غیرت کے نام پہ قتل اور کھوکھلا قانون


انتہائی سنگین ترین جرائم میں  قتل سرفہرست ہے۔ قتل کی وجوہات کبھی بھی معمولی نہیں ہوتی۔ قتل کے محرکات  میں بہت بڑا ذاتی مفاد یا انتقام وغیرہ  شامل ہوتے ہیں۔
غیرت کے کا نام پہ ہونے والے قتل اور ان کے مہرقات و اسباب کا جائزہ لیں گے ’غیرت‘لیکن آج ہم آسان الفاظ میں قتل برائے ’غیرت‘ ایک ایسا فعل ہے جو زیادہ تر خواتین کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اب یہ عمل خواتین کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے اس کے مختلف محرقات ہیں اوران کا جواب بہت طویل ہو سکتا ہے کیونکہ ذرا سی مسکراہٹ، تھوڑا سا بناؤ سنگھار، فون خصوصاً موبائل فون پر بات، بلا اجازت گھر کی چاردیواری سے باہر قدم رکھنا یا پھر اپنی مرضی سے جیون ساتھی کا انتخاب (یا اس بارے میں سوچنا) ان سب وجوہات میں سے چند ہیں

غیرت کے نام پرقتل کامعاملہ سال ہا سال سے چلاآرہا ہے۔ میڈیا میں تبصرے اور تجزیئے بھی ہوتے رہتے ہیں، سماجی تنظیمیں، سوسائٹی اورمعاشرے کے دیگرطبقات بھی غیرت کے نام پرقتل کے خلاف اپنی آوازبلندکرتے رہتے ہیں۔ سیاستدانوں اورحکمرانوں نے ملک میں اس کے خاتمہ کے اعلانات کیے لیکن یہ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ برصغیر اور خاص طور پر پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہماری مشرقی تہذیب کی ایک شرمناک روایت، کلچر کا ایک بھیانک روپ اور افراط و تفریط پر مشتمل غیرت کی عجیب شکل بنتا جارہا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق خاندانی عزت و ناموس اورناجائز تعلقات کے الزام میں سالانہ چھے سو جبکہ مرضی کی شادی کرنے کی پاداش میں لگ بھگ دو سوافرادکو موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ غیرت کے نام پرقتل جیسی فرسودہ رسومات اور روایات کا اسلام اورہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس برائی کاخاتمہ ہوناچاہیے۔ اس برائی کوختم کرنے کے لئے ہمیں اس کے اسباب اور وجوہات پر غورکر کے انہیں ختم کرنا ہو گا۔

ایک پہلو پر زور دینا اوردوسرے پہلو کو نظر انداز کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ غیرت کے مسئلہ کو مثبت یا منفی رخ تعلیم، تربیت اور ماحول کی وجہ سے ملتا ہے اور غیرت کے نام پر قتل تعلیم و تربیت سے زیادہ ماحول کا نتیجہ ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سلسلہ کو روکنے اور تربیت اور ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کیا روش اپنائی گئی ہے؟ ماحول کی بہتری میں مثبت کردار ادا کرنے اور اپنے احتساب کی بجائے ہر کوئی ماحول کی اس خرابی کا ذمہ دار میڈیا اور فحاشی کو قرار دیتا ہے۔ جبکہ غیرت کے نام پرقتل کی وجوہات اوراسباب میں اہم وجہ پسند کی شادی بھی ہے۔

‘عزت‘ اور غیرت خواتین یا بچیوں کے ساتھ اس طرح سے نتھی کر کے ہی ہم اس نہج پر آ جاتے ہیں جہاں مردوں کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے کہ وہ کسی بات پر بھی اپنے گھر کی خواتین کو جب چاہے اور جو چاہے سزا دیں۔ اس لیے ہی وہ مرد ’غیرت مند‘ کہلاتے ہیں جو اپنی خواتین پر مکمل نظر رکھتے ہیں اور جہاں انھیں لگے کہ کسی نے اس لکیر کو پار کیا ہے، اسے وہیں ختم کر دیں۔ اس فعل پر نہ تو وہ مرد شرمندہ ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرہ اسے مجرم گردانتا ہے۔

آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ ایک انسان جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھتا ہے، اس حد تک چلا جاتا ہے کہ اس کے کرتوتوں کے آگے درندگی بھی ماندپڑ جاتی ہے؟ کیا اس کا ضمیر اسے کچوکے نہیں لگاتا؟ ایسا کرنے سے وہ پہلے وہ مر کیوں نہیں جاتا؟ کیا اسے لعنت ملامت سے ڈر نہیں لگتا؟ کیا سخت سزائیں نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات نظر آتے ہیں؟ اس طرح کے سینکڑوں سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا اور ان کے مطابق حکمت عملی طے کرنا ہمارا فریضہ ہے اگر ہم دلی طور پر اس مسئلے کاحل چاہتے ہیں۔

کوئی بھی معاشرہ انسانوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوگا تو وہاں پر لازمی طور پر معاشرتی بگاڑ، اخلاقیات میں گراوٹ، جذبوں میں کھوکھلا پن، مصنوعی رشتے، انتشار، غیر یقینیت، وحشیانہ رویے، بوکھلاہٹ اور تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم پیدا ہوں گے۔ بنیادی ضروریات میں خواراک، رہائش، تعلیم، صحت، انصاف، حفاظت اور سیکس وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں پسند کی شادی یا بعض دیگر نام نہاد وجوہات کی بنیاد پر لڑکیوں اور خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے خلاف پاکستانی پارلیمان نے ایک نیا قانون منظور کیا تھا
نئے قانون میں نہ صرف خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی تھیں بلکہ ایسے جرائم کا نشانہ بننے والوں کے ورثا کا مجرم کو معافی دینے کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا تھا۔

اس قانون سازی سے قبل قتل کی جانے والی خواتین کے ورثا عموماً قاتل کو معاف کر دیتے تھے کیوں کہ قتل کرنے والے بھی اکثر اوقات خاندان ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کا سلسلہ ملک میں نہیں رکا اور اب بھی فرسودہ سوچ کے سبب اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں لڑکیوں اور خواتین کو پسند کی شادی یا محض کسی مرد سے تعلق کے شبہے میں ’غیرت‘ کے نام پر جان سے مار دیا جاتا ہے۔
نئی قانون سازی کے باوجود اس نوعیت کے مقدمات کو جلد نہ نمٹانے کا معاملہ بھی کئی حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔

انسانی حقوق کے ایک غیر جانب دار ادارے ’ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ یعنی ’ایچ آر سی پی‘ کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2017ء سے رواں سال مارچ تک پاکستان میں 280 خواتین غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔
تاہم باور کیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

سرکاری ادارے جن کا کام انصاف مہیا کرنا ہے، اُن کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ایسے جرائم کا سدباب لازمی ہے تاکہ معاشرے میں جو تبدیلی ہم دیکھنا چا رہے ہیں وہ وقت پر آ جائے۔ قانون کا اطلاق کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
پاکستان میں غیر ت کے نام پر قتل میں زیادہ تر نوجوان لڑکیاں اور خواتین نشانہ بنتی رہی ہیں۔ تاہم بعض اوقات مردوں کو بھی اس میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں لیکن ایسے واقعات کی تعداد بہت کم ہے۔

غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی روک تھام بارے مذہبی سکالرز، سیکورٹی اداروں کے ماہرین اور انسانی حقوق کے نمائندے اس نکتے پر متفق ہیں کہ اس قبیح عمل کی روک تھام کی حکومتی ذمہ داری ایک طرف مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہر انسان اور ذمہ دار شخص کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس طرح واقعات کی حوصلہ شکنی کریں اور ان واقعات میں ملوث افراد کو قانونی گرفت میں لانے کے لیے پولیس کی مدد کریں۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya