پاکستان میں جوتا گردی کی تاریخ


امریکا میں سماجی کارکنوں نے 7 ہزار جوتوں کے جوڑے کیپٹل ہل میں کانگریس ہاؤس کے سامنے لگادیے۔ اس کی وجہ بنے 2012 میں سینڈی ہُک ایلیمنٹری اسکول کے بندوق گردی کا شکار ہونے والے بچے۔ جن کی یاد میں صبح ساڑھے آٹھ بجے سے دوپہر تک جوتےوہیں رکھے رہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گن کنٹرول بل میں اصلاحات کی جائیں۔
یہاں تک تو تھی جوتا کہانی امریکا کی۔

اب ذکر ہوجائے سیاست کے نئے انوکھے کلچر کا۔ ہر ملک۔ قوم ۔ مذہب اوربرادری کی معاشرے میں الگ الگ رسم ورواج۔ تہذیب و ثقافت اور روایات ہوتی ہیں۔ جس کا احترام کیاجانا ضروری ہے۔
تاہم ہماری سیاست میں دہشت گردی۔ غنڈہ گردی۔ پولیس گردی۔ وکلا گردی۔ سیاہی گردی کے بعد جوتا گردی نےایک انوکھے کلچر کی بنیاد رکھی ہے۔

غنڈہ گردی تو ماضی بعید ہوئی ۔ جب بدمعاش قسم کے شخص۔ اونچی آواز میں بولنے والے۔ دوسروں کو تنگ کرنے والے سے محلے والے ڈرتے تھے یا اپنی عزت کو چپ ہوجاتے تھے۔ ایسے لوگ غنڈے کہلائے جاتے۔

ٹرینڈ بدلا اور باری آئی ایک اور گردی کی۔ دہشت گردی۔ جس کی لپیٹ میں پاکستان سمیت دنیا کا شاید ہر ملک ہی ہے۔ اس سے نجات پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیےجا رہے ہیں۔ اتحادی افواج بنائی جارہی ہیں۔ انٹیلی جنس شئیرنگ ہورہی ہے۔ اور کسی حد تک دہشتگردی کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے میں کامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔

ساتھ ساتھ پولیس گردی بھی شروع ہوگئی ۔ شہر قائد میں تسلسل سے ایسے واقعات ہوئے۔ کہ پولیس مددگار ہونے کے بجائے ہٹ دھرمی دکھاتی نظر آئی ۔ پولیس بے گناہوں کو سرعام دہشت گرد کا لیبل لگا کر جان سے مارنے لگی۔ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ راؤ انوار کے چرچے بھی اب زبان زدعام ہیں۔ فیس بک سلیبرٹی نقیب اللہ کو دہشت گرد بنا کر مارنا ان کے مشہور ہونے اور روپوش ہونے کا بہانہ بن گیا۔

ایک پوش علاقے میں انتظار کاقتل۔ شاہراہ فیصل پرنوجوان مقصود کا قتل بھی پولیس گردی کے واقعات ہیں۔
وکلا گردی۔ کا بھی ایک دور تھا۔ جب وکیلوں کادل چاہتا تھا۔ کسی کو بھی پکڑ کر زدوکوب کیا۔ اسمبلی احاطہ ہو یا کورٹ کا ایریا۔ ٹریفک کانسٹیبل ہو ں یا عام شہری۔ وکلا برادری جب اپنی ضد پرآئی یا اختیار کا نشہ چڑھا تو وکلا گردی کی۔

اپریل 2008 میں سابق وزیر قانون و پارلیمانی امورشیرافگن خان نیازی کے ساتھ وکلاءنے بدسلوکی کی۔ ان کے سر پر جوتا مارا۔ گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور چار گھنٹے تک کمرے میں محبوس رکھا۔
اسے اب وکلا گردی کہہ لیں یا جوتا گردی۔

اپریل 2008 میں ہی سندھ اسمبلی کے ایوان میں اس وقت مسلم لیگ ( ق) کے صوبائی صدر ارباب غلام رحیم کوگالیاں دیتے ہوئے جوتا مارا گیا۔
پی پی رہنماؤں نے اسے عوامی ردعمل قراردیا۔

لاہور میں ایک کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے وزیراعلیٰ پنجاب پر جوتا پھینکا۔
مارچ 2013میں سابق صدر پرویز مشرف بھی جوتا گردی کا شکار ہوئے۔

2017 میں شیخ رشید پی ایس ایل فائنل میں شرکت کے لیے گئے تو ریلوےاسٹیشن پر ا یک شخص نے ان پر جوتا پھینکا۔ شیخ رشید نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اعتراف کیا۔ کہ کالج کے زمانے میں انہیں کچھ لوگوں نے جوتا مارا تھا۔

گزشتہ دنوں نا اہل سابق وزیرِ اعظم نواز شریف پر جامعۂ نعیمیہ میں ایک شخص نے جوتا پھینک ماراگیا۔
دوروز بعد ہی باری آئی عمران خان کی۔ گجرات میں جلسے کے دوران عمران خان کی طرف اچھالا گیاجوتا علیم خان کے سینے پر لگا۔ ۔
جوتا پھینکنے والے شخص احمد سفیان کا کہنا ہے کہ اس نے جوتا عمران خان کے ساتھ آئی لڑکی کو مارا۔ ملزم کاکہنا ہے کہ نادیہ خٹک بے پردہ رہتی ہے اور جلسوں میں ڈانس کرتی ہے۔
پنڈ دادن خان میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ن لیگیوں کو کہا جوتا مار سکتے ہو تو مارو۔ کیچ اور تھرو دونوں اچھی کرتا ہوں۔

رانا ثنا اللہ نے بھی بیان داغا۔ اگر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے ذمہ دارانہ رویہ نہ اپنایا تو ہر کوئی جوتا کلب کا ممبر بن جائے گا۔ جوتا بازی۔ نفرت اور پرتشدد رویوں کا ذمہ دار عمران خان ہے۔
اس سے قبل 24 فروری کو نارووال میں ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر بھی جوتا پھینکا گیا۔

5 فروری کو اسلام آباد میں نقیب اللہ قتل کے خلاف جاری دھرنے میں مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے جانے والے پیپلز پارٹی کے وفد پر بھی جوتے اور بوتلیں پھینکی گئیں۔
ماضی میں جوتا مارنے یا پھینکنے کو عوامی ردعمل کہا جاتا رہا۔ اور اب جبکہ نوازشریف پر جوتے سے حملہ ہوا تو سب سیاست دانوں نے یک زبان ہوکر اسےغیر اخلاقی عمل کہا۔ انتہا پسندی سے جو ڑدیا اور مذمت بھی کی۔

”جوتے نامی شے کی طلب ہر دور میں بڑھتی ہی جارہی ہے“ یہ ہم نہیں کہہ رہے۔ مشہورو معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کا دعویٰ ہے۔ اپنے پروگرام میں انہوں نے بتایا کہ ارباب غلام رحیم کو جو جوتا مارا گیا تھا۔ وہ 9 لاکھ روپے میں خریدا گیا۔ جبکہ جوتا مارنے والے کو 6 لاکھ روپے دیے گئے تھے۔ اس لیے سیاسی لیڈروں کو پڑنے والے جوتوں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے۔

ویسے جوتا پھینکنے اور مارنے سے کئی باتیں پوری ہوجاتی ہیں۔ نفرت کا اظہار بھی۔ دل کی بھڑاس بھی نکل جاتی ہے۔ اور مخاطب کی عزت کا جنازہ بھی نکل جاتا ہے۔
جوتا گردی کی زد میں صرف پاکستانی سیاست دان نہیں آئے۔ بلکہ اس کا شہرہ تو ملک ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ سیاست میں اس انوکھے کلچر کی ابتدا ایک عراقی صحافی نے کی۔

2008 میں بغداد میں ایک کانفرنس کے دوران امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی خاطر تواضع ”دس نمبری‘‘ جوتے سے کی گئی۔ ایک سعودی شہری نے اس جوتے کو خریدنے کے لئے ایک کروڑ ڈالر کی پیشکش کی۔

برطانوی سابق وزیراعظم ٹونی بلئیر۔ ترک صدر رجب اردوان۔ سابق یونانی صدر جارج پائنڈو۔ سابق آسٹریلوی صدر جان ہاورڈ۔ سوڈانی سابق وزیراعظم عمر البشیر اور سابق ایرانی صدر احمدی نژاد سمیت بڑے بڑے رہنماؤں کے ساتھ جوتا کلچر کی روایت اپنائی گئی۔

بھارت اورمقبوضہ کشمیر میں بھی اس کی جے جے کار ہے۔ اروند کجریوال کو جوتا ہی نہیں تھپڑ بھی پڑا۔ سیاہی اور موبل آئل کے داغ بھی لگے۔
جوتا گردی سے قبل سیاہی گردی کا کلچر بھی چل نکل تھا۔ گزشتہ دنوں سیالکوٹ وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی۔

2015 میں سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی میں آرگنائزر کو شیوسینا کے غنڈوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور چہرے پر سیاہی پھینکی۔
اب یہ سیاہی گردی تھی یا غنڈہ گردی۔

2007 میں سپریم کورٹ میں سماعت پر سینئر وکیل احمد رضا قصوری کے چہرے پر سیاہ رنگ کا اسپرے کیا گیا تھا۔
عوام کے نمائندے اچھی کارکردگی پر ان کی جان بن سکتے ہیں تو بری کارکردگی پر زیرعتاب بھی آسکتے ہیں۔
اور ہاں۔ آخر میں ایک اور بات۔

”مجھے پتہ ہے جوتے مہنگے ہوگئے ہیں ‘‘۔ یہ بھی ہم نہیں کہہ رہے۔ یہ بات وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 70 کے عشرے میں لیاقت آباد کی سپر مارکیٹ کے افتتاح کے موقع پر کہی جب مجمع میں انہیں جوتے دکھائے گئے۔

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza