‏پاکستان میں مذہبی اکثریت کا جبر


رواں ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے حکم صادر فرمایا کہ تمام پاکستانی شہری کسی بھی سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لئے اپنے عقیدے کا اظہار کرنے کے پابند ہوں گے۔

جان سٹیورٹ مل نے شہری آزادی سے متعلق اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ اگر فرد کے غیر معروف رائے رکھنے کے حق کا تحفظ نہ کیا جائے تو جمہوریت اکثریت کے جبر میں تبدیل ہو جاتی ہے- پاکستان میں اکثریت سے مختلف عقیدہ رکھنا روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے جس سے پاکستان میں مذہبی اکثریت کا جبر بڑھتا جا رہا ہے۔

پاکستان کے قیام ہی سے پاکستانی مذہبی اقلیتوں پر زمین تنگ ہونا شروع ہوگئی- جس اقلیت کو اکثریت کے جبر کا سب سے زیادہ نشانہ بننا پڑا وہ احمدی ہیں جنھیں پاکستان میں حقارت سے قادیانی کہا جاتا ہے- احمدی پاکستان کے ابتدائی برسوں ہی سے پاکستانی مذہبی اکثریت کے غیظ و غضب کا شکار ہے- آئے روز کے انفرادی حملوں کے علاوہ احمدیوں کی ایک بڑی تعداد 1953 اور 1974 کے بلووں میں ہلاک ہوئی۔

1974 میں ایک ایسی آئینی ترمیم کے تحت جس کی نظیر پارلیمانی تاریخ میں ملنا مشکل ہے ، پاکستانی پارلیمان نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا- احمدیوں کی زندگیاں مزید مشکل بنانے کے لئے 1984 میں جنرل ضیاءالحق نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیے کی شق اٹھارہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک آرڈیننس پاس کیا جس کے تحت بہت سی چیزوں کو قابل گرفت جرم قرار دے دیا گیا جن میں احمدیوں کا کلمہ پڑھنا، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنا، اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنا اور ایک دوسرے کو السلام و علیکم کہنا شامل ہیں- ان قوانین نے معاشرے میں احمدیوں کے لئے عدم برداشت اور عدم اعتماد کو ہوا دی- یہاں تک کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد انسانی حقوق سے متضاد ان قوانین کا دفاع کرتے پائی جاتی ہے- احمدیوں کو ایک منظم پراپیگنڈے کے تحت پاکستان مخالف قرار دیا گیا حالانکہ کئی احمدی افراد پاکستان کے سول اور فوجی اداروں میں نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس پراپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہے کہ عام شہری تو ایک طرف رہے، 2009 میں طارق رحمان کے کیے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے ایلیٹ سکولوں کے اساتذہ اور طلباء کی اکثریت احمدیوں کو مساوی شہری حقوق دینے سے متفق نہیں۔

اس مضمون کے شروع میں جس فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ ایک ایسے مقدمے کا تھا جو ختم نبوت سے متعلق حالیہ متنازع قانون سازی کے بارے میں تھا۔ جج صاحب نے اپنے فیصلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل پانچ کی ایک عجیب و غریب تشریح فرمائی ہے- آرٹیکل پانچ شہریوں کی ریاست سے وفاداری سے متعلق ہے۔ جج صاحب کا ارشاد ہے کہ اپنے عقیدے کو ظاہر نہ کرنا ریاست سے وفاداری سے متضاد ہے- سمجھ سے باہر ہے کہ کسی فرد کے عقیدے کا اس کی ریاست سے وفاداری سے کیا واسطہ ہے- کیا یہ فرض کر لیا جائے کہ ریاست سے وفاداری کی بنیادی شرط مسلمان ہونا ہے؟ جج صاحب نے اس خوف کا اظہار کیا کہ کسی کے عقیدے کا علم نہ ہونے کی صورت میں “وہ” کسی حساس عہدے پر فائز ہو سکتے ہیں- آج تک کوئی ایسی ٹھوس شہادت نہیں ملی کہ احمدی یا کوئی اور اقلیت ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے- ریاست مخالف سرگرمیوں میں آج تک مذہبی اکثریت ہی کے لوگ ملوث نظر آئے- بدقسمتی ہی سمجھی جا سکتی ہے کہ اعلیٰ عدالت کے ایک جج بھی بے بنیاد پراپیگنڈے کے زیر اثر نظر آتے ہیں- جسٹس صدیقی نے یہ بھی حکم فرمایا کہ پاکستان کے تمام شہریوں کا عقیدہ تمام حکومتی شناختی دستاویزات پر درج کیا جائے جن میں برتھ سرٹیفکیٹ بھی شامل ہے- لیکن جج صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ برتھ سرٹیفکیٹ پر اندراج کے لئے نوزائدہ بچوں سے ان کے عقیدے کا کس طرح پوچھا جائے؟

یہ سب مسلمہ بنیادی انسانی حقوق کا تمسخر اڑانا ہے- کسی شخص کے عقیدے سے اس کی اپنے سرکاری فرائض کی ادائیگی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا- بہت سے احمدی پاکستانی منافرت اور عصبیت کے خوف سے اپنے اداروں میں اپنے مذہب کو ظاہر نہیں کرتے- جج صاحب شاید اس صورت حال سے خوش نہیں- آزادی اظہار کے حق میں اظہار نہ کرنے کی آزادی بھی شامل ہوتی ہے۔ کسی بھی فرد کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے بارے میں ایسی معلومات فراہم کرے جسے اس کے خلاف امتیازی سلوک برتنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ ایسے معاشرے میں جہاں مشتعل ہجوم مسیحیوں کو زندہ جلا دیتے ہے اور جہاں کمسن ہندو لڑکیوں کو ایک منظم انداز میں زبردستی مسلمان کیا جاتا ہو اور ان کے مسلمانوں سے جبری نکاح کروائے جاتے ہوں وہاں ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے استحصال کو مزید عام کرنے کا سبب بن سکتا ہے- اس فیصلے سے نازی پارٹی کا وہ حکم یاد آ جاتا ہے جس کے تحت یہودی شہریوں کو اپنے لباس پر ایک مخصوص نشان پہننا ہوتا تھا تاکہ ان کی شناخت سب کے لئے ممکن ہو۔ یہاں تک تو آ گئے، تو کیا اب پاکستانی مذہبی اقلیتوں کو ایک عدد ہولوکاسٹ کے لئے بھی ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).