عورتوں کے نعروں پر مشتعل ہونے کی بجائے سوچنا چاہیے


“کیا ہوا بشیر بابو، شکل اچھی نہیں بنا رکھی؟” میں نے ان کی طرف چائے بڑھا کر کہا۔

“بس یار، سوچ رہا ہوں، ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔ یہ کس طرف جا رہا ہے۔” اس نے فکرمندی کا اظہار کیا۔ میں بھی پریشان ہو گیا۔ شائد وہ اختلاف رائے پر جوتے، سیاہی اور بندوق اٹھانے والوں سے پریشان تھا۔

“یہ دیکھو، یہ دیکھو، کیا بے حیائی پھیلا رکھی ہے۔ یہ وومن مارچ کی تصویریں دیکھو۔۔۔ دیکھو، لکھا ہے۔۔۔”کھانا خود گرم کر لو”۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی دیکھو “میرا جسم، میری مرضی” اور۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو حد ہی ہوئی گئی “چادر اور چار دیواری، گلی سڑی لاش کو مبارک ہو۔” ہمارا معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔” بشیر بابو غصے میں تھے۔

“آپ چائے کا گھونٹ گلے میں اتاریں، الائچی والی چائے غصہ کم کر دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیارے بشیر بابو، غصے میں ہماری سوچنے، سمجھنے اور تجزیہ کرنے کو صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ پہلے چائے کا ایک گھونٹ بھریں، گہری سانس لیں، اور ایک بسکٹ بھی  کھائیں۔” میں نے بسکٹ کا پیکٹ بڑھایا اور گفتگو جاری رکھا۔

“بشیر بابو، میں آپ کی طرح اس دفتر میں کلرک تو نہیں ہوں، چپراسی ہوں، علم و عقل بھی کم ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ مجھے ان تینوں جملوں کوئی برائی نہیں نظر آتی۔ دیکھیں، میں گھر دیر سے جاتا ہوں، بیوی سارا دن کام کر کے تھکی ہوتی ہے،  اس وقت وہ بستر میں آرام کر رہی ہوتی ہے۔ اب کیا اسے حکم دینا مناسب ہے، اٹھو، کھانا گرم کرکے، پلیٹ میں ڈال کر، میرے سامنے رکھو۔ میں تو حکم دینے کے حق میں نہیں ہوں، ویسے میری اماں کہتی ہیں، “بیوی ساتھی ہوتی ہے، ملازمہ نہیں ہوتی” اور ابا کہتے تھے، “بیوی کے ساتھ  ذہنی ہم آہنگی ہونی چاہئیے، گول روٹیاں تو تندور سے بھی مل جاتی ہیں۔”

میں بھی اپنے پچوں کو یہی سکھا رہا ہوں اور کر کے بھی دکھا رہا ہوں کہ اپنے کام خود کرو، حکم چلانا اور بیٹھ کر خدمت کروانا چھوڑ دو۔ اب تو ہم سب ایک ٹیم بن گئے ہیں۔ چھٹی والے دن میں سارے گھر  میں جھاڑو پوچا کر لیتا ہوں، وہ کپڑے دھوتی ہے، بچے باتھ روم اور باورچی خانے کی صفائی کر لیتے ہیں۔ پھر ہم مل کر کھانا بناتے ہیں، مل کر کھاتے ہیں۔” میں نے اپنے گھر کے بارے بتایا۔

” اوہ یار، کچھ کام عورتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، کچھ مردوں کے، دہی لینے کو جاتا ہے؟ پیسے کما کر کون لاتا ہے؟ قطار میں لگ کر بجلی کے بل کون جمع کرواتا ہے؟” بشیر بابو پھر سے غصے میں آ گئے۔

میں نے کیتلی سے دوبارہ ان کا کپ بھرا اور جواب دیا۔ “جی ضرور، عورتوں اور مردوں کے کام الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کا فیصلہ صرف ہم مرد ہی کیوں کریں؟ ہم ایک دوسرے سے پوچھ کر، باہمی مشاورت سے کام بانٹ کیوں نہیں سکتے؟ اب میری بیوی کو جھاڑو پوچا کرنا مشکل لگتا ہے اور مجھے کپڑے دھونا نا پسند ہے، ہم نے وہ دونوں کام بانٹ لئے۔ اب میں اکیلا اپنی مرضی سے اسے کسی کام کا حکم دے دوں تو شائد وہ چاہتے نا چاہتے ہوۓ کام کر دے گی، لیکن اندر سے گھٹن کا شکار ہو گی۔ بابو جی عورتوں روبوٹ نہیں ہیں، انسان ہیں، مکمل انسان، انہیں بھی وہی احترام، آزادی اور محبت چاہئیے، جو ہم مردوں کو چاہئیے۔ اور۔۔۔اور دہی کی مثال سے شائد آپ نے گھر اور باہر کے کاموں کا حوالہ دیا ہے۔۔۔لیکن بابو جی کاموں میں ایسی کوئی تفریق ہے ہی نہیں، سب باتیں ہیں۔ آپ خریداری کرنے جائیں، وہاں مردوں سے زیادہ عورتیں نظر آیئں گی۔ کبھی بنک کے باہر بل جمع کروانے والوں پر نگاہ کیجئے گا، وہاں عورتیں بھی نظر آیئں گی۔ خواتین بل بھی جمع کرواتی ہیں اور دہی بھی خرید کر لاتی ہیں، سبزی اور دیگر راشن کی خریداری ہم مردوں سے اچھی کرتی ہیں۔ لیکن اگر گھر اور باہر کے کاموں کو الگ الگ کرنا بھی ہے تو فیصلہ دونوں کو کرنا ہو گا، جب ایک فریق فیصلہ مسلط کرے گا تو تعلق کمزور ہو گا، احترام بغاوت اور محبت، نفرت میں بدل جائے گی بابو جی۔

آپ نے پیسے کمانے کا خوب ذکر کیا۔ ہمارے دفتر میں چالیس فیصد عورتیں کام کرتی ہیں، یہ بھی اپنے گھر کی ویسے ہی کفالت کرتی ہیں، جیسے میں اور آپ۔ میری بیوی گھر میں کپڑے سلائی کرتی ہیں اور سارا دن جو گھر کے کام وہ کرتی ہے، اگر میں کسی ملازمہ سے کرواتا تو اپنی تنخواہ سے ڈبل ادا کرتا۔ لیکن نا جانے کیوں، ہم ان کی خدمات پر شکر گزار نہیں ہوتے۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ میرا دادا کھیتوں میں کام کرتا تھا اور میری دادی کھیتوں میں کام کے ساتھ گھر سنبھالتی تھی، بچوں کا خیال رکھتی تھی، عزیزوں رشتہ داروں سے ملتی تھی، اور نا جانے کیا کچھ کرتی تھی۔ میرا مشاہدہ مجھے کسی عورت کو مرد سے کم سمجھنے کی اجازت نہیں دیتا۔” مجھے اپنا گاؤں اور پچپن یاد آ گیا۔

” ہاں ہاں۔۔ٹھیک ہے، لیکن اب یہ کیا بات ہوئی، “میرا جسم، میری مرضی”، یہ تو شرمناک ہے یار۔” بشیر بابو کا غصہ ختم ہو گیا تھا لیکن فکرمند ابھی بھی تھے۔

“اچھا تو جملہ ہے۔۔۔میرا جسم، میری مرضی۔۔۔۔اگر آپ اس کی تصیح کریں تو کیسے کریں گے؟۔۔۔کیا یہ مناسب ہو گا۔۔۔میرا جسم، تمہاری مرضی۔۔۔یا پھر ۔۔۔تمہارا جسم، میری مرضی۔۔۔۔اب ظاہر ہے جس کا جسم ہے، اسی کی مرضی ہے نا۔ لیکن ہمیں برا اس  لئے لگا، کیونکہ یہ بات ایک عورت کہہ رہی ہے۔ شاید کہیں نہ کہیں ہم اب بھی چاہتے ہیں کہ ایک عورت کہے، میرا جسم، تمہاری مرضی۔۔۔ہم اس پر مکمل اختیار چاہتے ہیں۔ لیکن کیا ہم وہی اختیار، خود پر، میرا مطلب ہے اپنے آپ پر۔۔۔کسی دوسرے کو دینا چاہیں گے؟ میں تو کسی کو ایسا اختیار نہیں دے سکتا، یہ میری شخصی آزادی کے خلاف ہے۔ پھر جب ایک عورت اپنے اس حق کو مانگتی ہے، تو مجھے برا کیوں لگتا ہے؟ میں ساتھ مل کر اس حق کے لئے آواز کیوں نہیں بلند کر سکتا۔ بابو جی، یہ حق تلفی کے خلاف آواز صرف کسی گلی میں جاتی عورت یا صرف بیوی کی نہیں ہے،  یہ آواز میری بہن کی بھی ہے، ماں کی بھی ہے، بیٹی کی بھی ہے۔” میری نظروں کی سامنے میری چھے سالہ بیٹی کا معصوم چہرہ آ گیا۔ ایک دن اسے بھی اپنے جسم پر اپنا حق اور مرضی قائم رکھنے کے لئے ایسا ہی احتجاج کرنا پڑ سکتا ہے۔

“اوہ یار، ایسے جملوں کی ضرورت کیا ہے۔ عورتیں محفوظ ہیں، ان سے کون زبردستی کر رہا ہے۔” بشیر بابو نے ٹائی ڈھیلی کر لی، آستین چڑھا لئے۔

“اچھا تو اب عورتیں ہم سے پوچھ کر، ہماری اجازت و مرضی سے، اپنے حقوق کے لئے، جملوں کا انتخاب کریں؟ بابو جی، جس لڑکی نے پوسٹر پکڑا ہے، وہ اس کے جذبات ہیں، کہنے دیں۔ آپ کو نہیں پسند تو نا دیکھیں۔۔۔۔۔شکر کریں، ہمارا کوئی عزیز زبردستی سے نہیں گزرا، اس لئے ہمیں زبردستی کا پتہ ہی نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جس قدر دودھ میں ملاوٹ عام ہے، اس سے زیادہ زبردستی عام ہے۔ آپ کی کسی دن میں چند تیزاب میں جھلسے چہروں سے ملواؤں گا۔ ویسے آپ بھی اپنے ارد گرد دیکھیں، زبردستی روز نظر آئے گی۔ آپ کسی بھی خاتون سے پوچھ لیں، اس نے زبردستی کی کسی نہ کسی شکل کا تجربہ ضرور کیا ہو گا۔” اب میں فکرمند تھا۔

“اسی لئے چادر اور چار دیواری کو اہمیت دی جاتی ہے، لیکن یہ دیکھو، اس پوسٹر پر لکھا ہے۔ “چادر اور چار دیواری، گلی سڑی لاش کو مبارک ہو۔” یہ تو بے غیرتی کے ساتھ ساتھ جہالت بھی ہے۔ ” بشیر بابو نے بڑی سی گالی بھی دی، ان کی ناراضی میں نفرت کی آمیزش تھی۔

“بابو جی، ایسے سخت الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ اختلاف رائے کا حق ہے لیکن الفاظ کا انتخاب دانش مندی سے کرنا چاہئیے۔ ہمارے الفاظ ہماری تربیت، خاندان اور شخصیت کے بارے بھی بیان کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں، میں بھی ایسا سمجھتا تھا بابو جی کہ عورت کو چادر میں ڈھانپ کر چار دیواری میں محفوظ بلکہ حنوط کرنا ہی اس کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ لیکن پھر جب جب میری بہن کا کالج میں داخلہ ہوا، وہ اپنی میڈم سمیرا کی تعریفیں کرتی تو میں سوچتا اگر میڈم سمیرا کو چار دیواری میں محفوظ کر دیا ہوتا، وہ تعلیم حاصل کرنے گھر سے نا نکلتی، مردوں سے بات نہ کرتی، دفتروں میں نا جاتی تو میری بہن کو ایسی شاندار استانی میسر نا آتی۔ پھر جب ہمارا پہلا کاکا ہوا تو لیڈی ڈاکٹر کی اہمیت کا اندازہ ہوا، نرسز کی خدمت دیکھ کر تو پاؤں چھو لینے کو دل چاہا۔ اب اس دفتر میں بھی جب آپ کا کمپیوٹر خراب ہوتا ہے، مس مائرہ آتی ہیں، کمپیوٹر ٹھیک کر دیتی ہیں، نیٹ ورک چالو کر دیتی ہیں۔ اس طرح ہمارے ارد گرد اور بھی ہزاروں مثالیں ہیں۔ یہ وہ سب خواتین تھیں جنہوں نے چادر و چار دیواری کو ایک طرف رکھ کر، اپنے خوابوں کے سفر کا آغاز کیا، رکاوٹوں کو ہٹایا، پہاڑوں کو سر کیا اور ہماری سماجی زندگی میں مددگار ثابت ہوئیں۔ آپ کو کیسا لگے گا، اگر تمام خواتین چار دیواری میں محفوظ ہوں اور آپ کے بیوی کے لئے لیڈی ڈاکٹر نا ہو، نرس کی جگہ کوئی مرد ہو؟” میں نے جواب طلب نظروں سے بشیر بابو کو دیکھا۔

“ٹھیک ہے لیکن پھر بھی ایسے احتجاج نا مناسب ہے۔” ان کے لہجے کے تحمل نے ان کی شخصیت کو جاذب بنا دیا تھا۔

” احتجاج یا ریلی کا مقصد کسی بات پر توجہ دلوانا ہوتا ہے۔ ہم خواتین کے بارے سوچتے ہی نہیں، ان سے کچھ پوچھتے ہی نہیں، توجہ تو دور کی بات ہے۔ ایسی ریلیوں سے ہم مردوں کو اپنے رویوں پر نگاہ کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ ہمیں حقائق  کو دوبارہ سے دیکھنے اور سمجھنے کی دعوت ملتی ہے۔ اس طرح ہم اپنے رویے اور اپنے معاشرے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ آپ کو ریلی میں جانا نہیں پسند تو مت جائیے، لیکن آپ اتنا ضرور سوچیں، کیا ہمارا معاشرہ ایسا ہے، جہاں ہم اپنی بہن، بیٹی کو محفوظ سمجھ سکیں؟ اگر ہے تو خوشی کی بات ہے، اگر نہیں تو پھر اگلا سوال ہے، خود سے آغاز کرکے، معاشرے میں کیا تبدیلیاں درکار ہیں؟ کیا مزید صرف خواتین کی تربیت کی ضرورت ہے یا مردوں کو بھی خواتین سے تربیت قبول کرنے کی ضرورت ہے؟ میں تو ان سوالات پر سوچتا ہوں۔ مناسب سمجھیں تو آپ بھی سوچیں۔” میں نے چائے کے برتن سمیٹنا شروع کر دیئے۔

“میں بھی اس سب پر سوچوں گا۔ خواتین کے حقوق، احترام اور برابری کی ہر کوشش میں شامل ہوں گا۔ میں ان کی شخصی آزادی کو قبول کروں گا، انہیں وہی احترم دوں گا، جو میں اپنے لئے چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔میں خواتین کو سلام پیش کرتا ہوں۔۔۔۔ غیرمشروط سلام۔” بشیر بابو نے کھڑے ہو کر، ٹائی کس کر، سلیوٹ مارا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).