سیاست دان، مولوی، جنرل، صحافی اور جج گفتار کے غازی ہیں


یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو اسلام سے بہت محبت ہے مگر اُنہیں مُلا کے اسلام سے اتفاق نہیں ہے ۔ اگر ایسی بات ہوتی تو وہ ضرور مُلا کو ووٹ دے کر اُس کا تشریح کردہ نظام عائد کردیتے ۔ حتیٰ کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت کو بھی اتنے ووٹ نہیں ملتے کہ وہ اپنی حکومت ایک صوبے میں ہی بنا لیں ۔ یہ ساری جماعتیں صرف اسلام کی محبت کے نام پر اشتعال انگیزی سے ہی مجمع بازی کر سکتی ہیں۔

سوچنے کا مقام ہے کہ آخر پھر کیوں ایک ایک کرکے ہم ا ن کو جنہیں عوام نے ووٹوں سے مسترد کر دیا ہے، کے تشریح کردہ اسلام کے قوانین اپنے آئین اور عدالتوں میں شامل کر رہے ہیں ۔ آخر ہمارے بچے اُن ہی لوگوں کی مرضی کی نصاب کی کتابیں کیوں پڑھ رہے ہیں ؟ ہم کیوں اردو کے میڈیا میں اُن کے بتائے گئے تنگ نظر اسلام کی تشریح کو پروموٹ کر رہے ہیں ؟ اور ایک تنگ نظر ، تشدد پسند ، مشتعل اور غیر روادار معاشرے کی تشکیل دے رہے ہیں ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اُن لوگوں کو سمجھنا ہوگا جو کہ ان باتوں کا اختیار رکھتے ہیں ۔ ان میں بہت سی اہم شخصیات ، سیاسی جماعتیں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں ۔ ان میں ہمارے قومی ہیرو بھی شامل ہیں جو کہ دانستہ اور نا دانستہ اس سارے عمل کا حصہ بنتے رہے ہیں ۔ ہمیں اُن کی ذاتی زندگیوں اور اُن کے قول و فعل کا جائزہ لینا ہوگا۔

اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری نے پاکستانی ذہن کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ہمیں اُن کا کلام بیسویں صدی کے تاریخی پس منظر میں پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔ اُس وقت بہت سے مسلمان ممالک آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے ۔ سلطنت عثمانیہ ٹوٹ رہی تھی اور مغرب میں فاشزم مقبول ہو رہا تھا ۔ اُن کا جہا د کا درس اور مردِ مومن کا تصور مسلمانوں کو جنگوں میں شکست سے بچانے اور اُن میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش تھی ۔ ہم ان کے کلام کو آج کی اٹل حقیقت نہیں بنا سکتے۔

اس کالم میں میں اُن کی شاعری اور اُن کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بات کروں گی ۔ اپنی شاعری میں علامہ اقبال مغربی تہذیب کے خلاف لکھتے ہیں کہ وہ اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی ۔ وہ عورتوں کی تعلیم کیلئے ایسے اشعار لکھتے ہیں، لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ،قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ۔ مگر خود اُنہوں نے مغربی تعلیم حاصل کی۔ اپنے بیٹے کو بھی اُسی تعلیم کیلئے باہر بھیجا۔ اپنے بچوں کیلئے جرمن آیا رکھی۔ اُنہوں نے اپنے کسی بیٹے کو بھی مردِ مومن بننے کیلئے تیار نہیں کیا۔

علامہ اقبال غازی علم دین شہید کیلئے یہ تو کہتے ہیں کہ لوہار کا بیٹا ہم سے بازی لے گیا ۔ مگر اُنہوں نے نہ صرف یہ بازی لینے کی چھوٹی سی کوشش بھی نہیں کی بلکہ برطانیہ حکومت کے دئیے سر کے خطاب تک کو واپس نہیں کیا۔ وہ جرمنی اور انگلینڈ تو گئے مگر حج کی سعادت حاصل نہیں کی ۔ حالانکہ وہ اپنی شاعری میں کہتے ہیں ، بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل۔ کیا انہیں اپنی کہی ہوئی باتوں پر خود بھی یقین نہ تھا؟ اور اگر یقین تھا تو اُن کا اطلاق اپنے اور اپنے بچوں پر کیوں نہیں کیا ۔ میرے خیا ل میں وہ ایک ایسے اسلام پر یقین رکھتے تھے جو کہ لبرل ،معتدل اور سیکولر اسلام تھا ۔ اسی لیے اُنہوں نے اپنی زندگی اسی اسلام کے تحت گذاری اور اپنے بچوں کو بھی اسی راہ پر لگایا۔اس اسلام کے تصور کی جھلک ان کی انگلش تحریروں میں ملتی ہےجس میں وہ ترکی میں کمال اتاترک کی اصلاحات کی تعریف کرتے ہیں۔اسی اسلام کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں، دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے۔

پاکستان کے مولویوں کی اکثریت عوام کو تو اشتعال دلاتی ہے مگر اپنے اور اپنے بچوں کیلئے متعدل زندگی کا انتخاب کرتی ہے۔ بہت سے امیرمولویوں کے بچے نہ صرف اچھے سکولوں میں پڑھتے ہیں بلکہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھنے کیلئے جاتے ہیں اور بعض ان ملکوں میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوجاتے ہیں ۔ گورنر تاثیر کے قاتل کو شہ دینے والا مولوی اگر اپنی بات کی سچائی پر یقین رکھتا تو وہ خود یہ قتل کرتا۔ مولانا مودودی نے بھی اپنے بچوں کو جہاد کیلئے تیارنہیں کیا۔ اُن کے بیٹے فاروق مودودی کے بقول وہ اپنے بچوں کو جماعت کے جلسے میں بھی نہیں جانے دیتے تھے۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کے افغان ’’جہاد‘‘کی بھرپور حمایت سے کون واقف نہیں ہے۔

پاکستانیوں نے مولوی کو کبھی ووٹ نہیں دیا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت کو معلوم ہے کہ مولوی کا بتایا گیا اسلامی نظام اکیسویں صدی میں ناقابل عمل ہے مگر عوام کے منتخب نمائندوں اور ججوں نے ہمیشہ عوام کے مینڈیٹ کو مسترد کرکے مولوی کے اسلام کو ایک ایک کرکے آئین اور عدالت میں شامل کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر مسلم لیگ (ن) تک یہی طریقہ جاری ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاسی حکومتوں کے دور میں ان پر پریشر ڈالنے کے لیے ملاکو اس کام کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اور مولوی آمریت کی سپورٹ سے اجتجاج کی سیاست کرکے اپنے مطالبات منواتے ہیں۔

 شہباز شریف کی پیر حمید الدین سیالوی کے کان میں وعدے کرتے ہوئے تصویر اس کی بہترین مثال ہے۔ عوام نے پیر سیالوی کو ووٹ نہیں دیا تھا مگر عوام پر ان کی مرضی تھوپی جار ہی ہے۔شہباز شریف انہی عناصر کو خوش کرنے کے لیے وقتا فوقتا پنجاب کی یونیورسٹیوں کی خواتین طلبا پر مزید پابندیاں لگاتے رہتے ہیں۔اور یونیورسٹیوں کے شعبوں کے نام بدلتےرہتے ہیں۔۔ شہباز شریف اور باقی خاندان کے لوگ اپنی ذاتی زندگیوں اور اپنے بچوں کی زندگیوں پر ایک لبرل اور معتدل اسلام کا اطلاق کرتے ہیں مگرقوم کے بچوں کیلئے وہ مولوی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ۔

مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر اشتعال انگیزی والے اسلام کا پرچار کرتے ہیں مگر اپنی ذاتی زندگی میں اس کا اطلاق نہیں کرتے ۔کیپٹن صفدر اکژ گورنر تاثیر کے قاتل، ممتاز قادری کی قبر پر حاضری دیتے رہتے ہیں۔ اگر ان کا ایسے قتل پر ایمان ہے تو انہیں غازی اورشہید بننے سے کس نے روکا ہوا ہے۔ وہ اکژ لندن کے چکر لگاتے ہیں۔ وہاں پر وہ کسی گستاخِ رسول کو ڈھونڈ کے آسانی سے غازی یا شہید بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں داخل کروا کر غازی اور شہید بنانے کے لیے تیار۔ کرکے اپنا ایمان ہم سب پر ثابت کرسکتے ہیں ۔ چونکہ وہ ایسا نہیں کرتے اس سے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اس طرح کی باتوں سے صرف قوم کے بچوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ملک میں اسلامی نظام کے دل سے حامی ہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی نہایت لبرل طریقے سے گزاری ہے۔ وہ ہمشیہ مغربی اقوام کے سیکولر ، لبرل نظام کی تعریف کرتے ہیں۔ ایک بہت بڑا طبقہ ان کو سپورٹ کرتا ہے ۔ اس سپورٹ میں یہ خواہش بھی شامل ہے کہ وہ پاکستان میں بھی اسی لبرل اسلام کا نفاذ کریں گے۔ لیکن جب اُنہوں نے کی پی کے میں جماعت اسلامی کے اتحاد سے گورنمنٹ بنائی تو تعلیم کا شعبہ جماعت اسلامی کے حوالے کر دیا جنہوں نے کتابوں میں لفظ کیک پر بھی اعتراض کیا کہ یہ بچوں میں مغربی سوچ پیدا کرنے کا باعث ہے۔ جب کہ خود عمران خان کے بچے انگلینڈ کے بہترین سکولوں میں مغربی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ ک پی کے کی اکژیت نے ان کو ووٹ دیا ، کسی مولوی کو ووٹ نہیں دیا۔ اس کے باوجود وہ قوم کے خزانے سے مولاناسمیع الحق کے مدرسوں کو کروڑوں روپے دے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ مدرسوں میں سائنس، حساب، سوشل سائنس، آرٹ اور فلاسفی کے شعبے بنا سکتے تھے تاکہ غریب کے بچوں کو بھی اسی طرح کی ماڈرن تعلیم مل سکتی جسکو وہ اپنے بچوں کے لیے مناسب سمجھتے ہیں۔

مجھے کچھ سال پہلے اردو میڈیم سکول کے مڈل سکول کے بچوں کی ایک دو کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اسلامیات میں اسلام کے رواداری ، بھائی چارے اور رحم دلی کے پہلوئوں کو پڑھانے کی بجائے کچے ذہنوں کو بغیرصحیح حوالوں کے جہاد کی آیات پڑھائی جا رہی تھیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ قوم کے بچوں کیلئے اس طرح کا نصاب تیار ہو رہا ہے اور فوجیوں کے بچے مغربی طرز کے سکولوں میں پڑھتے ہیں ۔ فوجی افسروں کے بچے امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں ۔ زیادہ تر ہمیشہ کیلئے وہاں مقیم ہو جاتے ہیں ۔کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ امریکہ کی افغان جنگ میں پاکستان کاحصہ بننے کی ایک بڑی وجہ جرنیلوںکے بچوں کی امریکہ کی یونیورسٹیوں کی اعلی تعلیم تک رسائی کا ہونا بھی شامل ہے۔

 اگر ان سب سیاستدانوں ، جرنیلوں، مولویوں،ججوں کو اس اسلام سے جس کو وہ قوم پر نافذ کرتے ہیں ،اتنی محبت ہے جتنی وہ ظاہر کرتے ہیں تو اس اسلام کو وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں پر نافذ کیوں نہیں کرتے؟

یہ بات عوام کی بھی سمجھ آ رہی ہے کہ اس دور میں جنگیں پیشہ وارانہ فوجیں لڑتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ذہنوں کو جہاد کی تعلیم دینے سے ان کو اسلام کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہو تی ہے اور معاشرے میں تشدد پھیلتا ہے۔ اسی لیے پختون لانگ مارچ میں یہ باتیں کی گئی ہیں کہ ہمارے بچوں کو بندوق نہیں قلم چاہیے اور ہمارے بچوں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ایندھن نہ بنایا جائے ۔ لہٰذا اب اس کھیل کی بساط کو فوراًلپیٹا جائے ۔ پاکستانی معاشرے کو ان گفتار کے غازیوں نے بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس وجہ سے یہ ایک تنگ نظر ، تشدد پسند، مشتعل اور غیر روادار معاشرہ بن گیا ہے۔

میری ان سب سے یہ اپیل ہے کہ پاکستانی عوام کو بھی اُس لبرل، سیکولر اور معتدل اسلام کے مطابق زندگی گذارنے کا حق دیں جس کا اطلاق آپ سب نے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی پر کیا ہوا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کے مولوی ، سیاست دان،ججوں اور جرنیل اسلام کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کرنا بند کریں ۔ پاکستان کے بچوں کو اپنے اس خطرناک کھیل کیلئے ایندھن بنانا بند کریں ۔ ان کو نفرتوں، جذباتیت، اور مذہبی تعصب میں الجھانا بند کریں۔ ان بچوں کواسلام کے رواداری ، محبت اور رحم دلی کے اصول بتائیں ۔ ان کو سائنس ،ریاضی ، سوشیالوجی ، فلاسفی ، آرٹ اور دیگر مضمون پڑھائے جائیں جو آپ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں تاکہ ہمارے ملک کا بھی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہو ۔اور آپ کے بچوں کو بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مغربی ممالک جانے کی ضرورت نہ پڑے ۔

 مجھے یقین ہے جب پاکستانیوں کو اپنے اور اپنے بچوں کی زندگی پر اختیار حاصل ہو جائے گا تو پاکستان ایک روشن خیال اور روادار معاشرے کی مثال دنیا میں قائم کردیگا۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi