پنجاب کے سکولوں میں ڈانس پر پابندی سٹریٹ لائیٹ افیکٹ ہے


ایک مشہور لطیفہ ہے جو کہ ملا نصر الدین سے بھی منسوب ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار ملا نصر الدین اپنی کھوئی ہوئی چابی گلی کے لیمپ کے نیچے تلاش کر رہے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ کیا اُنہیں اچھی طرح یاد ہے کہ اُنہوں نے چابی وہاں کھوئی تھی۔ ملا کہنے لگے کہ چابی تو اُن کی گھر میں گم ہوئی تھی مگر وہاں اندھیرا ہے۔ گلی میں روشنی کی وجہ سے اُنہیں صاف نظر آرہا ہے اس لیے وہ چابی یہاں تلاش کر رہے ہیں۔ اس لطیفے کی ایک ماڈرن صورت یہ ہے کہ نشے میں دھت ایک شرابی گلی کے لیمپ کے نیچے اپنی چابی ڈھونڈ رہا تھا۔ ایک پولیس والے نے جب اسے گھٹنوں کے بل چابی ڈھونڈتے دیکھا تو اس کے ساتھ مل کر ڈھونڈنے لگا۔ بہت دیر ڈھونڈنے کے بعد جب چابی نہ ملی تو پولیس والے نے پوچھا کہ کیا اسے یاد ہے کہ چابی اس نے یہاں کھوئی تھی تو وہ بولا کہ چابی تو اس نے پرے پارک میں گم کی تھی مگر وہاں اندھیرا ہے۔ میں اسے یہاں روشنی کی وجہ سے ڈھونڈ رہا ہوں۔

مندرجہ بالا فلسفے کو سٹریٹ لائٹ افیکٹ یانشے کی حالت میں چیزوں کی تلاش کہتے ہیں۔
Drunkard’s Search or Streetlight effect
اس کو سوشل سائنس کی ریسرچ سٹڈیز میں ایک تعصب یا رحجان کے طور پر مد ِنظر رکھا جاتا ہے تاکہ سوشل مسائل کے اصل حل تلاش کیے جائیں اور اس طرح کے حل سامنے نہ لائیں جن کو نافذ کرنا تو آسان ہو مگر ان کا اصل مسئلے سے کوئی تعلق نہ ہو۔

پاکستان میں تقریباً ہر مسئلے کے بے شمار سٹریٹ لائٹ افیکٹ والے حل موجود ہیں اور بعض دفعہ اُن کو عوام پر قانون کے طور پر نافذ کردیا جاتا ہے۔ کچھ روز پہلے پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ پنجاب کے سکولوں میں کلچر اور آرٹ کے تحت کیے گئے ڈانس بند کر رہے ہیں۔ ایک تجزئیے کے مطابق یہ قدم قصور کی سات سالہ بچی زینب انصاری کے ریپ اور قتل کے بعد اس واقعات کی روک تھام کے لئے کیا گیا ہے۔ حالانکہ ابھی تک یہ بات سامنے نہیں آئی کہ زینب کے قاتل نے کسی ڈانس کو دیکھنے یا اُس میں حصہ لینے کے بعد اس ریپ اور قتل کا ارادہ کیا تھا۔

یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کون سی سوشل سٹڈی مد ِنظر رکھ کر یہ حکم صادر کیا ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوا ہو کہ ایسے واقعات سکولوں میں ڈانس کرنے کا نتیجہ ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بہت لوگ ہر ریپ، قتل اور جنسی ہراسانی کو عورتوں کی آزادی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ چاہے یہ ریپ اور قتل چھوٹے لڑکے، لڑکیوں کے کیوں نہ ہوں اور چاہے وہ مدرسے اور مسجدوں میں کیوں نہ ہو رہے ہوں اور چاہے جنسی ہراسانی مرد اور عورت دونوں، چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں پر کیوں نہ کر رہے ہوں جو کہ ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے۔ ان سب باتوں کا یہ حل پیش کیا جاتا ہے کہ عور ت پر مزید پابندی عائد کر دو۔

ڈانس نہ صرف ہمارے کلچر اور آرٹ کا حصہ ہے بلکہ یہ انسانی جسم کو فٹ رکھنے کے لئے بھی نہایت موثر ورزش ہے۔ اس کے علاوہ موسیقی کو روح کی غذا بھی کہتے ہیں۔ حال ہی میں یہ دریافت ہوا ہے کہ الزھامر
Alzheimer’s Disease
کے مریضوں کی یاداشت پیانو بجانے سے بہتر ہو سکتی ہے۔ اس مرض میں بڑی عمر کے لوگوں کی یاداشت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے رشتے داروں کو بھی نہیں پہچان سکتے۔

موسیقی اور ڈانس انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ بچے، بوڑھے سب ڈانس کر کے خوش ہو تے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مذہب کی سختی کی تشریح کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے موسیقی اور ڈانس کو برا سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ مگر بہت سے صوفیائے کرام نے ان کو خدا کے نزدیک پہنچنے کا ذریعہ سمجھا ہے۔ علامہ اقبال کے روحانی استاد مولانا جلال الدین رومی کے طریقت کا ڈانس ابھی بھی ترکی میں بہت مقبول ہے۔

ڈانس کرنے اور کھیلوں میں حصہ لینے سے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی توانائیاں مثبت طریقے سے صرف ہوتی ہیں۔ وہ اپنے وقت کو بے کار کی سوچوں میں ضائع کرنے کی بجائے کھیلوں کے دوستانہ مقابلوں پر لگاتے ہیں۔ یاد رہے بے کار دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔ ہر وقت کتابیں پڑھنا اس عمر کے بچوں کے لئے نہ صرف ناممکن ہے بلکہ غیر صحت مند رحجان ہے۔ اس کے علاوہ ہر بچے کو مباحثوں وغیرہ میں حصہ لینے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لہذا جن بچوں کو ڈانس میں دلچسپی ہے ان سے یہ چوائس چھین لینا نا انصافی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں جو طالب علم پڑھائی کے علاوہ کھیلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں اُن کو Well Rounded یعنی ہر طرح سے متوازن بچہ سمجھا جاتا ہے اور اُنہیں کالج میں داخلے میں فوقیت دی جاتی ہے۔

ڈانس اور موسیقی کی افادیت سے قطع نظر اس کو سکولوں میں ختم کرنے سے خصوصا لڑکیوں کے لئے اس معاشرے میں ایک اور گھٹن کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کچھ لڑکیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ شاید اگلی پابندی اُن کے جینے پر ہوگی۔ بغیر کسی وجہ کے ان بچوں سے یہ حق چھین لینا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔

حکمران جماعت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر یہ پابندی الیکشن سے پہلے کسی ایک طبقے کو خوش کرنے کے لئے لگائی گئی ہے تو یہ طبقہ صرف ان باتوں سے خوش ہو کر آپ کو ووٹ نہیں دے گا۔ وہ تو داعش جیسا نظام لانے کےلیے کوشاں ہے۔ آپ اس طبقے کو خوش کرنے کی بیکار کوششوں میں اپنے معتدل اور لبرل سپورٹرز کی سپورٹ بھی کھو دیں گے۔ یاد رکھیں عوام نے آپ کو ووٹ دیا تھا ان کو نہیں دیا جو معاشرے کو اور بھی گھٹن زدہ بنانا چاہتے ہیں۔

اگر حکمران جماعت یہ سمجھتی ہے کہ ایساکرنے سے وہ ریاست پر اپنی مسلمانی ثابت کر کے اُس کے عتاب سے بچ جائے گی تو تاریخ گواہ ہے کہ ریاست کو ان باتوں کی پرواہ نہیں ہے کہ اُس کا ایک ہی ایجنڈا ہے جو کہ سیاسی حکومتوں کو کمزور بنانا ہے۔ لہٰذا بیکار سیاسی فائدے کی خاطر قوم کے بچوں کے مفاد کی قربانی دینا بند کردیں۔

یہ بے حد ضروری ہے کہ بچوں پر ہونے والے جنسی جرائم کے اصل محرکات کا جائزہ لیا جائے کہ اُن کی روک تھام ہو سکے۔ غریب بچوں کا جنسی اور جسمانی استحصال جو کہ بے حد عام ہیں کو ختم کر نے کے لئے ٹھوس اقدام کیے جانے چاہیئں۔ مسجدوں اور مدرسوں کے بچوں پر جسمانی اور جنسی تشدد کے خاتمے کے لیے ملک کے مولویوں سے مل کر ان کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ سکولوں میں ڈانس پر پابندی لگانا بہت آسان ہے مگر ان مسائل کا حل نہیں ہے۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi