا، ہر شوہر چوہا نہیں ہوتا۔

”تم سمجھتے ہو، عورت ناقص العقل ہے؛ مکار ہے؛ پیٹ کی ہلکی ہے“!
اُس خوش گلو کا جلال دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوں، کہ ہر حسین عورت غصے میں اور بھی حسین لگتی ہے۔

”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا“۔ مفتوح نے تردید کی۔
”کہا نہیں؛ لیکن سمجھتے تو یہی ہو، ناں“!
اس لمحے مجھے ایک بزرگ یاد آئے، ان کا قول ہے، عورت جب منوانے پر آئے، تو منوا کے دم لیتی ہے۔

وہ تھوڑا ہچکچایا۔ ”میں تمھارے اس کہے پر اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں“۔
”رائے محفوظ رکھنے کا بہانہ ہے؛ دل کی بات تم چھپا رہے ہو“۔ کافرہ کا بس چلتا تو اس کی گردن ناپ دیتی۔
”میری رائے سن کر بھی تمھیں میرا یقین نہیں آئے گا“۔ مسکین نے گویا ہار مان لی۔
قتالہ نے طنز کی دھار چلائی۔ ”کَہ دو! کَہ دو جو کہنا ہے۔ مجھے یقین ہے، تم کبھی اچھی بات کر ہی نہیں سکتے“۔
بسمل نے عاجزی سے کہا؛ ”میں عورت کو بے وقوف نہیں، ذہین سمجھتا ہوں“۔
”سیدھی طرح چالاک کہ دو۔ ذہین کہ کر تم مجھے بنارہے ہو“۔ ناری کے لہجے میں تپش تھی۔
”تم جیسے خوش، میں ویسے خوش۔ اگر تم عورت کو چالاک سمجھتی ہو، تو میں بھی یہی سمجھتا ہوں“۔
مضروب کی طرف سے محض ہاتھ جوڑنے کی کمی رہ گئی تھی۔

”دیکھا؟ کردی نہ آخر جاہلوں والی بات!؟ تمھاری نظر میں عورت چالاک ہے؛ تم پہلے بھی یہی کہنا چاہتے تھے“۔
اس دوران ایک سرد آہ کا توقف ہوا۔
”چلو! پھر سے سن لو؛ عورت، مرد سے افضل ہے۔ اس لیے برابری کا سوال ہی نہیں“۔
”یہ تم مجھے خوش کرنے کے لیے کہ رہے ہو، جب کہ تمھارا خیال کچھ اور ہے“۔
آپ میں سے کون ہے، جو کہتا ہو زمانے سے انصاف اٹھ گیا؛ منصفی ہو تو ایسی۔ ملزم ہنس دیا۔

”اچھا! یونھی سمجھ لو۔ اس سے ثابت ہوا، کہ مجھے تمھاری خوشی عزیز ہے۔ اب تم کہو، مجھے خوش کرنے کے لیے کیا کرسکتی ہو“؟
”بہت غلیظ سوچ ہے، تمھاری“۔ سنبل کے لبوں پر اک شگوفہ چٹخا۔ صید ششدر رہ گیا۔
”کیسے؟ میں نے ایسا کیا کہ دیا“؟
”بنو مت! میں جانتی ہوں، تم کہنا کیا چاہتے ہو“۔ صیاد سہی دِل رُبا جو ٹھیری۔
”میں نے جو کہا اس پریقین نہیں! اور میں کیا کہنا چاہتا ہوں، وہ تمھیں کیسے معلوم“؟
پری چہرہ سے کوئی نادان ہی اُلجھے۔ گدھا کیا جانے زعفران کی قدر۔

”تم سب مرد ایک سے ہو، ایک ہی بات سے مطلب ہے“!
”اوہ! اچھا“! غبی مدعا پاگیا تھا، لیکن پھر چوک گیا۔ ”عورت کو اس سے مطلب نہیں؟ کیا عورت کی خواہش نہیں ہوتی“؟
”تم پھر سے مجھے چکنی چپڑی میں الجھا دو گے۔ عورت کو رِجھانے کے سب طریقے، تم مردوں کو خوب آتے ہیں“۔
وہ بڑی کھسیانی ہنسی ہنسا۔ ”سنو! کہیں پڑھا تھا، گدھے گدھیوں کو رِجھانے کے لیے ان کے سامنے زمین پر لوٹیاں لگاتے ہیں“۔

”تم مرد گدھے ہی تو ہوتے ہو“۔ ہنٹر والی کا لہجہ ہنٹر مارنے والا تھا۔
”اے کاش! کاش عورتیں بھی گدھیاں ہوتیں، جو نر کے زمین پر لوٹیاں لگانے ہی پر راضی ہوجاتیں“۔ خر دماغ اسے مناتے مناتے تھوڑا اکھڑ سا گیا تھا۔
حسن آرا کے دانت موتیوں جیسے تھے، انھیں پیستے ہوئے بولی۔
”تم عورت کی توہین کررہے ہو“۔
”میں عورت کی عزت کرتا ہوں“۔ خر بس رونے ہی کو تھا۔
آپ کو بتاتا چلوں، ایک غیر سائنسی تحقیق کے مطابق گدھے بھی روتے ہیں۔

”یہ عزت ہے؟ عورت کے گدھی ہونے کی بات“؟
”تم نے بھی تو مرد کو گدھا کہا؛ تو کیا یہ مرد کی عزت ہوئی“؟
میرا جی چاہا گدھے کی بات پر زور زور سے ہنہناوں، لیکن میں اپنے آپ کو گدھا ثابت نہیں کرنا چاہتا تھا۔

”شکر کرو، گدھا ہی کہا ہے۔ میں کچھ اور بھی کہتی، لیکن اپنی زبان ناپاک نہیں کرنا چاہتی“۔
”چاہے مرد کی زبان ناپاک ہوجائے“۔ اس نے دولتی جھاڑی۔
”بہت بے شرم ہو، تم“۔
مجھ سے قسم لے لیں، مہ وشوں کی زیرِلب مسکان بھی دیکھنے لائق ہوتی ہے۔

”خدارا! میرا وہ مطلب نہیں تھا“۔ گدھا بوکھلا گیا۔
ایک سائنسی تحقیق ہے کہ گدھے ہی بوکھلاتے ہیں۔

”میں سب سمجھتی ہوں“۔ مہ لقا کی ناراضی ویسی کی ویسی تھی۔
”اچھا! چلو! میں ہی غلط ہوں؛ چھوڑو! کوئی اور بات کرتے ہیں“۔
”پہلے یہ بات اپنے انجام کو پہنچے، پھر“۔ من موہنی بضد ہوئی۔

گدھا اپنے سینگ نوچتے نوچتے رہ گیا۔ ”انجام ہو تو گیا!؟ عورت مرد سے افضل ہے۔ ہاں! انسان کی حیثیت سے مرد کے حقوق بھی عورت جتنے ہیں“۔
”نہیں! یوں کہو، عورت کے حقوق مرد جتنے ہیں“۔
گدھا گرے پہاڑ سے مرغی کے ٹوٹے کان۔

”ایک ہی بات ہے۔ یوں کہوں، یا ووں کہوں! انسان کی حیثیت سے مرد عورت کے حقوق یک ساں ہیں“۔
”یہ تم صرف مجھے خوش کرنے کے لیے کہ رہے ہو“۔
بدقسمتی سے تیسری دُنیا کے گدھے جمہوریت کے غلط مفہوم لیتے ہیں، اور آزادی اظہار رائے کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔ دراصل آمر کا قول ہی جمہوریت کا حسن ہے۔

”اچھا! مرد، عورت سے افضل ہے۔ اب خوش“؟ وہ ہنہنایا۔
”یہ بات“! کوئل یوں کوکی، جیوں چمن مہکا ہو۔ ”آخر تم مان ہی گئے! میں یہی تو کہ رہی تھی، تم مردوں کو عورتوں سے افضل سمجھتے ہو؛ ناقص العقل کہتے ہو۔ تم پہلے ہی مان جاتے تو مجھے اتنی بحث کیوں‌ کرنا پڑتی“۔
گدھا پانی پیے کھنگھول کے۔ غریب نے اپنے آنکھوں میں آئی نمی چھپانے کے لیے ماہ تاب سے منہ پھیرا؛ ایسے میں ہم دونوں کی نگاہیں ٹکرائیں؛ میں بوکھلا کے اُٹھ کھڑا ہوا، جیسے کوئی بھولا کام یاد آیا ہو۔

”تم جیسے کہو، میں ویسے مان لیتا ہوں“۔ مجھے جاتے ہوئے اپنے پیچھے گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں سنائی دی، اور اس کے جواب میں جیسے امن کی فاختہ بولی ہو۔
”ہنہ! اتنے تم اچھے! تم سے اک زرا سی بات منوانے کے لیے، مجھے دو گھنٹے لگ گئے“۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran