جام ساقی، تجھ میں مٹی ملیر کی


سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیسے اور کہاں سے شروعات کروں!

آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور دل میں بے شمار جذبات اُمنڈ رہے ہیں!

ایسے محسوس ہورہا ہے میرا کارونجھر پہاڑ بکھر گیا ہے٬ میرے سر پر سے گھنی چھاؤں والا درخت کٹ چکا ہے٬ میرا ماتھا چومنے والے میرے پیارے بابا جا چکے ہیں۔

وہ جو برسوں سے ظلم و جبر کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے٬ جو کسی کرنل٬ جنرل سے نہیں ڈرتے تھے٬ جو جنرل ایوب٬ جنرل یحی خان٬ جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے آمریتوں کے سامنے نہیں جھکے تھے٬ آج موت کے سامنے ہتھیار کیسے ڈال دیے؟

میرا ہیرو٬ میری تحریروں کا ہیرو٬ آج بچھڑ گیا٬ میرا فخر٬ میرا تعارف٬ جیسے گم ہوگیا ہو۔

میں کتنی خوشقسمت بیٹی ہوں٬ جو میں نے آپ جیسے انقلابی کے گھر میں جنم لیا۔ کہ آپ نے مجھے اتنا خوبصورت نام دیا بختاور٬ اپنی ثقافت اور دھرتی کی خوشبو اور بہادری کی علامت والا نام،

آپ کو میں نے پہلی بار جب تھوڑی سمجھ والی عمر میں دیکھا تو آپ جیل کی سلاخوں میں قید تھے بابا!

1975  میں جب میں نے حیدرآباد کے پکے قلعے والے ایک کمرے کے مکان میں جنم لیا٬ تو آپ مسلسل روپوش اور جدوجہد میں مصروف تھے۔ 10  د سمبر 1978ء میں جب آپ کو ایجنسیوں نے غائب کردیا تھا اور آپ 18 مہیںے تک مسلسل ان کے عتاب کا شکار تھے اور ہمارا خاندان خاص طور پر میری ماں سکھاں مجھے اور بھائی سجاد ظہیر کو گود میں لے کر آپ کے لئے بیحد فکرمند اور ذہنی عذاب میں مبتلا تھی٬ اس کے پاس سوئی ہوئی میری چھوٹی بہن زبیدہ کیسے انتقال کر گئی٬ اس کو ہوش ہی نہ رہا یا وہ کچھ کر نہ سکی۔ ان دنوں ہم کامریڈ اعزاز نذیر کے گھر میں رکے ہوئے تھے اور بابا آپ روپوش تھے۔

میں نے تو آپ سے کبھی پوچھا ہی نہیں کہ آپ تب کہاں تھے؟ ہم نے تو کبھی ذاتی دکھوں کو اہمیت ہی نہیں دی۔

اپنے آدرشی بابا سے کیسے پوچھتی؟ کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں ان کو اماں کو کھونے کا ذمہ دار سمجھتی ہوں٬ یا یہ سمجھتی ہوں کہ ان کے اپنے وطن اور لوگوں سے عشق کے رستے میں میری ماں نے تکلیفوں میں آکر اپنے آپ کو ختم کردیا٬ وہ میری ماں تو بعد میں تھی، پہلے تو ان کی پیاری رفیق حیات تھیں٬ سو میں کیسے اپنے بابا سے اس طرح کے سوال کرتی؟ شاید میرے لاشعور میں کچھ اس طرح سے تھا۔

پھر آپ کی 10 دسمبر 1978 والی گرفتاری کے بعد دادی٬ مجھے٬ بھائی سجاد اور اماں کو گاوں لے کر گئیں٬ جہاں اماں نے آپ کے متعلق افواہیں سن کر (کہ آپ کو شاید ٹارچر کر کے مار دیا گیا ہے) سخت ذہنی دباو میں آکر کنویں میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا دیا بجھا دیا۔ جو مجھے ایک جھلکی کی طرح تھوڑا تھوڑا یاد ہے٬ تب میں تین برس کی تھی۔

پھر ہمیشہ ہم لوگ اپنے گاوں جنجھی تھر سے آپ کو ملنے جیل آیا کرتے تھے۔

جب ہم جیل کے ملاقات والے کمرے میں آپ کا انتظار کر رہے تھے ٬ بابا پہلے آپ کی خوبصورت گونجدار آواز جیل کی دیوار اور برامدوں میں سے گونجتی سنائی دیتی تھی اور پہر آپ کے قہقہے جیسے زندانوں کا مذاق اڑاتے ہوا میں گونجتے تھے! کہ دیکھو اے ظالم حکمرانو! انسانیت کے دشمنو! مجھے تمہاری قید کی رتی برابر بھی پروا نہیں ہے۔

آپ شیر کی طرح گرجتے٬ مسکراتے٬ آ کر ہم سے ملتے تھے٬ میں نے چھوٹی ہونے اور ببیٹی ہونے کے کتنے فائدے اٹھائے نا بابا۔ پہلے گلے سے میں لگتی٬ چومتے بھی مجھے پھر دادا٬ دادی کے پیروں پے ہاتھ رکھتے اور سجاد بھائی کو گلے لگاتے تھے۔

میں پھر آپ پر زیادہ حق جتاتے ہوئے آپ کی پیٹھ پر چڑھ جاتی اور آپ کے شیر کے ہاتھوں جیسے مضبوط ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر پوچھتی تھی آپ گھر کب چلو گے بابا؟ آپ ہنس کر کہتے٬ جب (زیان خور) ضیا الحق چھٹی دے گا۔

پھر میں نے گاوں میں جا کر دوسرے بچوں کو بھی بتایا کہ میرے بابا کو ضیاالحق نے قید کیا ہے٬ اگر ضیا الحق مر جائے نا میں مٹھائی بانٹوں گی!

جب گاوں سے ملاقات کے لئے نکلتے تھی تو رات کو خوشی کی مارے نیند ہی نہیں آتی تھی کہ کل بابا سے ملاقات کے لئے جارہے ہیں۔

آپ سے حیدرآباد سینٹرل جیل٬ کراچی لانڈھی جیل٬ سکھر جیل اور ملٹری کورٹ کراچی میں ملاقاتیں ہوتی تھیں٬ ان دنوں آپ کے ساتھ جام ساقی کیس کے سارے ساتھی بھی ملٹری کورٹ میں پیش کیے جاتے تھے٬ جن میں شبیر شر٬ سہیل سانگی٬ بدر ابڑو٬ کمال وارثی٬ امر لال اور جمال نقوی شمال تھے۔

مجھے یاد ہے ان دنوں تھر میں روڈ بھی نہیں تھے٬ چھکڑا گاڑی میں سارا دن سفر کرکے ہم لوگ شام آ کر عمرکوٹ یا کنری شہر پہنچتے تھے٬ دوسرے دن صح کو پھر ہم لوگ حیدرآباد٬ کراچی یا سکھر جہاں آپ ہوتے تھے٬ وہاں بس یا ریل گاڑی کے ذریعے سفر کرکے پہنچتے تھے۔ ایک یا پھر کبھی دو ملاقات کرکے پھر واپس گاوں جایا کرتے تھے۔

عمرکوٹ میں کچھ رشتے دار تھے٬ ان کے گھر اور میرپورخاص میں بابا آپ کے کلاس فیلو٬ آپ کے دوست ڈ اکٹر پردھان سوٹاڑ کے گھر رہتے تھے اور حیدرآباد میں گلزار بڑدی کے گھر مہمان بنتے تھے٬ جہاں اماں اور آپ پہلے کرائے دار تھے٬ اسی گہر میں جہاں میرا جنم ہوا تھا!

1986  میں آپ کو ملک دشمنی یا غداری کا کوئی کیس ثابت نہ ہونے پر آزاد کیا گیا تھا٬ سندھ اور پورے پاکستان میں آپ کو استقبالیے دیے گئے تھے بابا!

آپ نعروں کی گونج میں گاوں آئے تھے٬ لوگوں کا سمندر امنڈ پڑا تھا!

میری پھپھیوں اور خالائوں اور دوسری رشتے دار عورتوں نے تھری لوک گیت گا کر آپ کا استقبال کیا تھا۔

آپ گاوں کے ہر چھوٹے بڑے سے اٹھ کر گلے لگ کر مل رہے تھے٬ بوڑھے٬ بچے٬ عورتیں اور مرد ہر کوئی بڑے اشتیاق سے آپ سے مل رہا تھا۔

آپ گھر پے بتائے بنا اماں سکھاں کی قبر پر گئے تھے تا کہ مجھے اور بھائی سجاد کو دکھ نہ ہو!

آپ نے کچھ دن گاوں میں رہنے کے بعد پھر اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔

1987  میں آپ نے امی اختر سلطانہ سے شادی کی تھی٬ آپ نے پوچھا تھا کہ آپ لوگ ان کو کیا بلاو گے؟

میں نے ایک دم کہا تھا امی۔۔۔

پھر 1988 میں ہم نے آپ کے ساتھ رہنا شروع کیا تھا۔ بابا آپ صبح سویرے اٹھنے کے عادی تھے٬ آپ خود ہی اٹھ کر چائے بناتے تھے٬ میں اور آپ ناشتا کرتے ان دنوں میں میرا اسکول ہیرآباد میں پڑھا کرتی تھی۔

آپ کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی ہم آپ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ ساتھی بار سنگت (بچوں کی تنظیم) میں تو ہم گاوں سے ہی کام کیا کرتے تھے٬ ہم نے وہاں لائبرری بھی بنائی تھی٬ یہاں آکر اکثر کامریڈ دوستوں سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ہم مظاہروں٬ جلسوں اور میٹنگز میں شریک ہوتے تھے۔

ہمارا حیدرآباد کے علاقے کالی موری والا چھوٹا سا فلیٹ ہر وقت لوگوں اور کتابوں سے بھرا رہتا تھا۔ انہی دنوں پتا چلا تھا کہ آپ کے کچھ ساتھی اور آپ کے درمیاں کچھ اختلافات ہوئے تھے اور سویت یونین کے ٹوٹنے سے شاید آپ کو تھوڑا کمزور کیا تھا۔ آپ نے کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑا تھا۔ پر آپ نے اپنے عوام اور وطن سے محبت نہیں چھوڑی تھی٬ اس لیے تو آپ نے ملک اور سندھ میں امن کے لئے سندھ اور پنجاب کے بارڈ ر کموں شہید سے کراچی تک پیدل مارچ شروع کیا اور ہر شہر ہر گاوں ہر بستی آپ کو بہت محبتیں اور پیار ملا۔ ہمارا خاندان اور میں بھی کچھ وقت اس سفر میں شامل ہوئے تھے۔ میں نے پہلی بار ہالا شہر میں بہت بڑے جلسے میں تب ہی خطاب کیا تھا٬ حد نظر تک لوگ ہی لوگ تھے!

آپ کے پیر زخمی ہو چکے تھی٬ رات کو کامریڈ دوست ان پر ہلدی اور تیل لگاتے تھے اور صبح کو پھر سفر شروع ہو جاتا تھا۔

جو چند ایک لوگ آپ پر منفی تنقید کے تیر برسا رہے تھے۔ ان کو آپ کے زخمی پیر کیوں نہیں نظر آرہے تھے؟ جو ستی کی طرح وطن کی محبت میں زخمی تھے؟

بھلا رستا بدلنے سے منزل گم ہو جاتی ہے کیا؟

لوگوں کو پتا نہیں کیوں آپ کے جیل٬ قید تنہائی اور ٹارچر سیلوں میں جھیلے ہوئے عذاب یاد نہیں تھے!

پر بابا آپ کو تو ان منفی رویوں کی تل جتنی بھی پرواہ نہ تھی۔

آپ کو اپنے وطن اور اس کے مظلوم عوام سے بے لوث محبت تھی٬ آپ نے کہا تھا اگر سوہنی ایک میہار کے لئے جان دے سکتی ہے٬ تو میں اپنے ملک لاکھوں مظلوم لوگوں کے لئے خود کو کیوں نہیں مصیبت میں ڈ ال سکتا؟

اور بدلے میں آپ کچھ بھی نہیں چاہئے تھا٬ آپ کو میں نے کبھی اپنے عوام کے لئے یہ کہتے نہیں سنا کہ انہوں نے میری قدر نہ کی! بالکل بھی نہیں!

آپ نے اپنے لوگوں سے مظلوم عوام سے غیر مشروط محبت کی!

آپ نے سیاست کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ جب انشورنس کمپنی میں کام کیا تو بھی لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آئی اگر بھتا خوری کرتے تو شاید ان کا منہ بند رہتا۔

خیر۔۔۔ آپ دریا دل انسان تھے۔ ہمت برداشت اور رواداری کے حامل تھے۔ آپ نے کبھی تقریر اور تحریر میں ان منفی باتوں کا جواب نہ دیا۔

منفی تنقید کے تیر چلتے رہے٬ جن کی میں نے آج بھی سرگوشی سنی ہے پر کوئی بات نہیں ہم ان ہزاروں لوگوں کو دیکھیں گے جو آپ سے بیحد پیار کرتے ہیں٬ جو آپ کی جدوجہد کو مانتے ہیں۔

وہ چند منفی سوچ کے مالک کون ہوتے ہیں آپ پر انگلی اٹھانے والے جنہوں نے جیل اور ٹارچر سیل تو دور کی بات ہے کبھی لاک اپ بھی نہ دیکھا٬ وہ کون ہوتے ہیں آپ کی جدوجہد کا احتساب کرنے والے؟

جب محترمہ بینظیر بھٹو ہمارے گھر تشریف لائیں تو آپ ان کو انکار نہ کر سکے اور پی پی پی میں شامل ہوئے پر آپ جیسا سیدھا سادا آدمی پی پی پی میں اپنی کوئی جگہ بنا نہ پایا! پھر بھی آپ نے اپنا سفر جاری رکھا تھا٬ ہر ادبی٬ علمی سیاسی اور سماجی سرگرمی میں آپ پہلے مورچے پہ لڑتے رہے!

آپ کو انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے جرم میں ارباب رحیم اور جنرل مشرف نے بھی نہیں بخشا۔ لیکن سندھ اور پورے ملک کے ترقی پسند آپ کے ساتھ کھڑے تھے۔ میرے کارونجھر! اور ہم نے یہ بازی بھی جیت کر دکھائی تھی!

1993  والی بیماری کے بعد آپ 2013 کے آخر میں پھر بہت بیمار ہوئے تھی بابا٬ بیماریوں کا بھی آپ سے بیر تھا جیسا٬ بلڈ پریشر٬ سی وی ای اور اب دل کی تکلیف۔۔۔۔ پر آپ تو Born fighter تھے٬ تو ہر دفعہ بیماری جنرل سمجھ کر مقابلہ کرتے رے پر اس دفعہ آپ بہت کمزور ہو چکے تھے٬ میں ان دنوں اپنے بچپن کی یادیں لکھ رہی تھی۔ میں نے دوبارہ آپ کے جیل ڈائری اور فوجی کورٹ دیے ہوئے بیانوں پر مشتمل کتاب فتح آخر عوام کی ہوگی۔۔۔ میں آپ بیاں کی ہوئی یہ سطریں پڑہیں۔۔۔ تقریبا ایک بجے رات سے لیکر ڈ نڈے بازی شروع ہوئی٬ جو گالیوں اور جھگڑنے کے ساتھ اس وقت تک جاری رہی٬ جب تک ہماری فوج کے یہ سجیلے جوان تھک نہ گئے٬ میرے جسم سے خون رس رہا تھا اور سورج نکل رہا تھا!

میں آپ سے ملنے آپ کے پاس آئی (کیونکہ اب میری شادی ہو چکی تھی) میں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑا۔ اوپر لکھی ہوئی سطریں میرے ذہن میں گھومنے لگیں اور میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میں نے دوسری طرف منہ کر کے اپنے آنسو پونچے۔ وہی پالیسی کہ ایک دوسرے کو رو کر کمزور نہیں کرنا!

میں آپ کے گھر آتی تو آپ اکثر کہتے٬ آپا آئی ہے کیا؟ (چھوٹے بہن بھائی آپا کہتے ہیں تو وہ بھی آپا کہتے تھے) چھوٹی بہن سوہنی کو آواز دیتے تھے٬ آپا کے آنے کی خوشی میں چائے تو پلاو بیٹا!

آپ کی آنکھوں میں انتظار رہتا تھا٬ آپ کو وقت اور حالتوں نے ایک بار پھر جیسے قیدی بنا دیا تھا٬ اب آپ میرے فلیٹ کی چار منزلیں چڑھ کر میرے پاس نہیں آسکتے تھے بابا!

اور میں اب صرف آپ کی بیٹی نہیں دو بچوں کی ماں بھی بن چکی تھی ۔ میں ان کے کاموں اور لاڈ میں مصروف ہوگئی تھی۔ شاید آپ کے پاس کم آتی تھی۔ پھر بھی اکثر آیا بھی کرتی تھی۔ آپ کچہری کے لئے بیتاب رہتے تھی۔ پرانی یادیں٬ سیاست٬ آج کل کی سیاسی صورتحال اور عالمی سیاست پر ہی تو بات چیت ہوتی تھی!

دو تین دفعہ شدید بیماری کے بعد آپ ٹھیک بھی ہو گئے تھے۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی سوچا تھا پر وہ قیامت خیز گھڑی بھی ان سر پے کھڑے تھی کہ اب یہ آخری ملاقات کا وقت آ پہنچا ہے!

میں نے سوچا اماں بچھڑ گئیں وہ تو یاد ہی نہیں۔ بس بات سنی تھی پر یہ وقت یہ گھڑی میری برداشت سے باہر ہے۔۔۔

میرا آسرا٬ میرا حوصلہ میرا بابا۔۔۔

میں نے اقبال کو فون کیا۔۔۔ بابا چلے گئے٬ وہ بھی سخت صدمے میں تھے۔ دو تین دن سے بابا کو دیکھ کر روتے رہتے تھے٬ امی اختر٬ بھائی سارنگ٬ سروان چھوٹی بہن سونہں اور پارس٬ بڑا بھائی سجاد٬ بھابھی حمیرا٬ چچا سلطان اور سب عزیز و اقارب غم کی شدت سے سسک رہے تھے۔

میری ماں سکھاں کی بہن مٹھاں چیخ کر رو رہی تھی۔ میرے جام ساقی بھائی تم کیوں روٹھ گئے!

گھر والوں کے بعد جو لوگ سب سے پہلے پہنچے وہ میڈیا کے لوگ تھی جو کہ اس سچے٬ کھرے اور سادہ عوامی لیڈ ر کے آخری کوریج کے لئے تشریف لائے تھے۔

میں نے امر سندھو کو میسیج کیا۔۔۔ امر ۔۔۔ بابا از نو مور۔۔۔

اس نے ایک دم فون کیا۔۔۔ ہم سب آرہے ہیں تم اپنا خیال رکھنا پلیز۔۔۔

اس نے دوبارہ میسج کیا پلیز کمپوز یور سیلف۔۔۔ وہ میری پرانی دوست ہے اس کو پتا ہے کہ میں اپنے بابا سے کتنا جذباتی اور ذہنی طور پر قریب تھی!

پھر گاوں سے بھی رشتے دار آ پہنچے۔ جنجھی گوٹھ ٬ تھر سے اور پوری سندھ سے کامریڈ دوست بابا کے آخری دیدار کے لئے پنہنچے تھے۔

وہ بے رحم گھڑی آئی جب آپ کے جسد خاکی کو لے کر جانے لگے۔۔۔ پپھو مارئی بھی بلک بلک کر رو رہی تھی۔۔۔ میرا دل سسکیوں میں ڈوب رہا تھا۔ میرے دل نے چاہا میں خوب چیخوں کہ آسمان پھٹ پڑے!

بابا کے قریب کھڑے میرے سادہ تھری چاچا اور ماموں کی طرف میری نظر گئی۔ میرا دل بیٹھنے لگا۔ آج ان کی بھی جیسے پہچاں گم ہوگئی تھی میری طرح۔

سسکیاں میرے اندر گھٹ رہی تھیں۔

بھابھی حمیرا نے کہا تم قبرستان چلو گی کیا؟ میں جا رہی ہوں۔ میں نے کہا ۔۔۔ نہیں مجھ میں ہمت نہیں ہے۔

میں نے امر سندھو اور عرفانہ ملاح کو کہا میری خواہش ہے کہ میں اپنے بابا کو اس نعرے کے ساتھ رخصت کروں جو ان کی پہچان بھی ہے۔

تیرا ساتھی میرا ساتھی جام ساقی جام ساقی۔۔۔

 انہوں نے ہمت دلاتے ہوئے کہا تم نعرا لگاو ہم جواب دیں گے۔ میں نے تھوڑا آگے بڑہ کر اپنی بچی ہوئی ساری ہمت جمع کرکے نعرہ لگایا۔۔۔ تیرا ساتھی میرا ساتھی!!!

تو میرے پیچھے کھڑی میری دوستوں سمیت سب نے بھرپور جواب دیا۔۔۔

جام ساقی جام ساقی۔۔۔ ہاری اور مزدور کا ساتھی جام ساقی جام ساقی!

(بختاور جام، کامریڈ جام ساقی کی بیٹی ہیں۔ بختاور جام کی والدہ سکھاں نے جام ساقی کی گرفتاری کے دنوں میں جام کی موت کی افواہ سن کر تھر میں اپنے گاوں کے کنویں میں کود کر جان دے دی تھی۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).