کراچی میں ڈاکٹر رابعہ کو سندھی زبان میں بات کرنے سے روکنے کا واقعہ


کراچی کی ڈاؤ میڈیکل یونیوسٹی اوجھا کیمپس میں اسپتال انتظامیہ نے ایک سندھی لیڈی ڈاکٹر سے دوران ڈیوٹی وارڈ میں سندھی زبان میں بات کرنے سے منع کرنے کے باوجود دوبارہ سندھی میں بات کرنے پر نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی ہے۔

پورے سندھ میں اس واقعے نے میڈیا پر آگ لگائی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر تو لاکھوں پیغام گردش کر رہے ہیں۔ جس میں انتہائی غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ میں ایسے واقعات پر عموما نہیں لکھا کرتا کیوں کہ ان کے پیچھے کوئی اور کہانی بھی ہوتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اب الیکشن آنے والے ہیں، اقتداری سیاسی پارٹیاں اب اپنی، اپنی قومپرستی کی دکانیں بھی کھولیں گی۔ مسلم لیگ نواز پنجاب کو جگائے گی، پیپلز پارٹی جیئےسندھ کے نعرے کا سہارا لے گی، ایم کیو ایم تو اردو بولنے وا الوں کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہوتی ہے بھلے وہ قربانی ان کی اپنی ہی کیوں نہ ہو جیسے بلدیہ فیکٹری کراچی مں ہوا جس میں جلائے جانے والے ڈھائی سو لوگوں میں اسی فیصد اردو بولنے والے ہی تھے۔ پختوں، بلوچ، سرائیکی، کالاباغ ڈیم، نئے صوبے، ہزارہ صوبہ اشو، سب جاگنے والے ہیں اس لئے میں ایسے لسانی اشوز پر نہیں لکھتا۔ مگر یہاں پر اگر بات ڈاؤ میڈیکل یونیوسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے لکھت میں وضاحت طلب کرنے کی نہ ہوتی جس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ڈاکٹر رابعہ شاہ سے سندھی میں بات کرنے سے منع کرنے کے باوجود حکم عدولی کرنے پر وضاحت طلب کی گئی ہے۔

کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے۔ پہلے تو سندھی کراچی میں بہت کم رہتے تھے لیکن اب کراچی میں سندھی اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ ایک سوشل سائنسدان نے پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں کراچی آبادی کے حساب سے سندھی زبان بولنے والوں کا اکثریتی شہر ہوگا، ایسے میں، پاکستان بننے سے پہلے سندھ کے انگریز گورنر سر ہیو ڈاؤ کے نام سے بننے والے ڈاؤ میڈیکل کالیج، اب ڈاؤ میڈیکل یونیوسٹی میں ایک سندھی ڈاکٹرنی کو سندھی زبان میں بات کرنے سے منع کرنے پر سندھ بھر میں غصے کی لہر ابھرنا ایک قدرتی عمل ہے یہ اس طرح ہی ہے کی کوئی پشاور میں کسی پٹھان کو لیڈی ریڈنگ ہاسپیٹل میں کہے کہ پشتو میں بات کیوں کی، یا لاہور میں کوئی کسی ڈاکٹر کو کہے کی پنجابی میں بات کیوں کی، وضاحت پیش کرو۔

ڈاو میڈیکل یونیوسٹی اوجھا کیمپس کے ڈپٹی ڈائریکٹر افضل قاسم نے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر رابعہ شاہ سے وضاحت طلب کرنے کے لئے 14 مارچ کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ دل کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر فہیم عامر نے شکایت درج کروائی ہے کہ آپ نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی ہے۔ اور شکایت میں مزید ہے کہ ڈاکٹر رابعہ شاہ نے سی سی یو وارڈ میں سندھی اسٹاف کے ساتھ سندھی زبان میں بات کی تو ڈاکٹر فہیم عامر نے ان کو منع کیا کہ سی سی یو وارڈ میں سندھی میں بات نہ کریں، انگریزی یا اردو میں بات کریں۔ ڈاکٹر فہیم عامر کا کہنا ہے کہ اس پر ڈاکٹر رابعہ شاہ نے کہا کہ آپ کو سندھی سیکھنی چاہیے کیوں کہ آپ سندھ صوبے میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر رابعہ سے اس بدتمیزی کی وضاحت طلب کی جاتی ہے۔

میرے خیال میں ڈاکٹر رابعہ شاہ نے بڑی بہادری اور جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور ڈاکٹر صاحب کو حقیقت کا آئینہ دکھایا ہے کیونکہ سندھی جتنے فخر کے ساتھ سندھی زبان بولتے ہیں اتنی ہی محبت کے ساتھ اردو بھی جانتے ہیں، زبانیں سیکھنے سے کبھی بھی سندھیوں کی اکثریت نے انکار نہیں کیا اور اندرون سندھ کے رہنے والے ہمارے اردو، پنجابی، پشتون بھائی بھی، سب بڑے فخر سے سندھی زبان بولتے ہیں اور وہ بھی ایسی کہ ان کے لہجے سے کوئی سمجھ ہی نہ پائے کہ ان کی ماں بولی کونسی ہے بلوچ تو سندھی زبان کو اپنی مادری زبان تک کی عزت دیتے ہیں مگر کراچی میں رہنے والے اکثریت اس معاملے میں احساس برتری کا شکار ہیں، حالانکہ جب یہ لوگ باہر ملکوں میں جاتے ہیں تو چلو انگریزی تو بادشاہ زبان ہے مگر فنش، رومانین، ہنگرین، سویڈش، ییڈش، ڈینش، اروما، یوروبا جیسی چھوٹی زبانیں سیکھنے کے لئے دن رات پڑہتے ہیں، پیسے خرچ کر کے کلاسیں لیتے ہیں اور بولی کے امتحانات پاس کرتے ہیں کہ وہاں کی سٹیزن شپ مل جائے۔

ویسے بھی ڈاکٹرفہیم عامر سے کوئی یہ پوچھے کہ ایک ڈاکٹر کو کسی زبان سے آخر کیا مسئلہ ہے؟ کراچی میں تو 80 فیصد مریض اندرون سندھ سے، وہ بھی چھوٹے شہروں، گاؤں کے آتے ہیں جن کو اردو بلکل بھی نہیں آتی تو پھر یہ ڈاکٹر صاحب ان کا علاج کیسے کرتے ہوں گے؟ اور ڈاؤ میڈیکل یونیوسٹی اوجھا کیمپس تو واقع ہی کراچی کے سندھی اکثریتے علائقے میں ہے۔ میری بہن سعودی عرب میں چائلڈ اسپیشلسٹ ہے، وہ کہتی ہیں کہ مریض عربی میں بات کرتے ہیں اور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کی زبان کو نہ سمجھنا ڈاکٹر کا مسئلہ ہے مریض کا نہیں۔

میری یہ تحریر اردو بولنے والوں کے خلاف ہر گز نہیں، اردو بولنے والے سندھیوں میں ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے فرشتے بھی ہیں جو پورے سندھ میں گردے کے علاج کے ہسپتال قائم کرتے پھر رہے ہیں اور ان کی جو سندھ کے عوام میں عزت ہے اس کی کوئی مثال ہی نہیں، بس ڈاکٹر فہیم عامر جیسے صاحبان سے شکایت ہے کہ دل کے اسپیشلسٹ ہونے کے باوجود وہ دھرتی اور زبان سے محبت کرنے والے دلوں کو نہ سمجھ سکے۔

بہرحال سیکریٹری برائے صحت سندھ حکومت ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو نے کہا ہے کہ تحقیقات کی جا رہی ہے اور قصوروار کو سزا دی جائے گی، واضع رہے کہ سندھی سندھ کی سرکاری زبان کے طور پر بھی رائج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).