گھر والی ۔۔۔ باہر والی


لیکن ان دنوں میں شوہر کی محبت میں پور پور ڈوبی ہوئی تھی۔ اس قدر کہ اس کی غلط باتیں بھی صحیح لگتی تھیں۔ میں بہت سی اور بیویوں کی طرح نجانے کتنی سادہ لوح ہوتی تھی۔ وہ مجھ پر الزام لگاتا تھا اور میکے جانے پر کہتا تھا کس کے ساتھ رنگ رلیاں منا کر آئی ہو۔ نوکروں اور بچوں کے سامنے مجھے کوستا اور مارتا تھا۔ میں وہ سب کچھ برداشت کرتی تھی اور خود کو ہی الزام دیتی تھی کہ مجھ سے ہی کوئی کوتاہی ہوئی ہوگی۔ غلط بات کہنے اور کرنے کے بعد معافی مانگنا تو اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ اور میں اتنی سادہ دل کہ اس کو معافی مانگے بغیر ہی معاف کر دیتی تھی اور خود کو یہ باور کرا لیتی کہ وہ میرے بغیر جی نہیں پائے گا۔ اگر اور عورتوں کے پاس جاتا ہے تو لوٹ کر تو میرے پاس ہی آئے گا نا۔۔۔۔

مجھ سے کہتا میں دوسری عورتوں کے پاس بس منہ کا ذائقہ بدلنے جاتا ہوں۔ میری گھر والی میرے بچوں کی ماں میرے خاندان کی رکھوالی کرنے والی تو تم ہی ہو۔ اگر تم مجھ سے روٹھی تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔ اور میں اتنی بے وقوف تھی کہ اس کی باتوں کو سچ مان لیتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کے پل میں تولہ، پل میں ماشہ رویے کی مجھے عادت سی ہو گئی تھی۔ میں نے زندگی میں دکھ بھی دیکھے، سکھ بھی۔ میں سمجھتی تھی زندگی قوسِ قزح کی طرح ہے اور میں نے ہر رنگ دیکھا تھا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ بھری دوپہر میں رات ہو گئی۔

صاحب کا دوسری شادی کے بعد صنوبر کے ساتھ نباہ نہ ہو سکا۔ میرے اپنے شوہر کے ساتھ معاشی اور معاشرتی مسائل تو تھے لیکن میرا سب سے بڑا مسئلہ نفسیاتی تھا۔ اس کا نیا گھر بن رہا تھا اور میرا گھر اجڑ رہا تھا۔ میرے بیمار عشق نے مجھے بےغیرت اور ڈھیٹ بنا دیا تھا۔ جب وہ لوٹ کر میرے پاس آیا تو میں اس کی نیت کو نہ سمجھ سکی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کہ وہ اپنا مال اسباب لینے آیا تھا لیکن میرے لیے وہ رمتا جوگی بن کر آیا تھا۔ میں سادہ تھی اس کے بہروپ کے دھوکے میں آ گئی۔ مجھ سے کہنے لگا مجھے  صنوبر نے کچھ نہیں دیا نہ محبت نہ خدمت نہ ذہنی سکون نہ جسمانی راحت۔

صائمہ تم جیسا کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے۔ میری زندگی کہ بہاریں تم سے ہی ہیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھے  صنوبر سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔  صنوبر جب پہلی دفعہ اپنے میکے دس دن کے لیے عید منانے گئی تو صاحب میرے پاس آ گئے۔ کہنے لگے میں کچھ عرصے کے لیے چھپ کر ملنا چاہتا ہوں اگر میرے بھائی بہن اور امی کو پتہ چل گیا تو وہ تھو تھو کریں گے۔ کہنے لگا ہماری ملاقاتوں کا کسی کو پتہ نہ چلے۔ بچوں کو بھی ہدایت تھی کہ کسی سے کچھ نہ کہیں۔

ایک شام صاحب کی اماں حضور کا فون آیا کہ صنوبر واپس آنا چاہتی ہے۔ حضرت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ میں نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں اس کے آنے پر مگر امی سے کہہ دو کہ تم ابھی نہیں دو دن بعد اسے جا کر لائو گے۔ اس اثنا میں مجھے ملتان چھوڑ آنا۔ صاحب نے فرمایا مجھ پر احسان کرو اور ابھی چلی جائو۔ مجھے بہت دکھ ہوا لیکن میں ملتان آ گئی۔ حیرت کا ایک جھٹکا تو مجھے ضرور لگا کہ میرے لیے تو کبھی باہر والیوں کو بے قدر نہ کیا۔ لیکن مجھے یہ احساس ہو گیا کہ اسے احساس ہے کہ گھر والی کو کیسے مان دیا جاتا ہے۔ کیسے اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے۔ مجھے لوگوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ  صنوبر کو لپ سٹک پسند نہیں تھی تو اسے کبھی دبائو ڈال کر لپ سٹک نہیں لگوائی گئی۔ اسے میکے جانے پر بدکرداری کے الزام کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا اور نہ اس کا نام کسی اور کے نام سے جوڑا گیا۔

پھر یہ ہوا کہ جب  صنوبر نہ ہوتی تو میں لاہور بلا لی جاتی۔ مگر وہ خود میرے پاس نہ آتا۔ مجھے رو بصحت دیکھ کر بچے بھی مطمئن تھے۔ میں صاحب سے سوال کرتی کہ ہم کب تک چھپ چھپ کر ملیں گے۔ میں نے ایک دن کہہ ہی دیا کہ میں 26 برس سے تمہاری بیوی ہوں۔ تم مجھے ایک ہزار لوگوں کی بارات کے ساتھ لائے تھے۔ اب تم انصاف کرو۔ تم جتنا وقت اور قدر  صنوبر کو دیتے ہو اتنی ہی مجھے بھی دو۔ جب تم میری موجودگی میں اس کا فون سنتے ہو اس کی موجودگی میں میرا فون بھی سن لیا کرو۔ جب تم  صنوبر کے ساتھ ہوتے ہو تو سب کو پتہ ہوتا ہے لیکن جب میرے ساتھ ہوتے ہو تو کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔ مجھ سے تم چھپ کر ملتے ہو۔ وہ بھی گھر والی اور میں بھی گھر والی پھر یہ چھپن چھپائی کیسی؟ اس کے جواب نے مجھے حیرت غم اور احساسِ بے مائگی کے ایسے اندھیرے کنویں میں دھکا دیا جس سے میں تین سال تک نکل نہ پائی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں پہلے بے عزت زیادہ تھی یا کہ اب زیادہ حقیر ہو گئی تھی۔

جواب یہ تھا کہ گھر والیوں کی کیا اوقات ہوتی ہے، میری جان۔  اس پتھر کی بنی لڑکی کو گھر والی رہنے دو۔ تم میری باہر والی بن کر رہو۔ جانتی تو ہو کہ مجھے باہر والیوں سے کتنا لگائو رہتا ہے۔ جب جب مجھے تم چاہو گی بلا لیا کروں گا۔ روپے پیسے کی فکر نہ کرنا سب میرے ذمے۔ بس میری سہولت کے مطابق آتی جاتی رہنا۔ تنگ نہ کرنا ورنہ تم جانتی ہو تم جیسی بہت سی ہیں۔۔۔۔ ابھی اتنا ہی لکھ سکتی ہوں۔۔۔۔ باقی آئندہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2