اسٹیل مل اور اس کے ملازمین کے تاریک مستقبل کا ذمے دار کون؟


فولاد سازی کی صنعت کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کا شمار ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں فولاد سازی کا عظیم الشان ادارہ موجود ہے، لیکن اس ادارے کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ گزشتہ تین سال سے فولاد سازی کا عمل بند ہوچکا ہے۔ فولاد سازی کا عمل تو تین سال قبل بند ہوا اور اس کی بڑی وجہ گیس کی بندش ہے، لیکن اسٹیل مل کی تباہی کا آغاز 2009 ء میں ہی ہوگیا تھا، جب حکمراں جماعت نے اپنے چہیتوں کو اسٹیل مل میں اہم عہدوں پر تعنیات کیا اور سیاسی بھرتیاں کیں۔ وہ دن اور آج کا دن اسٹیل مل کے حالات مسلسل بگڑتے ہی رہے لیکن کسی بھی حکمراں نے اسٹیل مل کی زبوں حالی کا اس سطح پر نوٹس نہیں لیا، جتنا لینا چاہیے تھا۔ ہر حکومت نے اسٹیل مل کی نجکاری کا بیڑا اٹھایالیکن سوائے زبانی جمع خرچ کرکے نجکاری کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آئی۔ موجودہ دور حکومت میں دو سو ایکڑ قیمتی زمین ارزاں نرخ پر اسٹیل مل سے خرید لی گئی لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی اور مزید بیش قیمت زمین ارزاں نرخوں پر بیچنے کی تیاری ہے۔ اسی طرح گزشتہ دور حکومت سے لے کر اب تک ملازمین کے لیے مختص گریجویٹی اور پراویڈنٹ فنڈ کو بھی ہڑپ کر لیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں ریٹائرڈ ملازمین اور وفات پا جانے والے ملازمین کی ادائیگیاں نہیں کی جاسکی ہیں۔

مشہور امریکی ماہر تعلیم اور سیاسی مفکرنوم چوسکی کہتے ہیں ” نجکاری کا اصولی طریقہ کار یہ ہے کہ اداروں کو فنڈز کی ادائیگی روک دی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ادارے فعال نہیں رہیں اور عوام میں اداروں سے بیزارگی کا رجحان بڑھتا جائے تاکہ موقع پرست ریاست اسے بآسانی نجی ملکیت کے حوالے کرسکے۔ “ اسٹیل مل کو بد حال کرنے میں یہی فکر اپنائی گئی لیکن اسٹیل مل کیونکہ منافع میں تھی اور ملازمین چار چار بونس سے مستفیض ہورہے تھے، اس لیے سب سے پہلے تو بدعنوانی کے ذریعے اسٹیل مل کی پیداوار کو ادھار پر اونے پونے داموں بیچا گیا اور مالی طور پر نقصان پہنچایا گیا اور اس کے ساتھ مالی بدعنوانیاں کرکے اسٹیل مل کی مالی حالت مزید خراب کی گئی اور یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ ملازمین کے فنڈز بھی اڑا دیے گئے۔ اس وقت صورتحا ل یہ ہے کہ ملازمین اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں، علاج معالجے کی سہولیات بھی بتدریج ختم کردی گئیں ہیں اور ملازمین اپنے بچیوں کی شادی تک کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ اسٹیل مل کے بیشتر ملازم اس وقت عمر کی اس حد میں ہیں، جہاں و ہ نئے سرے سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ اپنی جوانی اور تمام تر صلاحیتیں اسٹیل مل کو وقف کر چکے ہیں۔

مہنگائی ہے کہ دن بدن بڑھتی جارہی ہے لیکن اسٹیل مل ملازم گزشتہ نو سال سے تنخواہوں میں اضافے سے محروم ہیں بلکہ تنخواہیں مزید کم کردی گئیں ہیں اور گزشتہ پانچ ماہ سے تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئیں ہیں۔ وزیر اعظم سے لے کر وزیر نجکاری اور قائمہ کمیٹی برائے پیداوار اسٹیل مل کے حوالے سے بیانات بھی جاری کرتے رہتے ہیں اور فیصلے بھی کرتے رہتے ہیں لیکن عمل درآمد کسی بھی فیصلے پر نہیں ہوتا۔ اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید اسٹیل مل کے ملازمین کے رہائشی علاقے ہیں، کسی زمانے میں یہاں خوشحالی کا دور دورہ تھا لیکن اب ملازمین اور ان کے اہل خانہ پریشان حال نظر آتے ہیں۔ علاقے میں کاروبار کی صورتحال بھی خراب ہے کیونکہ ادھار بھی ایک حد تک ہی دیا جاسکتا ہے اور ادھار تو ویسے بھی کسی بھی کاروبار کے لیے سم قاتل سمجھا جاتا ہے۔

اسٹیل مل ملک کا واحد فولاد ساز ادارہ ہے اور یہ ٹیکنالوجی وطن عزیز میں کسی نجی اور سرکاری ادارے کے پاس نہیں ہے۔ جس طرح ملازمین کی صلاحیتوں کا ضیاع کیا جارہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فولاد سازی کی ٹیکنالوجی جو کہ نئی نسل کو منتقل ہونی چاہیے تھی، نہیں ہوسکے گی اوریہ ملک و قوم کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔ عدالت عظمی اوردیگر عدالتوں میں اسٹیل مل اور اس کے ملازمین کی بدحالی سے متعلق مقدمات برسوں سے زیر سماعت ہیں لیکن کوئی ایسا فیصلہ اب تک سامنے نہیں آسکا ہے جس سے اسٹیل مل اور اس کے ملازمین کی بدحالی دور ہوسکے۔ اس سے پیشتر کہ اعلی عدالتیں حکومت وقت کواسٹیل مل اور اس کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کوئی حکم جاری کریں اور اسٹیل مل اور اس کے ملازمین کی بدحالی کا ذمے دار ٹھہرائیں، حکومت وقت کو اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے، اسٹیل مل کی بحالی اور ملازمین کے مسائل حل کرنے چاہئیں تاکہ وطن عزیز کے واحد تباہ حال فولاد ساز ادارے کومکمل تباہی سے بچایا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).