بھارت اور چین کی مسلم ممالک کی بندرگاہوں پر کشمکش


بھارت کے خطے میں عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ وہ اپنے ان عزائم کے حصول کی غرض سے بحیرہ ہند، بحیرہ عرب، خلیج فارس اور خلیج عدن میں اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے حصول کی غرض سے ایرانی بندرگاہ چابہار اور عمانی بندگاہ دقم اس کے مرکزی اہداف ہے۔ اور ان دونوں بندرگاہوں پر قابو پانے کے بعد اس کے لئے بہت ممکن ہو گا کہ وہ گوادر اور گوادر کے ذریعے بڑھتے ہوئے پاکستانی اور چینی اثر و نفوذ کا مقابلہ کر سکے۔ اور ان دونوں ممالک کی سرگرمیوں پر نظر گاڑے بیٹھا رہے۔

دقم پر بھارتی حکومت کا سلطنت عمان کے ساتھ ایم او یو اس ضمن میں تازہ ترین بھارتی سرگرمی بلکہ کامیابی ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کر لینا چاہیے کہ اس سے قبل اومان اور بھارت میں دفاعی نوعیت کے تعلقات نہیں تھے۔ بھارت چین سے مسابقت اور ان عرب ریاستوں میں کسی ممکنہ چینی اثر کو روکنے کی غرض سے ان ریاستوں سے گزشتہ کچھ عرصے سے تیزی سے اپنے تعلقات میں وسعت لا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بھارتی اثر کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اومان کو بھارت نے خاص طور پر اس لئے ہدف بنایا ہوا ہے کہ وہاں پر امریکہ، برطانیہ اور چین بھی اپنا اثر قائم رکھنے یا قائم کرنے کی غرض سے مصروف عمل ہے۔ اومان میں ایک حکمت عملی کے تحت بھارتی کمیونٹی کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ اومان مغربی ایشیاء میں بھارت کا سب سے پرانا دفاعی شراکت دار ہے۔ اور دفاع کے مختلف شعبہ جات میں بھارت سے تعاون کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ بحری اور فضائی مشقیں بار بار ہو چکی ہیں۔ اومان نے بھارتی نیوی کو دقم بندرگاہ پر اس امر کی اجازت دی ہے کہ اس کے بحری جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔ اور وہاں سے سمندری حفاظت کے نام پر خلیج عدن میں کارروائیاں کر سکتے ہیں۔

بھارت دقم کی بندرگاہ پر اپنا حتمی حق قائم کرنے کے ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ابھی ایم او یو پر دستخط ہوئے ہیں لیکن اگر بھارت ان معاملات کو حتمی حد تک لے گیا تو وہ بین الاقوامی تجارت کی مشرقی و مغربی سمندری راہداری پر نظر رکھنے کے قابل ہو جائے گا۔ اور بالخصوص یہاں سے چین اور پاکستان کی بحری سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے گا۔ انڈیا دفاعی نوعیت کے مفادات کے ساتھ ساتھ کاروباری معاملات بھی مغربی ایشیاء میں اس سے بڑھانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ کیونکہ دقم سے تجارتی مقاصد کے لئے ریلوے نیٹ ورک کو منسلک کیا جارہا ہے۔ جو کہ اس کو خلیج تعاون کونسل کے ممالک سے جوڑ دیگا۔ ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے بھارت نے نیشنل ڈیفنس کالج آف اومان اور انسٹیٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینالیسز سے معاہدے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت اومان کی دقم اور ایران کی چابہار بندرگاہ کے درمیان روابط بھی اپنی حکمت عملیوں کا حصہ بنا رہا ہے۔ کیونکہ ایران اور اومان کے تعلقات بھی بہت بہتر ہیں۔ اگر بھارت اس میں کامیاب ہو گیا تو دقم اور چابہار میں موجود رہ کر چین سے مسابقت کی حالت میں آ جائے گا۔

چابہار ایران کے صوبہ سیستان میں واقع ہے اور یہ ایران کی قدیم تاریخ کے زمانے سے تجارتی بندرگاہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن 1973؁ء سے اس کی تعمیر کا ایران نے باقاعدہ منصوبہ تیار کیا اور کام شروع کر دیا۔ لیکن مختلف وجوہات جن میں انقلاب کے بعد کے معاشی حالات اہم ترین عنصر ہیں کی بناء پر ایران تاحال اس کی مکمل تعمیر نہیں کر سکا ہے۔ یہ بحیرہ ہند تک رسائی رکھنے والی واحد ایرانی بندرگاہ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ امریکی ریاست فلوریڈا کی بندرگاہ میامی کی مانند طول پر واقع ہے اور اس کے موسمی حالات بھی بالکل ویسے ہی ہیں۔ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز اس کی تجارتی شہ رگیں ہیں۔ پھر عراق، ایران جنگ کے دوران ایران نے چابہار سے زاہدان، کرمان ریلوے ٹریک کا بہت بڑا منصوبہ بھی مکمل کیا تھا۔ بھارت کے لئے اس بندرگاہ تک رسائی کا مطلب یہ ہے کہ وہ افغانستان، وسطی ایشیاء، روس اور اس کے آگے تک تجارتی راستہ قائم کر لے گا۔

ایران چابہار کو اس لئے تعمیر کر رہا ہے کہ یہ کیسپین ریجن کو عرب کی بندرگاہوں تک پہنچنے کا مختصر راستہ ہے۔ یہی فائدہ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر سے پاکستان کو بھی حاصل ہو گا۔ پاکستان اور ایران میں مسابقت سینٹرل ایشین ریجن میں پہنچنے کی اس وقت ہو رہی ہے۔ لیکن بھارت صرف تجارتی مفاد کے لئے ہی چابہار تک آنا نہیں چاہتا بلکہ اگر اس کی بحریہ اگر وہاں آ موجود ہوئی تو ایسی صورت میں اس کے لئے باآسانی ممکن ہو گا کہ وہ چین اور پاکستان کی بحیرہ ہند اور خلیج میں بحری سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔

بھارت افغانستان اور ایران نے 2003؁ء میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس سہ فریقی معاہدے کی رو سے چابہار کو افغانستان کے سرحدی شہر دیلارام سے ملانا تھا۔ بھارت افغانستان میں دیلارام سے زرتاج کو جو افغانستان کے صوبہ نیمروز کا دارالحکومت ہے کو ملانے کی غرض سے ہائی وے 2009؁ء میں ہی تعمیر کر چکا ہے۔ اس طرح اس کا فغانستان کے راستے وسطی ایشیاء تک رسائی کا منصوبہ کم و بیش مکمل ہو چاہتا ہے۔

لیکن چابہار سے 72 کلو میٹر دور گوادر کے منصوبے کی تیزی سے تعمیر بھارت کے لئے ایک پریشانی کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ کیونکہ گوادر آبنائے ہرمز کے پاس ہے اور چین کو بحیرہ ہند میں آنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح چین کے لئے ممکن ہو گا کہ وہ امریکہ اور انڈیا کی خلیج فارس اور بحیرہ عرب میں بحری سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔ اور اس کی تعمیر پاکستان کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ وہ دنیا کی توانائی کی تجارت پر نظر رکھ سکے۔ بھارت کے سابق نیوی کے سربراہ سریش مہتہ نے کہا تھا کہ پاکستان گوادر کو دنیا کی توانائی کی تجارت پر قابو رکھنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔

چین کے لئے دلچسپی کا یہ بھی باعث ہے کہ اس وقت اس کو خلیج سے تیل کے ٹینکر 6000 نوٹیکل میل اور افریقہ سے 10000 نوٹیکل میل سے منگوانے پڑتے ہیں لیکن گوادر کی وجہ سے یہ خلیج سے 680 نوٹیکل میل اور افریقہ (انگولا) سے 3000 نوٹیکل میل کا فاصلہ رہ جائے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے چین گوادر سے کاشغر تک 1500 کلو میٹر کی پائپ لائن تعمیر کر رہا ہے جو قراقرم ہائی وے کے ساتھ ساتھ موجود ہو گی۔

اس وجہ سے چین کی خواہش ہے کہ خلیج فارس، بحیرہ عرب میں فوجی اعتبار سے اور تجارتی فوائد کی غرض سے جلد از جلد گوادر میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لے۔ اور مقابلے میں بھارت چابہار اور دقم کو استعمال کرنا چاہ رہا ہے۔ حالانکہ ابھی یہ معاملہ نسبتاً ابتدائی مراحل میں ہے اگر پاکستان بروقت متحرک ہو تو اس کے بد اثرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی سفیر اومان میں عرصہ دراز سے اپنی اسناد سفارت تک پیش نہیں کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).